Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 164
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
لَقَدْ : البتہ بیشک مَنَّ : احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے (مومن) اِذْ بَعَثَ : جب بھیجا فِيْھِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِھِمْ : ان کی جانیں (ان کے درمیان يَتْلُوْا : وہ پڑھتا ہے عَلَيْھِمْ : ان پر اٰيٰتِھٖ : اس کی آیتیں وَيُزَكِّيْھِمْ : اور انہیں پاک کرتا ہے وَيُعَلِّمُھُمُ : اور انہیں سکھاتا ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاِنْ : اور بیشک كَانُوْا : وہ تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل لَفِيْ : البتہ۔ میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم بیشک اللہ نے مؤمنوں پر احسان کیا جب کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک عظیم الشان پیغمبر مبعوث فرمایا۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک المؤمنین سے مراد ہیں صرف حضور ﷺ کے خاندان (قریش) کے مؤمن کیونکہ نعمت بعثت اگرچہ تمام مؤمنوں کے لیے عمومی ہے لیکن قریش کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا اور حضور ﷺ کی ذات سے خصوصی بزرگی ملی۔ اس لیے قریش پر یہ اللہ کا خصوصی احسان تھا کہ ان میں سے اللہ کا پیغمبر مبعوث ہوا۔ رسول اللہ نے فرمایا : کہ لوگ قریش کے تابع ہیں (عام) مؤمن قریشی مؤمنوں کے اور (عام) کافر قریشی کافروں کے 1 ؂۔ رسول اللہ نے فرمایا : یہ امر یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی جب تک ان میں سے دو شخص بھی باقی رہیں گے (یہ خبر بمعنی امر ہے یعنی خلافت قریش میں رہنی چاہئے لیکن یہ حکم بشرط صلاحیت وتقویٰ ہے فاسقوں اور ظالموں کے خلیفہ بنانے کے لیے امر نہیں ہے) بعض علماء کا خیال ہے کہ المؤمنین سے عرب کے تمام مؤمن مراد ہیں کیونکہ بنی تغلب کے علاوہ باقی ہر عربی قبیلہ کا قریش سے کچھ نہ کچھ نسبی تعلق ہے اللہ نے فرمایا : ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ 2 ؂۔ مِنْ انفسھم سے مراد ہیمِنْ جنسھم یعنی اللہ نے رسول کو عربوں کی جنس کا بنایا تاکہ آسانی سے اس کا کلام سمجھ لیں اور اس کی صداقت و امانت کی حالت سے واقف ہوں اور اس کی وجہ سے حامل فخر ہوجائیں۔ حضرت سلمان کا بیان ہے کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا : مجھ سے بغض نہ رکھنا (یعنی نفرت نہ کرنا) ورنہ دین سے الگ ہوجائے گا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں حضور ﷺ سے کیسے نفرت کرسکتا ہوں۔ حضور ﷺ ہی کے ذریعہ سے تو اللہ نے ہم کو ہدایت فرمائی ہے فرمایا : عرب سے بغض رکھے گا تو مجھ سے بغض رہے گا۔ یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے اور اس کو حسن کہا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ تمام مؤمن مراد ہیں (عجمی ہوں یا عربی) جیسے آیت : لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ انفُسِکُم میں تمام انسان مراد ہیں یعنی پیغمبر انسانوں میں سے آیا کوئی فرشتہ نہیں آیا تاکہ نوعی مناسبت کی وجہ سے اثر افرینی اور اثر پذیری (بآسانی) ہوسکے۔ اللہ نے فرمایا : لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علہم من السماء ملکا رسولا اگر زمین پر ملائکہ چلتے پھرتے، رہتے بستے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے (مگر انسانوں کیلئے تو انسان ہی رسول ہونا چاہئے) یتلو علیہم ایتہ جو اللہ کی آیات یعنی قرآن ان کو پڑھ کر سناتا ہے حالانکہ وہ پہلے کچھ نہ جانتے تھے۔ و یزکیھم اور ان کو پاک کرتا ہے یعنی ان کے دلوں کو غلط عقائد اور اللہ کے سوا دوسروں کے ساتھ لو لگانے سے پاک کرتا ہے نفوس کو رذیل خصائل سے طاہر بناتا ہے اور اجسام کو نجاستوں، گندگیوں اور برے اعمال سے صاف کرتا ہے۔ و یعلمھم الکتاب اور ان کو کتاب کی تعلیم دیتا ہے یعنی وہ علوم سکھاتا ہے جو قرآن سے اخذ کئے جاتے ہیں یا وہ علوم سکھاتا ہے جو اوراق پر لکھے جانے کے قابل ہیں۔ والحکمۃ اور ان کو حکمت سکھاتا ہے یعنی ایسے صحیح یقینی علوم سکھاتا ہے جو ایک دانشمند دوسرے دانشمند سے کتاب اور بیان کے بغیر سیکھ لیتا ہے۔ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین اِنْ شرطیہ نہیں ہے نہ وصلیہ ہے بلکہ مخففہ ہے یعنی اِنّ تھا اور اِنّ کا اسم۔ ضمیر شان محذوف ہے یعنی بلا شبہ یہ لوگ رسول اللہ کی بعثت سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
Top