Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Qasas : 7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ
: اور ہم نے الہام کیا
اِلٰٓى
: طرف۔ کو
اُمِّ مُوْسٰٓى
: موسیٰ کو
اَنْ اَرْضِعِيْهِ
: کہ تو دودھ پلاتی رہ اسے
فَاِذَا
: پھر جب
خِفْتِ عَلَيْهِ
: تو اس پر ڈرے
فَاَلْقِيْهِ
: تو ڈالدے اسے
فِي الْيَمِّ
: دریا میں
وَ
: اور
لَا تَخَافِيْ
: نہ ڈر
وَلَا تَحْزَنِيْ
: اور نہ غم کھا
اِنَّا
: بیشک ہم
رَآدُّوْهُ
: اسے لوٹا دیں گے
اِلَيْكِ
: تیری طرف
وَجَاعِلُوْهُ
: اور اسے بنادیں گے
مِنَ
: سے
الْمُرْسَلِيْنَ
: رسولوں (جمع)
اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا۔ ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اُسے پیغمبر بنا دیں گے
واوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیۃ . اور (موسیٰ کے پیدا ہونے کے بعد) ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ موسیٰ کو اپنا دودھ پلا۔ بغوی نے بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کا نام یوخابذ بنت لاوی تھا اور لاوی حضرت یعقوب کا بیٹا تھا۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ وحی نبوت والی وحی نہیں تھی ‘ نہ کوئی عورت نبی ہوئی۔ قتادہ نے اس جگہ اوحَیْنَا کا ترجمہ کیا : ہم نے اس کے دل میں ڈال دیا۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اسی کو الہام کہتے ہیں ‘ الہام ہی کی ایک قسم وہ سچا خواب بھی ہے جس سے دل کو یقین اور اطمینان ہوجائے۔ یہ آیت دلالت کر رہی ہے کہ الہام بھی علم کا ایک ذریعہ ہے اگرچہ اس سے علم ظنی (غیریقینی) حاصل ہوتا ہے لیکن الہام قلبی اور القاء انہی دلوں کا قابل اعتبار ہوتا ہے جو پاک صاف اور حامل اطمینان ہوں۔ وسوسے اور الہام کا فرق ہی یہ ہے کہ وسوسہ (دل کا کھٹکا) موجب اطمینان نہیں ہوتا اور الہام سے اطمینان قلبی حاصل ہوجاتا ہے اور (صاحب الہام کو اپنی جگہ) قلبی یقین ہوجاتا ہے۔ اظنْ اَرْضِعِیْہِ یعنی موسیٰ کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی اور کہہ دیا کہ جب تک پوشیدہ رکھنا ممکن ہو ‘ موسیٰ کو دودھ پلاتی رہ۔ حضرت موسیٰ نے والدہ کا دودھ کتنی مدت پیا ‘ علماء کے اقوال اس میں مختلف ہیں۔ کسی نے آٹھ ماہ کیا ہے ‘ کسی نے چار ماہ ‘ کسی نے تین ماہ۔ موسیٰ کی والدہ موسیٰ کو گود میں لئے دودھ پلاتی رہتی تھیں اور وہ نہ روتے تھے ‘ نہ حرکت کرتے تھے۔ کذا ذکر البغوی۔ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی انا رآدوہ الیک وجاعلوہ من المرسلین . پھر جب تجھے اس کی نسبت) (جاسوسوں کے مطلع ہونے کا) اندیشہ (خطرہ) ہوجائے تو اس کو سمندر (یعنی نیل) میں ڈال دینا اور (اس کے ڈوب جانے کا) اندیشہ نہ کرنا ‘ نہ (جدائی کا) کوئی غم کرنا۔ یقیناً ہم اس کو تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (وقت آنے پر) اس کو پیغمبر بنا دیں گے۔ اَلْیَمْ سمندر ‘ مراددریائے نیل۔ اِنَّا رَآدُّوْوُ اِلَیْکِ یعنی ہم عنقریب اس کو تیرے پاس واپس اس طرح پہنچا دیں گے کہ پھر تجھے اس کی نسبت کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ علماء اور ضحاک راوی ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : مصر میں جب بنی اسرائیل کی تعداد بہت ہوگئی اور لوگوں پر انہوں نے درازدستی شروع کردی ‘ اللہ کی نافرمانیاں کرنے لگے۔ نہ بھلائی کا کسی کو حکم دیتے تھے ‘ نہ گناہ سے منع کرتے تھے۔ آخر اللہ نے ان پر قبطیوں کو مسلط کردیا۔ قبطیوں نے ان کا زور توڑ دیا اور بہت زیادہ کمزور بنا دیا۔ بالآخر اللہ نے اپنے نبی موسیٰ کے ذریعہ سے قبطیوں کے تسلط سے ان کو رہا کرا دیا۔ حضرت ابن عباس کا یہ بھی بیان ہے کہ جب موسیٰ کی ولادت کا زمانہ قریب آگیا تو موسیٰ کی والدہ نے ایک دایہ کو بلوایا ۔ یہ دایہ انہی دائیوں میں سے تھی جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کی حاملہ عورتوں کے لئے مقرر تھیں لیکن موسیٰ کی والدہ کی دوست تھی ۔ دردِزہ ہوا تو اسی دائی کو بلوایا ‘ وہ آگئی تو اس سے کہا : میری جو حالت ہے تجھے معلوم ہے۔ آج تیری دوستی سے مجھے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ دائی اپنے کام میں لگ گئی۔ جب موسیٰ پیدا ہوگئے اور دائی کے ہاتھوں میں آگئے تو موسیٰ کی دونوں آنکھوں کے بیچ سے ایک نور نکلتا دیکھ کر دائی حیرت زدہ ہوگئی۔ اس کا ہر جوڑ لرز اٹھا ‘ پورے بدن میں سنسنی پیدا ہوگئی اور موسیٰ کی محبت اس کے دل میں جم گئی۔ موسیٰ کی ماں سے کہنے لگی : تو نے جب بلوایا تھا اور میں تیرے پاس آئی تھی اس وقت میرے پیچھے تیرے بیٹے کو قتل کرنے والے تھے (یعنی میرا ارادہ تھا کہ تیرے بچہ کو قاتلوں کے حوالے کر دوں گی) لیکن اب میرے دل میں تیرے بیٹے کی محبت ایسی محسوس ہوتی ہے کہ ایسی محبت میں نے کسی کی نہ پائی ‘ اس لئے میں کہتی ہوں کہ اپنے بیٹے کی حفاظت رکھنا۔ پھر دائی کو موسیٰ کی ماں کے گھر سے نکلتے کسی جاسوس نے دیکھ لیا ‘ فوراً سب دروازہ پر آگئے اور اندر گھسنا چاہا۔ حضرت موسیٰ کی بہن دوڑی آئی اور کہنے لگی : اماں ! دروازہ پر سپاہی آگئے۔ فوراً موسیٰ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بہن نے تنور میں ڈال دیا۔ تنور میں آگ روشن تھی لیکن اس کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔ اس کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ سرکاری آدمی اندر گھس آئے۔ تنور بھڑک رہا تھا اور موسیٰ کی والدہ کے چہرے پر کوئی تغیر نہ تھا ‘ نہ چہرے کے رنگ میں کوئی فرق آیا تھا ‘ نہ دودھ اترا تھا۔ کہنے لگے : دائی یہاں کیوں آئی تھی۔ حضرت موسیٰ کی والدہ نے کہا : وہ میری دوست ہے ‘ ملاقات کے لئے آئی تھی۔ غرض وہ لوگ واپس چلے گئے۔ اب موسیٰ کی والدہ کی عقل بھی ٹھکانے پر آئی اور موسیٰ کی بہن سے پوچھا : بچہ کہاں ہے ؟ موسیٰ کی بہن نے کہا : مجھے معلوم نہیں۔ اتنے میں تنور کے اندر سے بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ ماں نے جا کر دیکھا تو تنور کی آگ موسیٰ کے لئے ٹھنڈی پڑچکی تھی اور خنکی بھی اتنی جو باعث سلامتی تھی ‘ ماں نے موسیٰ کو اٹھا لیا۔ پھر مدت کے بعد والدۂ موسیٰ نے دیکھا کہ فرعون کو لڑکوں کی تلاش بےحد ہے اور اس کو اپنے بچہ کا خطرہ ہوا تو اللہ نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ایک صندوق لے کر موسیٰ کو اس میں رکھ کر دریا میں ڈال دے۔ اس خیال کے پیدا ہوتے ہی وہ ایک بڑھئی کے پاس آگئی جو فرعون کی قوم میں سے تھا اور اس سے ایک صندوقچہ خریدا۔ بڑھئی نے پوچھا : تجھے کس کام کے لئے ضرورت ہے ؟ موسیٰ کی والدہ نے جھوٹ بولنا پسند نہیں کیا ‘ سچ بتادیا کہ میرا ایک بچہ ہے ‘ میں صندوقچہ کے اندر اس کو چھپاؤں گی۔ بڑھئی نے پوچھا : کیوں ؟ والدۂ موسیٰ نے کہا : فرعون کے خوف سے۔ غرض صندوقچہ خرید کر اٹھا لائی۔ وہ بڑھئی کے پاس سے چلی ہی تھی کہ بڑھئی قاتلوں کو اس واقعہ کی اطلاع دینے پہنچ گیا اور کچھ بولنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اللہ نے زبان روک دی اور بولنے کی طاقت سلب ہوگئی ‘ کچھ نہ بول سکا اور ہاتھ سے اشارے کرنے لگا لیکن سپاہی کچھ نہ سمجھ سکے۔ جب اشاروں کو سمجھنے سے عاجز آگئے تو ان کے سردار نے حکم دیا کہ اس کو مار کر نکال دو ۔ بڑھئی پٹ پٹا کر اپنی جگہ پہنچا تو اللہ نے پھر زبان میں گویائی کی طاقت لوٹا دی۔ وہ پھر مخبری کرنے کے ارادہ سے سپاہیوں کے پاس پہنچا ‘ اس مرتبہ زبان بھی بند ہوگئی اور نظر بھی جاتی رہی۔ نہ بول سکا ‘ نہ آنکھوں سے کچھ دیکھ سکا۔ آخر مار کر لوگوں نے نکال دیا۔ بڑھئی حیران پریشان لڑکتا پڑکتا ایک وادی میں جا پہنچا اور اس نے پختہ نیت کرلی کہ اگر اللہ نے میری نگاہ اور قوت گویائی واپس کردی تو وہ موسیٰ کی نشاندہی نہیں کرے گا بلکہ موسیٰ جہاں ہوں گے ان کے ساتھ رہے گا اور ان کی حفاظت کرے گا۔ اللہ نے اس کو سچا جانا اور بینائی اور گویائی واپس دے دی ‘ فوراً سجدہ میں گرگیا اور دعا کی : اے میرے رب ! مجھے اس نیک بندہ کا پتہ بتادے۔ اللہ نے اس کو موسیٰ تک پہنچنے کا راستہ بتادیا۔ وہ وادی سے نکل آیا اور موسیٰ پر ایمان لے آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ بات اللہ کی طرف سے ہے۔ وہب بن منبہ نے بیان کیا کہ موسیٰ کی والدہ جب حاملہ ہوگئی تو اس نے اپنی حالت پوشیدہ رکھی ‘ کوئی بھی اس کے حمل سے واقف نہ ہوا۔ چونکہ بنی اسرائیل پر اللہ کو احسان کرنا مقصود تھا اس لئے حمل پر پردہ ڈال دیا۔ موسیٰ کی پیدائش کا سال وہی تھا کہ فرعون نے تفتیش کے لئے دائیوں کو بنی اسرائیل کی عورتوں پر مامور کردیا تھا اور ایسی تفتیش کرائی تھی کہ اس سے پہلے کبھی ایسی جستجو نہیں ہوئی۔ موسیٰ کی ماں حاملہ تو ہوگئی تھی مگر پیٹ میں کوئی ابھار ہی نہیں ہوا تھا ‘ نہ رنگ بدلا تھا ‘ نہ دودھ اترا تھا۔ دائیاں اس سے کوئی تعرض ہی نہیں کرتی تھیں۔ جب شب ولادت آگئی اور موسیٰ پیدا ہوگئے تو اس وقت نہ کوئی چوکیدار تھا ‘ نہ کوئی دائی۔ سوائے موسیٰ کی بہن کے موسیٰ کے پیدا ہونے کی کسی کو اطلاع ہی نہ ہوئی ‘ بہن کا نام مریم تھا۔ اللہ نے موسیٰ کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس کو دودھ پلاتی رہ۔ جب تجھے (فرعون کے آدمیوں کے مطلع ہوجانے کا) خطرہ ہوجائے تو اس کو دریا میں ڈال دینا۔ موسیٰ کی والدہ بچہ کو تین ماہ تک گود میں چھپائے دودھ پلاتی رہیں۔ موسیٰ روتے بھی نہ تھے اور نہ حرکت کرتے تھے۔ بالآخر والدۂ موسیٰ کو جب (قوی اندیشہ ہوگیا تو اس نے ایک سربند صندوق بنوایا۔ بعض کا خیال ہے کہ ایک صندوقچہ لیا جس کے اندر تارکول کا پالش کردیا اور درازیں بند کردیں اور بچھوناکر دیا اور موسیٰ کو اندر رکھ کر صندوقچہ بند کر کے دریا میں رات کو ڈال دیا۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ فرعون کی صرف ایک لڑکی تھی ‘ اور کوئی اولاد نہ تھی۔ لڑکی سے فرعون کو بڑی محبت تھی۔ ہر روز فرعون سے وہ اپنے تین کام پورے کراتی تھی۔ اس لڑکی کو سخت برص تھا ‘ فرعون نے اس کے علاج کے لئے مصر کے تمام اطباء اور ساحروں کو جمع کیا (طبیب کوئی کامیاب علاج نہ کرسکے) ساحروں نے کہا کہ اس کو صحت دریا کی طرف سے ہوگی۔ کوئی چیز انسان کی شکل میں دریا میں پائی جائے گی ‘ اس کے منہ کا لعاب لے لیا جائے اور برص کے داغوں پر لگا دیا جائے تو یہ اچھی ہوجائے گی۔ ایسا فلاں دن فلاں ساعت میں سورج نکلنے کے وقت ہوگا۔ چناچہ دوسرا دن دوشنبہ کا تھا۔ فرعون نے نیل کے کنارے اپنی بیٹھنے کی جگہ تیار کرائی اور جا کر بیٹھا ‘ ساتھ میں اس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم بھی تھی۔ فرعون کی لڑکی بھی اپنی خادماؤں کے ساتھ آکر نیل کے کنارے بیٹھ گئی اور لڑکیوں کے منہ پر پانی کے چھپاکے مار مار کر کھیلنے لگی۔ اچانک نیل میں بہتا ہوا سامنے سے ایک صندوق نظر آیا ‘ لہریں طمانچے مار مار کر اس کو لا رہی تھیں۔ فرعون نے کہا : نیل میں یہ چیز درخت سے آویختہ ہے ‘ اس کو لاؤ۔ ہر طرف سے کشتیوں نے جا کر اس کو گھیر لیا اور لا کر فرعون کے سامنے رکھ دیا۔ لوگوں نے ہرچند کھولنے کی تدبیریں کیں لیکن کھول نہ سکے ‘ پھر توڑنا چاہا تو توڑ بھی نہ سکے۔ آخر آسیہ قریب آئی اس کو صندوق کے اندر ایک نور دکھائی دیا جو کسی اور کو نہیں دکھائی دیا۔ کوشش کر کے اس نے صندوق کو کھول دیا۔ اندر ایک چھوٹا سا بچہ بچھونے پر لیٹا تھا ‘ اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ایک نور چمک رہا تھا اور اللہ نے اس کا رزق دونوں انگوٹھوں میں پیدا کردیا تھا جن کے اندر سے وہ دودھ چوس رہا تھا۔ اللہ نے بچہ کی محبت آسیہ کے دل میں ڈل دی۔ فرعون بھی اس سے محبت کرنے لگا اور دل سے مہربان ہوگیا۔ صندوقچہ سے بچہ کو نکالا گیا۔ فرعون کی لڑکی بھی آگئی اور اس نے بچہ کے منہ کا لعاب لے کر اپنے داغوں پر ملا ‘ فوراً اچھی ہوگئی۔ لڑکی نے بچہ کو چوم لیا اور سینے سے چمٹا لیا۔ جادوگروں نے کہا : اے بادشاہ ! ہمارا خیال ہے کہ یہ وہی بچہ ہے جس سے تجھے خطرہ تھا۔ یہ بنی اسرائیل کا بچہ ہے ‘ تیرے خوف سے اس کو دریا میں پھینک دیا گیا ہے۔ فرعون نے بچہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آسیہ نے قُرَّۃُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ لاَ تَقْتُلُوْہُ عَسیٰٓ اَنْ یَّنْفَعَنَا اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرو امید ہے کہ یہ ہماے کام آئے گا یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں گے۔ آسیہ کے اولاد نہ ہوتی تھی (بانجھ تھی یا کوئی اور وجہ تھی) فرعون سے آسیہ نے کہا : موسیٰ کو مجھے دے دو ۔ فرعون نے آسیہ کو موسیٰ ہبہ کردیا اور کہنے لگا : مجھے اپنے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آسیہ سے کہا گیا کہ اس کا کچھ نام رکھو۔ آسیہ نے کہا : میں نے اس کا نام موسیٰ رکھا دیا ہے کیونکہ ہم نے اس کو پانی اور درختوں کے درمیان پایا تھا۔ مُو پانی اور سَا درخت۔
Top