Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے
و سارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ اور تیزی سے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اِلٰی مغفرۃ کی تشریح میں اِلٰی الاسلام اور عکرمہ کی روایت میں الی التَّوْبَۃِ فرمایا (یعنی مغفرت سے مراد ہے اسلام یا توبہ) ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ نے ادائے فرض اور حضرت انس بن مالک نے نماز کی تکبیر اولیٰ سے تفسیر فرمائی۔ تمام اقوال کا مآل یہ ہے کہ مغفرت سے مراد ہیں ایسے عقائد، اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ جن سے گناہوں کی مغفرت، دوزخ سے رہائی اور ظل رحمت میں پہنچنے کا استحقاق ہوجاتا ہے حضرت ابو امامہ کی روایت کردہ حدیث پہلے گذر چکی ہے : بَادِرُوْا بالْاَعْمَال ھرمًا نَاغِضًا۔۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سات امور سے پہلے اچھے اعمال کرلو تمہارے سامنے (بس یہی سات امور ہیں) یا تو ایسا افلاس ہے جو ہر چیز کو فراموش کرا دینے والا ہے یا ایسی مالداری ہے جو سرکش بنا دینے والی ہے یا نظام صحت کو بگاڑ دینے والی بیماری ہے یا سٹھیا دینے والا بڑھاپا ہے یا جلد آجانے والی موت ہے یا دجال ہے اور وہ بد ترین انتظار کی چیز ہے یا قیامت ہے اور قیامت عظیم ترین مصیبت اور بہت ہی تلخ چیز ہے۔ (رواہ الترمذی والحاکم) عرضھا السموات والارض لایہ جنت کی صفت ہے یعنی یہ جنت کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کی طرح ہے۔ یہ کلام بطور تمثیل ہے حقیقت مراد نہیں ہے (جنت تو ان سب سے زیادہ وسیع ہے لیکن) عوام کے خیال میں سب سے زیادہ وسعت مکانی آسمان و زمین کی ہے اس لیے آیت میں آسمان و زمین کی وسعت سے جنت کی وسعت کو تشبیہ دے کر بیان کیا جس طرح آیت : خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ میں جنت کے اندر دوام سکونت کو بقاء ارض و سماء کی مدت سے تشبیہ دی ہے (کیونکہ عامی نظر میں آسمان و زمین سے زیادہ کسی چیز کی مدت کا بقاء نہیں ہے پس) انسانوں کے خیال کے مطابق تشبیہ دی۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا گیا کہ جنت آسمان میں ہے یا زمین میں ؟ فرمایا : کس زمین و آسمان میں جنت کی سمائی ہوسکتی ہے دریافت کیا گیا پھر کہاں ہے ؟ فرمایا : ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش کے نیچے۔ قتادہ نے کہا کہ وہ (یعنی صحابہ ؓ خیال کرتے تھے کہ جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر اور جہنم ساتوں زمینوں کے نیچے ہے ابو الشیخ نے العظیمہ میں باسناد ابو الزعراء حضرت عبد اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ جنت سب سے اونچے ساتویں آسمان میں (یعنی ساتویں آسمان کے اوپر) ہے اور دوزخ سب سے نچلی ساتویں زمین میں (یعنی ساتویں زمین کے نیچے) ہے۔ اعدت للمتقین جو کامل طور پر تقویٰ رکھنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے کامل متقی وہی ہیں جو اللہ کے سوا کسی چیز سے دل بستگی نہیں رکھتے اور رذائل نفس سے مجتنب رہتے ہیں۔ کیا حقیقت میں جنت کامل تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے اور غیر متقیوں کو ذیلی طور پر (عفو معاصی کے بعد) ملے گی یا دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ مستقل طور پر بنائی گئی ہے یہ دونوں تشریحیں اسی طرح اس آیت کی بھی ہیں جیسے دوزخ کے متعلق دونوں تشریحیں آیت : اعدت للکافرین کے ذیل میں بیان کردی گئی ہیں۔
Top