Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 179
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَذَرَ : کہ چھوڑے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے عَلٰي : پر مَآ : جو اَنْتُمْ : تم عَلَيْهِ : اس پر حَتّٰى : یہانتک کہ يَمِيْزَ : جدا کردے الْخَبِيْثَ : ناپاک مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُطْلِعَكُمْ : کہ تمہیں خبر دے عَلَي : پر الْغَيْبِ : غیب وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَجْتَبِىْ : چن لیتا ہے مِنْ : سے رُّسُلِھٖ : اپنے رسول مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے فَاٰمِنُوْا : تو تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِھٖ : اور اس کے رسول وَاِنْ : اور اگر تُؤْمِنُوْا : تم ایمان لاؤ وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
(لوگو) جب تک خدا ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔ اور الله تم کوغیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گاالبتہ خدا اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے انتخاب کرلیتا ہے۔ تو تم خدا پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور اگر ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو تم کو اجر عظیم ملے گا
ما کان اللہ لیذر المومنین لِیَذَر میں لام تاکید نفی کے لیے ہے یعنی اللہ ہرگز مؤمنوں کو نہیں چھوڑے گا۔ علی ما انتم علیہ اس حالت پر جس پر تم اس وقت ہو کہ مخلصوں کے ساتھ منافق مخلوط ہیں مخلص اور منافق کا کوئی امتیاز نہیں۔ انتم کا خطاب تمام مدعیان اسلام کو ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے مخلص مؤمن بھی داخل ہیں اور منافق بھی۔ حتی یمیز الخبیث من الطیب بغیر ناپاک کو پاک سے جدا کئے یعنی بغیر اس کے کہ چھانٹ کر کافر کو مؤمن سے جدا کردے۔ خواہ وحی کے ذریعہ سے اطلاع دیدے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے : یَحْذَرُ الْمُنَافِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِم سُوْرَۃٌ تُنَبِّءُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِِمْ قُلِ اسْتَھْزِءُ وٓا اِنَّ اللہ مُخْرِجٌ مَّا تَحْدَرُوْنَ یا واقعات کے ذریعہ سے (جانچ کرکے) جیسے احد کا واقعہ ہوا کہ منافق مؤمنوں کو چھوڑ کر بچھڑ گئے۔ و ما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب اور اللہ تم کو غیب سے آگاہ کرنے والا بھی نہیں کہ تم منافقوں اور مؤمنوں کی الگ الگ تمیز کرلو جب تک اللہ ان دونوں گروہوں کو چھانٹ کر علیحدہ علیحدہ نہ کردے۔ و لکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء بلکہ اللہ پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے انتخاب کرلیتا ہے اور بعض غیبی علوم پر کبھی مطلع کردیتا ہے جیسا کہ اپنے پیغمبر محمد ﷺ کو منافقوں کے احوال پر بنور فراست مطلع 3 ؂ فرما دیا۔ اسی کی مثل ہے سورت جن کی یہ آیت : عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا مَنِّ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ علم غیب کی تشریح ہم نے سورة جن کی اسی آیت کے ذیل میں کی ہے۔ بغوی (رح) نے بروایت سدی لکھا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ میرے سامنے میری امت اپنی شکلوں میں طینی (خمیر کی) حالت میں لائی گئی جیسے آدم کے سامنے (ان کی تمام نسل) لائی گئی تھی اور جو لوگ مجھ پر ایمان نہیں لانے والے ہیں اور جو مجھ پر ایمان نہیں لانے والے سب مجھے بتا دیئے گئے اس فرمان کی اطلاع منافقوں کو پہنچی تو وہ مذاق کرتے ہوئے بولے محمد ﷺ کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں کون مؤمن ہوگا اور کون غیر مؤمن۔ محمد ﷺ ان سب سے واقف ہیں اور ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اس کے باوجود وہ ہم کو نہیں پہچانتے۔ منافقوں کے اس قول کی خبر حضور ﷺ کو بھی پہنچ گئی تو آپ ﷺ نے ممبر پر کھڑے ہو کر اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا : لوگ کس وجہ سے میرے علم پر طنز کرتے ہیں تم اپنے زمانہ سے قیامت تک کی جو چیز مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا (پوچھ دیکھو) اس پر عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ میرا باپ کون تھا ؟ فرمایا : حذافہ۔ اس کے بعدفوراً عمر کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین (برحق) ہونے پر قرآن کے امام (یعنی واجب التسلیم والعمل کتاب) ہونے پر اور آپ ﷺ کے نبی ہونے پر رضا مند ہیں (یعنی دل سے مانتے ہیں) آپ ہم کو معاف فرمادیجئے اللہ آپ کو معاف فرمائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا تم باز آگئے کیا تم باز آگئے پھر ممبر سے اتر آئے اور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ شیخ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ اس روایت کی مجھے اطلاع نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ برتقدیر صحت روایت آیت سے اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہوگی کہ آیت میں رسول ﷺ کے مجتبیٰ اور غیب پر مطلع ہونے کی صراحت اور حدیث میں ان (منکرین) کے قول کو رد کیا گیا ہے کیونکہ رسول ﷺ کے لیے یہ امر جائز نہیں کہ بغیر اللہ کی اجازت کے دوسروں کو غیبی علم میں شریک بنالے پس پیغمبر کافروں کے کفر سے واقف ہیں لیکن ظاہر نہیں کرتے کیونکہ ان کا غیبی علم شخصی ہے۔ (دوسروں کو بغیر اذن خداوندی مطلع کرنا حق نہیں ہے) ۔ فامنوا باللہ ورسلہ پس اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو تاکہ رسوا نہ ہو۔ و ان تو منو اوتتقوا فلکم اجر عظیم اور اگر تم سچے دل سے ایمان لاؤ گے اور نفاق و معاصی سے پرہیز رکھو گے تو تمہارے لیے بڑا اجر ہوگا۔
Top