Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 66
فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ یَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَعَمِيَتْ : پس نہ سوجھے گی عَلَيْهِمُ : ان کو الْاَنْۢبَآءُ : خبریں (باتیں) يَوْمَئِذٍ : اس دن فَهُمْ : پس وہ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ : آپس میں سوال نہ کریں گے
تو وہ اس روز خبروں سے اندھے ہو جائیں گے، اور آپس میں کچھ بھی پوچھ نہ سکیں گے
فَعَمِیَتْ عَلَیْھِمْ الْاَنْبَآء یعنی جواب دینے کے سلسلہ میں وہ اندھوں کی طرح ہوجائیں گے جن کو کوئی راستہ نہیں سوجھتا ‘ پس وہ بھی اسی طرح کچھ بتانے سے عاجز ہوجائیں گے۔ کلام میں زور پیدا کرنے کے لئے اسلوب کو بدل دیا گیا ہے ‘ اصل کلام اس طرح تھا : فَعَمُوْا عَنِ الْاَنْبَآء مقصود یہ ہے کہ دنیا میں جو وجودہ بیان کی جاتی ہیں ‘ وہ عارضی ہوتی ہیں ‘ بیرونی تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ قیامت کے دن بیرونی اغواء تو ختم ہوچکا ہوگا اور کوئی خارجی حیلہ گری موجود نہ ہوگی اس لئے کوئی جواب دے نہ سکیں گے۔ اَلْاَنْبَآءُ اس سے مراد ہے پیغمبروں کو جھوٹا قرار دینے کا عذر۔ مجاہد نے کہا کہ دلائل مراد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ نہ کرسکیں گے اور کوئی دلیل پیش نہیں کرسکیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں ہوگی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس روز ڈر کے مارے جب پیغمبر جواب میں لڑکھڑائیں گے اور جواب کو اللہ کے علم کے سپرد کردیں گے (اور کہیں گے کہ تو جانتا ہے ‘ تیرے علم میں ہے کہ ہم نے ان کو شرک کا حکم نہیں دیا وغیرہ) تو کافر لوگ کس گنتی میں ہوں گے۔ وہ کیا کہہ سکیں گے فَھُمْ لَاَیَتَسَآءَ لُوْنَ وہ آپس میں سوال نہیں کرسکیں گے ‘ دہشت اور خوف کی وجہ سے پوچھنے کی بھی ہمت نہ ہوگی یا اس خیال سے نہیں پوچھیں گے کہ جس سے سوال کیا جائے گا وہ بھی سائل کی طرح (لاجواب) ہوگا ‘ پھر پوچھنے کا کیا حاصل۔
Top