Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 184
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ
فَاِنْ : پھر اگر كَذَّبُوْكَ : وہ جھٹلائیں آپ کو فَقَدْ : تو البتہ كُذِّبَ : جھٹلائے گئے رُسُلٌ : بہت سے رسول مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے جَآءُوْ : وہ آئے بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَالزُّبُرِ : اور صحیفے وَالْكِتٰبِ : اور کتاب الْمُنِيْرِ : روشن
پھر اگر یہ لوگ تم کو سچا نہ سمجھیں تو تم سے پہلے بہت سے پیغمبر کھلی ہوئی نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آچکے ہیں اور لوگوں نے ان کو بھی سچا نہیں سمجھا
فان کذبوک اب اگر ان یہودیوں نے تم کو جھوٹا قرار دیا تو تم رنجیدہ نہ ہو۔ فقد کذب رسل من قبلک تم سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کی تکذیب کی گئی تھی۔ اس مطلب پر فان کَذَّبُوْکَ شرط ہے اور جزاء محذوف ہے اور فقد کذب رسل اس کے قائم مقام ہے (دوسرے پیغمبروں کی تکذیب کو دیکھ کر رسول اللہ کو اپنی تکذیب پر صبر کرنا اور رنجیدہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ پہلے سے کافروں کا دستور ہی یہ چلا آیا ہے صرف موجود الوقت کافروں ہی کی یہ حرکت نہیں ہے) پس سبب کو ذکر کرکے اصل جزاء کو حزف کردیا۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو تنہا یہ آپ کی تکذیب نہیں ہے بلکہ آپ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب ہے کیونکہ انہوں نے آپ کی بعثت کی خبر پہلے دیدی تھی (اور یہ آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائے پس حقیقت میں انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کو نہیں مانا) ۔ جاء وا بالبینت جو کھلے ہوئے معجزات لائے تھے۔ والزبر اور صحیفے بھی لائے تھے جیسے حضرت ابراہیم کے صحیفے۔ والکتب المنیر اور روشن کتاب بھی لائے تھے۔ جیسے توریت و انجیل۔ اوّل الذکر تفسیر پر فقد کذب سے المنیرتک رسول اللہ کے لیے پیام تسلی ہوگا کہ جیسے گذشتہ پیغمبروں نے صبر کیا آپ بھی صبر کریں اور مؤخر الذکر توجیہ پر یہ یہودیوں کی غلطی پر تنبیہ ہوگی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا قرار دینا حقیقت میں ان پیغمبروں کو جھوٹا قرار دینا ہے جنہوں نے قربانیاں بھی پیش کی تھیں۔ الزُّبُر زبور کی جمع ہے زبور وہ کتاب جس میں صرف احکام ہوں یہ لفظ زَبَرْتُ الشَّئَ سے ماخوذ ہے زَبَرْت کا معنی ہے اَحْسَنْتُ ۔
Top