Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِھِمْ : اپنی کروٹیں وَيَتَفَكَّرُوْنَ : اور وہ غور کرتے ہیں فِيْ خَلْقِ : پیدائش میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین رَبَّنَا : اے ہمارے رب مَا : نہیں خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا هٰذَا : یہ بَاطِلًا : بےفائدہ سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے فَقِنَا : تو ہمیں بچا لے عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو
الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً و علی جنوبھمَ جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے۔ یہ اولی الالباب کی صفت ہے کیونکہ ذکر فکر تسبیح، استغفار، دعا تضرع اور ایمان عقلی کا تقاضا ہے جو ان صفات سے متصف نہیں وہ جانور ہے بلکہ چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ کیونکہ چوپائے بھی کسی نہ کسی طرح تسبیح میں مشغول رہتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی، حضرت ابن عباس، نخعی اور قتادہ کے نزدیک اس آیت میں ذکر سے مراد نماز ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر پڑھے بیٹھ نہ سکے تو کروٹ سے لیٹ کر پڑھے۔ اسی آیت کی ہم مراد سورة نساء کی یہ آیت ہے : فَاِذا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃ فاذْکُرُوا اللہ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا عَلٰی جُنُوْبِکُمْ 1 ؂ حضرت عمران بن حصین ؓ نے فرمایا : مجھے بواسیر تھی میں نے رسول اللہ سے مریض کی نماز کے متعلق پوچھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کھڑا ہو کر نماز پڑھ، کھڑا نہ ہوسکتا ہو تو بیٹھ کر (پڑھ) اور بیٹھ بھی نہ سکتا ہو تو پہلو پر لیٹ کر (پڑھ) 2 ؂۔ نسائی نے حدیث کے آخر میں اتنا زائد نقل کیا ہے کہ اگر (کروٹ سے لیٹ کر) نہ پڑھ سکے تو چت لیٹ کر (پڑھ) اللہ کسی کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : مریض کھڑے ہو کر نماز پڑھے اگر (کھڑا) ہو سکے ایسا نہ کرسکے تو بیٹھ کر پڑھے پس اگر سجدہ نہ کرسکتا ہو تو اشارہ کرے اور سجدہ کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھکا ہوا کرے اگر (بیٹھنے کی بھی) استطاعت نہ ہو تو دائیں کروٹ سے لیٹ کر قبلہ کی طرف منہ کرکے پڑھے اگر دائیں پہلو پر لیٹ نہ سکے تو چت لیٹ کر پاؤں کو قبلہ کی جانب کرکے پڑھے 3 ؂ لیکن اس حدیث کے راویوں میں سے ایک شخص حسین بن زید ہے جس کو ابن المدینی نے ضعیف کہا ہے ایک اور راوی حسن بن حسن مغربی بھی ہے جو متروک ہے اسی بنیاد پر امام شافعی نے فرمایا : کہ مریض اگر کھڑا ہونے سے عاجز ہو تو بیٹھ کر نما زپڑھے بیٹھنے سے بھی عاجز ہو تو دائیں کروٹ سے لیٹ کر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے اگر کروٹ سے لیٹنے سے بھی عاجز ہو تو چت لیٹ کر پاؤں کا رخ کعبہ کی طرف کرکے پڑھے تاکہ اس کے رکوع اور سجود کا اشارہ قبلہ کی طرف ہو سکے۔ امام مالک اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے مگر ان دونوں بزرگوں کا امام شافعی سے اتنا اختلاف ہے کہ (امام شافعی کے نزدیک چت لیٹنے کی اجازت اس وقت ہے جب دائیں کروٹ سے نہ لیٹ سکتا ہو لیکن) ان دونوں کے نزدیک اگر کروٹ سے لیٹ بھی سکتا ہو تب بھی چت لیٹ کر نما زپڑھنا درست ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اگر بیٹھ نہ سکتا ہو تو چت لیٹ کر کعبہ کی طرف پاؤں کرکے پڑھے اور چت نہ لیٹ سکتا ہو تو کروٹ سے لیٹ کر پڑھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے یہ بھی فرمایا : کہ یہ آیت اور سورة نساء والی آیت کوئی بھی صلوٰۃ مریض کے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ عام اہل تفسیر کے نزدیک آیت کی مراد یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ کی یاد کی جائے کیونکہ عموماً انسان کی یہی تین حالتیں ہوتی ہیں۔ یا کھڑا ہوتا ہے یا بیٹھتا ہے یا لیٹتا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص جنت کے باغوں کی سیر پسند کرتا ہو اس کو اللہ کا ذکر بہت کرنا چاہئے 4 ؂۔ اور اگر ہم مان بھی لیں کہ آیت کا نزول صلوٰۃ مریض کے متعلق ہے تب بھی چت لیٹ کر نماز پڑھنے کی نفی اس سے نہیں نکلتی اور شافعی (رح) نے جو ترتیب بیان کی ہے آیت اس پر دلالت نہیں کرتی۔ رہی حضرت عمران بن حصین والی حدیث تو ابن ہمام (صاحب فتح القدیر) نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت عمران کو بواسیر تھی آپ چت لیٹ ہی نہ سکتے تھے اس لیے حدیث میں چت لیٹنے کا تذکرہ نہیں ہے۔ ہاں نسائی نے حدیث کے آخر میں جو زیادتی نقل کی ہے اگر وہ صحیح ثابت ہوجائے تو شافعی کے لیے دلیل ہوسکتی ہے۔ باقی حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی حدیث تو وہ (روایۃً ) ضعیف ہے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے جو چت لیٹنے کو کروٹ سے لیٹنے سے ترتیب میں پہلے ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ (امام صاحب (رح) کے نزدیک) نماز میں رکوع سجود کی اہمیت زیادہ ہے اسی لیے امام صاحب ﷺ نے فرمایا : کہ جو شخص اور رکوع سجود نہ کرسکتا ہو مگر کھڑا ہوسکتا ہو اس کے لیے بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ بیٹھ کر اشارہ کرنا سجدہ سے قریب پہنچا دیتا ہے۔ (اور کھڑے رہ کر اشارہ کرنے سے سجدہ سے دوری رہتی ہے) لیکن جمہور کا قول اس کے خلاف ہے (اگر قیام کی قدرت ہے تو جمہور کے نزدیک بیٹھ کر نماز صحیح نہ ہوگی سجدہ سے قرب و بعد کی اتنی اہمیت نہیں کہ قیام کا حکم ساقط ہوجائے) اور چت لیٹ کر اشارہ کرنے سے جبکہ پاؤں قبلہ کی طرف ہوں اشارہ کعبہ کی طرف ہوگا لیکن کروٹ سے لیٹ کر خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے اشارہ کرنے سے اشارہ کعبہ کی طرف نہ ہوگا قدموں کی طرف ہوگا۔ لہٰذا کروٹ سے لیٹنے سے چت لیٹ کر پڑھنا بہتر ہے۔ امام مالک (رح) ، امام احمد اور امام شافعی کے نزدیک رکوع سجود کی اہمیت قیام سے زیادہ نہیں (ارکان صلوٰۃ ہونے میں سب برابر ہیں) اس لیے جو کھڑا ہوسکتا ہو اس کی نماز بیٹھ کر صحیح نہیں خواہ رکوع سجود نہ کرسکتا ہو بلکہ کھڑا ہو کر اشارہ سے نماز پڑھنا لازم ہے۔ رہا چت لیٹنا تو یہ خیال غلط ہے کہ اس کا منہ کعبہ کی طرف ہوگا عام طور پر اس کا منہ آسمان کی طرف ہوتا ہے ہاں کروٹ سے لیٹ کر عموماً اس کا رخ قدموں کی طرف نہیں ہوتا کعبہ کی طرف ہوتا ہے اور آیت : فَوَلِّ وَجْھَک شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام میں اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ و یتفکرون فی خلق السموات والارض اور آسمانوں کی اور زمین کی پیدائش پر نیز ان عجائب اور ندرتوں پر جو انکے اندر اور درمیانی کائنات 1 ؂ میں ہیں غور کرتے ہیں تاکہ ان سے خالق قادر علیم حکیم وحدہٗ لا شریک کی ہستی پر استدلال کرسکیں۔ حصرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : (آیات قدرت پر) غور کرنے کے برابر کوئی عبادت نہیں 2 ؂۔ بیہقی اور ابن حبان دونوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ایک شخص اپنے بستر پر چت لیٹا ہوا تھا اوپر کو منہ تھا اچانک اس کی نظر آسمان اور ستاروں پر پڑی تو اس نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرا ایک مالک اور خالق ہے اے اللہ مجھے بخشدے اللہ نے اس کی طرف رحمت کی) نظر فرمائی اور بخش دیا 3 ؂۔ (اہل منطق کے نزدیک) فکر کا معنی ہے نامعلوم چیز کو جاننے کے لیے معلوم چیزوں کو (دماغ کے اندر مناسب) ترتیب دینا۔ قاموس میں ہے کہ کسی چیز (کو جاننے) کے لیے غور سے کام لینا فکر ہے جوہری نے صحاح میں لکھا ہے۔ فکرۃٌ وہ قوت جو معلوم تک پہنچنے کے لیے علم کا راستہ بتاتی ہے اور تفکر کا معنی ہے قوت فکر کی حرکت جو عقلی نظر کے موافق ہو اور یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے دوسرے حیوان تفکر سے محروم ہیں (کیونکہ کسی حیوان کو قوت عقلیہ نہیں ملی حیوان کے پاس صرف حس ہے) تفکر کا تعلق صرف انہی چیزوں سے ہوتا ہے جن کی صورت دماغ میں آنا ممکن ہو اسی لیے روایت میں آیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں پر غور کرو اللہ کی ذات میں غور نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کی ذات ہر صورت سے پاک ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ لفظ فکر۔ لفظ فرک کا مقلوب ہے (فرک کا معنی ہے تراشنا، چھیلنا، رگڑنا) مگر فکر کا استعمال معانی میں ہوتا ہے یعنی معانی کو چھیلنا کھودنا، رگڑنا تاکہ ان کی حقیقت تک رسائی ہوجائے (تفکر ہے) (انتہی کلام الجوہری ) ۔ میں کہتا ہوں حدیث میں آیا ہے کہ ہر شئے میں غور و خوض کرو مگر اللہ کی ذات میں غور نہ کرو کیونکہ ساتویں آسمان سے اللہ کی کرسی تک سات ہزار نور ہیں اور اللہ اس سے بھی بالا ہے۔ (رواہ ابو الشیخ فی العظمۃ عن ابن عباس ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں خلق میں غور کرو خالق (کی ذات) میں غور نہ کرو کیونکہ تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ حضرت ابو ذکر کی روایت بایں الفاظ ہے کہ اللہ کی خلق میں غور کرو اللہ (کی ذات) میں غور نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ ابو نعیم نے حلیہ میں حضرت ابن عباس کی روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔ کہ اللہ کی مخلوق میں غور کرو اللہ (کی ذات) میں غور نہ کرو۔ طبرانی نے الاوسط میں اور ابو الشیخ نے اور ابن عدی نے اور بیہقی نے ضعیف سند سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ اللہ کی نعمتوں میں غور کرو۔ اللہ میں غور نہ کرو۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات میں غور کرنا منع ہے۔ صرف افعال خدا، صفات خدا اور اسماء خدا پر غور کیا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آجاتی ہے کہ اسماء اور صفات کی آمیزش کے بغیر (اور تمام صفات سے قطع نظر کرکے) تنہا خالص ذات کا علم حصولی (یعنی علم تصور ی) ناممکن ہے بلکہ حضرت مجدد قدس سرہٗ نے تو فرمایا ہے کہ مرتبہ ذات سے تو علم حضوری کا تعلق بھی محال ہے کیونکہ علم حضوری کی حرکت تو عالم کی جانب ہوتی ہے یعنی مرتبہ اتحاد و عینیت کی طرف ہوتی ہے (مراد یہ ہے کہ علم حضوری بواسطہ صورت نہیں ہوتا مبداء انکشاف نفس ذات معلوم ہوتی ہے اس