Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو
یعبادی الذین امنوا ان ارضی واسعۃ فایای فاعبدون . اے میرے ایمان دار بندو ! میری زمین فراخ ہے سو خاص میری ہی عبادت کرو۔ اِیَّای فعل محذوف کا مفعول ہے یعنی اُعْبُدُوْا اِیَّای اور فاعْبُدُوْن اس کی تاکید ہے۔ مقاتل اور کلبی نے کہا : اس آیت کا نزول ان کمزور مسلمانوں کے حق میں ہوا جو (کمزوری کی وجہ سے) مکہ میں رہ گئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ مکہ کے اندر رہ کر اگر تم ایمان کا اظہار نہیں کرسکتے ہو تو وطن چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جاؤ جہاں آزادی کے ساتھ اظہار ایمان کرسکتے ہو جیسے مدینہ وغیرہ کیونکہ میری زمین تنگ نہیں ہے۔ مجاہد نے کہا : میری زمین وسیع ہے ‘ ترک وطن کر کے چلے جاؤ اور وہاں پہنچ کر جہاد کرو۔ سعید بن جبیر نے کہا : جب کسی بستی میں گناہ کئے جاتے ہوں تو وہاں سے نکل جاؤ ‘ میری زمین وسیع ہے۔ عطا نے کہا : جب تم کو اپنی سرزمین میں گناہوں کا حکم دیا جاتا ہو تو وہاں سے بھاگ جاؤ ‘ میری زمین وسیع ہے۔ اگر کوئی ایسی بستی میں ہو جہاں گناہ کئے جاتے ہوں اور گناہوں سے بندش ممکن نہ ہو تو اس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام پر چلا جانا واجب ہے جہاں اللہ کی عبادت کی تیاری کی جاسکے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ اس آیت کا نزول ان لوگوں کے حق میں ہوا جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ‘ مکہ میں ہی رہ گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم ہجرت کر جائیں تو بھوکے مرجانے کا خوف ہے (پردیش میں بھوکے مرجائیں گے) اللہ نے ان کا یہ عذر قبول نہیں فرمایا۔ مطرف بن عبد اللہ نے کہا : زمین فراخ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ میرا رزق وسیع ہے ‘ تم وطن چھوڑ دو (تمام کو رزق میں دوں گا) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو کسی زمین سے اپنے دین کو لے کر دوسری زمین کی طرف بھاگا ‘ خواہ وہ ایک ہی بالشت بھاگ سکا ہو تب بھی جنت کا مستحق ہوگیا اور محمد ﷺ و ابراہیم کا رفیق (ساتھی) ہوگیا۔ رواہ الثعلبی من حدیث الحسن مرسلاً ۔
Top