Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 114
یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : دن۔ آخرت وَيَاْمُرُوْنَ : اور حکم کرتے ہیں بِالْمَعْرُوْفِ : اچھی بات کا وَيَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَ : اور يُسَارِعُوْنَ : وہ دوڑتے ہیں فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
(اور) خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے اور اچھے کام کرنےکو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتےاور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیکوکار ہیں
یومنون باللہ والیوم الاخر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر اور نیکی کا حکم دیتے اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ و یسارعون فی الخیرات اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں کیونکہ ان کو اللہ سے کامل خوف ہے اور ان کے ہوا و ہوس کا سلسلہ کوتاہ ہے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : اس سے پہلے کہ ایسا بڑھاپا آجائے جس میں سر ہلنے لگے یا غفلت کی حالت میں موت آجائے یا (حرکت سے) روک دینے والے بیماری پیدا ہوجائے یا ناامید کردینے والی تاخیر آجائے نیک اعمال کرو 2 ؂۔ چونکہ یہودیوں کے اوصاف واطوار قبیحہ متعدد تھے حق سے منحرف تھے دن رات خواب غفلت میں سرشار تھے مشرک تھے اللہ کی صفات کے عقیدہ میں کج رو تھے آخرت کا عقیدہ رکھتے تھے مگر غلط طور پر۔ بری باتوں کا حکم دیتے اور اچھے کاموں سے روکتے اور خود تیزی سے برائیوں میں گھستے تھے۔ اسلئے آیات مذکورہ میں امۃ قائمۃ کے ایسے متعدد اوصاف بیان کئے جو یہودیوں کے اوصاف کی ضد تھے۔ و اولءِکَ من الصالحین اور اوصاف مذکورہ کے پورے پورے حامل صالحین میں سے ہیں یعنی ان لوگوں میں انکا شمول ہے جن کے دل درست اور نفوس پاکیزہ ہیں اور پاکیزہ قلب و نفس کی وجہ سے انکے جسم بھی حامل صلاح ہیں۔
Top