Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 182
ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ
ذٰلِكَ : یہ بِمَا : بدلہ۔ جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَيْسَ : نہیں بِظَلَّامٍ : ظلم کرنے والا لِّلْعَبِيْدِ : بندوں پر
یہ ان کاموں کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھ آگے بھیجتے رہے ہیں اور خدا تو بندوں پر مطلق ظلم نہیں کرتا
ذالک بما قدما ایدیکم یہ عذاب ان اعمال کی سزا میں ہے جو تم نے پہلے کیے تھے یعنی قتل انبیاء اور دوسرے گناہ۔ اَیْدَی (ید کی جمع۔ ہاتھ) بول کر اشخاص اور نفوس مراد لئے کیونکہ اکثر حسی افعال ہاتھوں سے ہی ہوتے ہیں اور دل کے کاموں کا اظہار ہاتھوں اور پاؤں کی حرکات سے ہی ہوتا ہے۔ و ان اللہ لیس بظلام للعبید اور یہ عذاب تم پر اس وجہ سے بھی ہے کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ا اللہ ظالم نہیں اور نفی ظلم کے لیے عدل لازم ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیک کو ثواب اور بد کو عذاب دیا جائے پس اللہ کے ظالم نہ ہونے کا تقاضا ہے کہ کافروں کو عذاب دیا جائے۔ ایک شبہ پر مسلک اشاعرہ ظلم کی نفی اللہ کی ذات کے لیے لازم ہے کیونکہ ظلم قبیح لذاتہ ہے اور تمام بری باتوں سے اللہ کا پاک ہونا ضروری ہے اور نفی ظلم عدل کو مستلزم ہے اور عدل کے لیے لازم ہے کہ نیک کو ثواب اور گناہگار کو عذاب دیا جائے۔ پس فرمانبردار کو ثواب اور نافرمان کو عذاب دینا اللہ پر لازم قرار پایا اور یہ اشاعرہ کے مسلک کے خلاف ہے جو اللہ پر کسی چیز کو لازم قرار نہیں دیتے (بلکہ اللہ کو مختار کل جانتے ہیں) بلکہ یہ بعینہٖ معتزلہ کا مسلک ہے۔ جواب لغت میں ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی مخصوص جگہ کے علاوہ دوسری جگہ رکھنا خواہ کمی بیشی کے ساتھ یا زمان و مکان کے تبدل و تغیر کے سبب اور چونکہ بار گاہ الوہیت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ورنہ مالک کی اجازت کے بغیر اس کی ملک میں تصرف لازم آئے گا یا حکم کے خلاف خود کرنا لازم آئے گا اور یہ ظاہر ہے کہ اگر بغیر کسی جرم کے اللہ سارے جہان کو عذاب دے تب بھی یہ ظلم نہ ہوگا کیونکہ وہ مالک مطلق ہے اپنی ملک میں جس طرح چاہے تصرف کرسکتا ہے لہٰذا اس کے لیے اس کے کسی فعل کو ظلم کہا ہی نہیں جاسکتا (اور جب اس کی شان میں ظلم کا تصور ہی ممکن نہیں تو ناممکن چیز کی نفی کا کوئی معنی نہیں کیونکہ قضیہ موجبہ کے لیے تو وجود موضوع کی یا ثبوت موضوع کی یا تقرر موضوع کی ضرورت ہے اور سالبہ اگرچہ ثبوت موضوع کا محتاج نہیں مگر بوقت حکم تصور موضوع بہر حال لازم ہے ورنہ نفی کس چیز کی ہوگی) پس اس جگہ لفظ ظلم کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں ہے بلکہ نفی ظلم سے مراد یہ ہے کہ جو فعل بندوں کے باہمی معاملات میں ظلم کہلاتا ہے اگرچہ اللہ سے اس کا صدور ظلم نہیں مگر اللہ اس سے بھی پاک ہے اور نفی ظلم بایں معنی اللہ کے لیے لازم نہیں ( یعنی جو عمل بندوں کے باہمی معاملات میں ظلم کہلاتا ہے اس کی نفی بھی خدا کے لیے لازم ہو یہ ضروری نہیں کیونکہ حقیقت میں اس کا اللہ سے صدور ظلم ہی نہیں ہے پس اس کی نفی کیسے واجب ہوجائے گی) بلکہ اس ظلم کا بھی خدا سے صادر نہ ہونا محض اس کی مہربانی پر مبنی ہے۔ یہ بھی جواب ہوسکتا ہے کہ انبیاء پر ظلم کرنے والوں اور تکذیب کرنے والوں اور انبیاء کو قتل کرنے والوں سے انتقام لینا اگرچہ خدا پر واجب نہیں مگر انتقام نہ لینا صورۃً ظلم معلوم ہوتا ہے کیونکہ انبیاء اللہ کا جو فضل و کرم ہے اس کا تقا ضا یہ ہے کہ انبیاء کے قاتلوں سے انتقام لیا جائے اور ان کو سزا دی جائے پس انتقام نہ لیناصورۃً ظلم ہے اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ( لہٰذا انبیاء کا انتقام وہ ضرور لے گا اور انکے قاتلوں کو عذاب دے گا) اس صورت میں عبید سے مراد ہوں گے انبیاء اور اس لفظ سے انبیاء کی مدح مستفاد ہوگی کہ وہ عبدیت اور فرمان پذیری میں باختیار خود اور بالارادہ اتنے کامل ہیں جیسے دوسری بےعقل چیزیں بلا ارادہ صرف طبعاً فرمان پذیری پر مجبور ہیں۔ اس آیت میں ایک نازک توجیہ اور بھی ہے آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کافر عذاب کے اتنے مستحق ہیں کہ اگر اللہ ان کو عذاب نہ دے تو ان پر ظلم اور ان کی حق تلفی ہوگی پس گویا اس طرز کلام سے کافروں پر عذاب ہونے کو مؤکد طور پر ظاہر کردیا۔
Top