Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور عاد اور ثمود کو بھی (ہم نے ہلاک کر دیا) چنانچہ اُن کے (ویران گھر) تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں اور شیطان نے اُن کے اعمال ان کو آراستہ کر دکھائے اور ان کو (سیدھے) رستے سے روک دیا۔ حالانکہ وہ دیکھنے والے (لوگ) تھے
وعادًا وثمودًا وقد تبین لکم من مسکنھم وزین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل اور ہم نے عاد وثمود کو بھی ہلاک کیا اور یہ امر تمہارے لئے ان کے مقامات سکونت (دیکھنے سے) واضح ہو رہا ہے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں آراستہ کردیا تھا اور ان کو راہ (حق) سے روک دیا تھا۔ وَعَادًا وَّثَمُوْدَ اس جگہ فعل محذوف ہے یعنی ہم نے عاد وثمود کو ہلاک کیا۔ وَقَدْتَبَیَّنَ لَکُمْ اور اے مکہ والو ! تمہاری نظروں کے سامنے ہیں ‘ واضح ہیں۔ مِنْ مَسٰکِنِھِمْ ان کے کچھ مقامات سکونت ‘ یا یہ مطلب ہے کہ جب ان کے ویران مقامات کی طرف جاتے ہو اور ادھر سے گزرتے ہو تو ان کے کھنڈروں سے تم پر ان کو تباہ ہوجانا واضح ہوجاتا ہے۔ اَعْمَالَھُمْ یعنی کفر اور گناہ۔ عَنِ السَّبِیْلِ یعنی پیغمبروں کے بنائے ہوئے جنت کے راستہ سے شیطان نے ان کو روک دیا۔ وکانوا مستبصرین . اور (ویسے دنیوی امور میں) وہ ہوشیار تھے۔ مقاتل ‘ قتادہ اور کلبی نے اس جملہ کی تشریح میں کہا کہ وہ لوگ اپنے مذہب کو اور حق سے گمراہ ہونے کو پسند کرتے تھے اور اپنے آپ کو راہ راست پر خیال کرتے تھے۔ اسی تشریح کی بنا پر آیت کا معنی یہ ہوگا کہ وہ اپنی نظر میں (اپنے دین کے معاملہ میں) بڑے ہوشیار تھے۔ فراء نے مستبصر ہونے کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ وہ لوگ اہل دانش و ہوش تھے ‘ بصیرت مند تھے ‘ غور و فکر کرسکتے تھے لیکن انہوں نے غور و فکر سے کام نہیں لیا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان پر واضح کردیا گیا تھا کہ ان پر عذاب ضرور آئے گا۔ پیغمبروں کے اقوال سے ان پر ظاہر ہوچکا تھا کہ (اگر وہ تائب نہ ہوئے تو) ھ عذاب میں مبتلا ہوں گے لیکن وہ اپنے افکار واطوار پر جمے رہے اور نتیجہ میں تباہ کر دئیے گئے۔
Top