Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 132
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور حکم مانو تم اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
واطیعوا اللہ والرسول لعلکم ترحمون اور رحمت کی امید رکھتے ہوئے اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ بہر حال آگ کی تخلیق اصل میں کافروں کے لیے اور عارضی طور پر اہل ایمان کے لیے قرار دی جائے یا کافروں کے لیے الگ اور گنہگار مؤمنوں کے لیے الگ تخلیق مانی جائے دونوں صورتوں میں اس آیت کا مضمون فرقۂ مرجیۂ کے مسلمہ کے خلاف ہے مرجیۂ قائل ہیں کہ اگر ایمان موجود ہو تو پھر کسی گناہ سے کوئی ضرر نہ ہوگا۔ اکثر مفسرین نے صراحت کی ہے کہ اللہ کی طرف سے لَعَلَّ اور عسٰی کا استعمال تحقیق کے لیے ہے (امید کا مفہوم نہیں ہے کیونکہ امید وہ کرتا ہے جس کو کسی بات کا انتظار ہو اور وہ بات حاصل نہیں ہوئی ہو اور اللہ کے لیے حالت منتظرہ نہیں اس لیے اس کی طرف سے کسی بات کی امید نہیں ہوسکتی) ظاہر یہ ہے کہ لعل اور عسیٰ مفید وجوب نہیں (یعنی رجائیت کا مفہوم بالکل معدوم ہوگیا ہو اور قطعیت کا مکمل مفہوم آگیا ہو ایسا نہیں ہے) بلکہبیم آمیز امید کے لیے ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ ایسے مقامات میں لعل اور عسیٰ آئندہ خبر تک پہنچنے کی دلیل ہوتا ہے۔
Top