Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے
وما ھٰذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو ولعب وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان . اور نہیں ہے یہ دنیاوی زندگی مگر جی کا بہلاؤ اور کھیل اور دار آخرت ہی دارحیات ہے۔ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا یعن یہ حقیر دنیا (اسم اشارہ قریب کے لئے مفید تحقیر ہے) ۔ لَھْوٌ ہر شئے جو کسی مفید چیز سے باز رکھے (اور دل کو بہلا کر اپنی طرف مائل کرلے ‘ مترجم) ۔ دنیا میں مشغولیت آدمی کو ان چیزوں سے روک دیتی ہے جو ابدی زندگی میں کام آنے والی ہیں۔ لَعِبٌ بےکار ‘ کھیل۔ دنیا کو دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ فناپذیر اور قریب زوال ہے۔ ا اللہ کی ساری عبادتیں اور فرماں برداریاں دنیا میں شامل نہیں ‘ ان کا شمار تو امور آخرت میں ہے کیونکہ ان کا نتیجہ اور پھل آخرت میں حاصل ہوگا۔ حَیَوَان مصدر ہے ‘ اصل میں حَیَیَان تھا۔ حیات کے لفظ سے حیوان کا لفظ اپنے مفہوم یعنی حرکت پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔ لو کانوا یعلمون . اگر وہ جانتے ہوتے۔ کہ دنیا فانی ہے اور آخرت لازوال ہے تو دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے (شرط کی جزا محذوف ہے ‘ مترجم) ۔
Top