Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 32
قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا١ؕ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا١٘ٙ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١٘ۗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
قَالَ : ابراہیم نے کہا اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں لُوْطًا : لوط قَالُوْا : وہ بولے نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَنْ فِيْهَا : اس کو جو اس میں لَنُنَجِّيَنَّهٗ : البتہ ہم بچا لیں گے اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : سوا امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ ہے مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
ابراہیم نے کہا کہ اس میں تو لوط بھی ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ جو لوگ یہاں (رہتے) ہیں ہمیں سب معلوم ہیں۔ ہم اُن کو اور اُن کے گھر والوں کو بچالیں گے بجز اُن کی بیوی کے وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی
قال ان فیھا لوطًا . ابراہیم نے کہا : اس میں تو لوط بھی ہیں۔ یعنی ایسے لوگ بھی وہاں موجود ہیں جو ظالم نہیں ہیں۔ یہ ملائکہ کے قول پر ابراہیم نے اعتراض کیا ‘ یا یہ بطور معارضہ فرمایا (کہ کافروں اور بدکاروں کا وہاں ہونا ضرور موجب عذاب ہے لیکن) ان کا پیغمبر لوط وہاں موجود ہے جس کی موجودگی مانع عذاب ہے۔ قالوا نحن اعلم بمن فیھا . فرشتوں نے کہا : جو لوگ اسی بستی کے اندر ہیں ہم ان کو (آپ سے) زیادہ جانتے ہیں۔ لننجینہ واھلہ . ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو ضرور بچا لیں گے۔ ملائکہ کی طرف سے یہ قول حضرت ابراہیم کے اعتراض کو تسلیم کرنے پر دلالت کر رہا ہے لیکن اسی کے ساتھ حضرت ابراہیم کے علم سے زیادہ علم کا اظہار بھی ہے (کہ آپ نہیں جانتے کہ ہم ان کو بچا لیں گے) اور ابراہیم کی بات کا پورا جواب بھی اس سے ہوگیا کہ (آپ فکر نہ کریں) ہم لوط اور لوط کے گھر والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو غارت کریں گے۔ یا یوں کہا جائے کہ بستی والوں کی تباہی کا وقت مقرر کردیا کہ جب لوط اور ان کے ساتھیوں کو ہم وہاں سے نکال لیں گے اس وقت بستی کو غارت کریں گے (فرشتوں نے پہلے کہا تھا کہ ہم اس بستی کے باشندوں کو ہلاک کردیں گے ‘ اس قول میں حضرت لوط کا استثناء نہیں کیا تھا لیکن جب حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ وہاں تو لوط بھی ہیں تو فرشتوں نے کہا کہ ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے۔ یہ استثناء یا تخصیص اول کلام سے بعد کو کی) یہ وقت خطاب سے تاخیر بیان ہے جو ناجائز نہیں ہے ‘ ہاں وقت حاجت سے بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ الا امراتہ کانت من الغٰبرین . مگر لوط کی بیوی کو (ضرور ہلاک کریں گے) کیونکہ وہ (ا اللہ کے علم میں ہے کہ) پیچھے رہ جانے ولوں میں شامل ہوگئی۔ یعنی عذاب میں یا بستی میں رہ جائے گی۔ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ استثناء کی علت ہے۔
Top