لیے علم حضوری کی حقیقت عالم کی ذات کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتی) پس اس سے کفر حقیقت لازم آتا ہے اللہ ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہم سے قریب ہے (شدت قرب نے ہی اس کو ہمارے لیے نامعلوم بنا دیا ہے) پس وہ واراء الوراء ہے پھر وراء الوراء ہے پھر وراء الوراء ہے مگر اس کا وراء الوراء (پردہ در پردہ) ہونا بعد کی جانب نہیں (ایسا نہیں کہ انتہائی دوری کی وجہ سے وہ مستور ہو) بلکہ قرب کی جانب ہے (یعنی انتہائی قرب کی وجہ سے وہ مجہول غیر مرئی غیر معقول اور مخفی ہے) لہٰذا مرتبۂ ذات میں اس کی ذات کا علم حضوری بھی ناممکن ہے بعض صوفیہ کو جو علم لدنی بسیط (بےکیف، بےمقدار، بےصورت اور بےحضور) ہر وقت حاصل رہتا ہے اور اس کے علم کا تعلق ذات خالص سے ہوتا ہے وہ علم نہ حصولی ہوتا ہے نہ حضوری۔ معلوم نہیں کہ اس کی کیا حقیقت اور کیا کیفیت ہوتی ہے اس پر تفکر کا حقیقی اطلاق درست نہیں ہاں مجازاً اس کو تفکر کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض صوفیہ کے کلام میں آیا ہے۔ شریعت میں اس کی تعبیر لفظ ذکر سے کی گئی ہے۔ حدیث میں جو آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے اس سے مراد وہی مرتبہ علمی ہے جو نہ حصولی ہے۔ نہ حضوری۔ ذکر لسانی مراد نہیں ہے کیونکہ ہر وقت ہمیشہ زبانی ذکر ناممکن ہے۔ چونکہ دو ام ذکر ہی اصل مقصد ہے اور اس کا مرتبہ بہت اونچا ہے اور تفکر ہی ایک ایسا طریقہ ہے جو ذکر تک پہنچاتا ہے اس لیے اللہ نے سب سے پہلے اولیٰ الالباب کی صفت دوام ذکر کو قرار دیا اور اس کے بعد تفکر کا ذکر کیا جو علم (ذکر) تک پہنچاتا ہے اور ذکر کے لیے ایسا ہے جیسے کسی چیزکا سایہ پس کھڑے بیٹھے اور کروٹ کے بل ذکر کرنے سے مراد ہے ہر حال میں ہر وقت ذکر کرنا اس کے بعد فرمایا : و یتفکرون فی خلق السَّموٰت وَالْاَرْضِ اس کے علاوہ فکر سے پہلے ذکر کو بیان کرنے سے اس امر پر تنبیہ بھی ہوتی ہے کہ عقل تنہا کوئی صحیح حکم اور فیصلہ نہیں کرسکتی جب تک نور ذکر اور ہدایت الٰہی سے ضیاء چیں نہ ہو (یعنی تفکر سے پہلے نور ذکر کی ضرورت ہے تنہا تفکر کرنے والے تو بہت ہیں مگر ذکر کی روشنی سے چونکہ وہ نور چیں نہیں اس لیے علم ذات سے محروم ہیں) ۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے اس کو بیکار بےحقیقت محض کھیل کے لیے نہیں بنایا۔ یعنی وہ یہ بات کہتے ہوئے غور کرتے ہیں۔ باطل حق کی ضد ہوتا ہے (قاموس) حق کا اطلاق تین معانی پر ہوتا ہے (1) وہ موجود جس کا وجود اصلی ہو خود بخود ہو وہ اپنے وجود اور تحقیق بلکہ کسی چیز میں دوسرے کا محتاج نہ ہو۔ بایں معنی حق صرف اللہ ہے (2) وہ موجود جس کا وجود محض وہمی تراشیدہ اور خیالی نہ ہو بلکہ ذہن سے باہر واقع میں بھی ہو خواہ وہ اپنے تحقق میں موجودِ حق بمعنی اوّل سے خوشہ چیں ہو (جیسے آسمان، زمین، ہوا، پانی، انسان، حیوان، نباتات وغیرہ) (3) وہ موجود جس کا وجود پر حکمت پُر مصلحت اور مفید ہو بےکار بےفائدہ بےحکمت اور بیہودہ نہ ہو۔ حق کے یہ تین معانی ہیں اور ہر معنی کے مقابل لفظ باطل آتا ہے اوّل معنی کے اعتبار سے رسول اللہ نے فرمایا ہے : کہ سب سے اچھا قول لبید (بن ربیعہ) کا یہ قول ہے : اَلاَ کْلُّ شَیءٍ مَا خلا اللہ باطلٌ آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے (یعنی اپنے وجود لوازم وجود اور ہر وصف میں محتاج ہے کسی چیز کا وجود اصلی اور خود بخود نہیں ہے) باطل کا دوسرا معنی بھی شعر میں مراد ہوسکتا ہے یعنی اللہ کے سوا ہر معبود کی معبودیت وہمی زائیدہ اور خیالی تراشیدہ ہے واقعی نہیں تیسرے معنی کے لحاظ سے باطل کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا : لَا یَاتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لَا مِنْ خَلْفِہٖ اس کے آگے پیچھے (کسی طرف) سے شیطان نہیں آتا۔ آیت رَبَّنا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا میں باطل بمعنی دوم اور بمعنی سوم مراد ہوسکتا ہے اگر باطل بمعنی دوم مراد ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ آسمان و زمین بےحقیقت نہیں ان کا وجود واقعی خارجی ہے محض خیال و وہم نہیں اہل حق (اشاعرہ) نے صانع کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے اسی مسئلہ کو اساس قراردیا ہے اور صراحت کی ہے کہ حقائق اشیاء (یعنی کائنات ارضی وسماوی کی حقیقتیں) ثابت ہیں (صرف وہم کی آفریدہ اور خیال کی تراشیدہ نہیں ہیں) اور ان کا علم واقعی ہے (محض فرضی اور اختراعی نہیں ہے ہاں سو فسطائیہ کا قول اس کے خلاف ہے (ان کے نزدیک سارا عالم ایک فریب اور وہم ہے کسی چیز کی کوئی واقعی حقیقت اور خارجی وجود نہیں) اس آیت میں اہل حق کے قول کی صراحت ہے اور اگر آیت میں باطل بمعنی سوم مراد ہو تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے رب تو نے اس کو بیکار اور محض کھیل نہیں بنایا بلکہ اس کی تخلیق میں تیری حکمت عظیمہ کار فرما ہے اس کا وجود تیری معرفت کی دلیل اور تیری شکر وطاعت کا موجب ہے۔ مَا خَلَقْت ھٰذا میں اشارہ آسمان اور زمین کی طرف ہے اسم اشارہ مذکر اس لیے لا یا گیا کہ آسمان و زمین کے مجموعہ سے مراد ہے ان کا وجود جس پر اولی الالباب غور کرتے ہیں یا اس لیے کہ ان کا مجموعہ مخلوق ہے یا اشارہ خلق کی طرف ہے اور خلق بمعنی مخلوق ہے یا خلق بمعنی تخلیق ہے (پیدا کرنا) یہ بھی ممکن ہے کہ آسمان و زمین کے ہر جزء کی پیدائش کی طرف اشارہ ہو۔ سبحانک تو پاک ہے یعنی تو ہزل (مذاق کرنے اور محض کھیل) سے پاک ہے کیونکہ ہزل ایک قبیح فعل ہے۔ یہ جملہ حالیہ ہے لیکن اگر باطل بمعنی اوّل لیا جائے تو جملہ معترضہ ہوگا۔ فقنا عذاب النار پس ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے یعنی اگر ہمارے تفکر اور غور میں کوئی خرابی ہوجائے اور ہم غور و فکر کا تقاصا پور ا نہ کرسکیں (اور عذاب کے مستحق قرار پائیں) تو ہم کو عذاب سے محفوظ رکھ فقنا کی فاء (جو تفریع کے لیے ہے) بتارہی ہے کہ کائنات کی پیدائش (جو وجود صانع پر استدلال کرنے اور شکر وطاعت بجا لانے کے لیے ہے) کا تقاضا ہے کہ فرماں بردار کو ثواب اور نافرمان کو عذاب ہو اور تخلیق ارض و سما کے باطل اور بیکار نہ ہونے کا علم چاہتا ہے کہ ثواب کی امید اور عذاب کا خوف ہو لہٰذا ضروری ہے کہ عذاب سے بچنے کی درخواست اور ثواب کی طلب کی جائے اور چونکہ دفع مضرت کی اہمیت حصول منفعت سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے عذاب سے بچاؤ کا ذکر حصول ثواب سے پہلے کیا جائے اور رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ کا ذکر فَقِنَا عَذَاب النَّارِ کے بعد کیا جائے بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ فَقِنَا میں فا جزائیہ ہے اصل کلام اس طرح تھا۔ جب ہم تیری پاکی کے مقر میں تو توُ ہم کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
Top