Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
جو لوگ خدا کی آیتوں کو نہیں مانتے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور جو انصاف (کرنے) کا حکم دیتے ہیں انہیں بھی مار ڈالتے ہیں ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ الذین یکفرون سے یہودی مراد ہیں انہوں نے قرآن اور انجیل کا انکار کیا تھا اور تورات کی ان آیات کا بھی جن میں رسول اللہ کے اوصاف بیان کئے گئے تھے۔ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ : اور انبیاء کو قتل کرتے ہیں یعنی ان کے اسلاف نے انبیاء کو قتل کیا تھا اور انہوں نے اپنے اسلاف کے اس فعل کو پسند کیا تو گویا یہ بھی قاتل ہوگئے خود بھی رسول اللہ کی شان میں وہی فعل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے اسلاف دوسرے انبیاء کے ساتھ کرچکے تھے چناچہ حضور ﷺ سے انہوں نے لڑائیاں کیں۔ آپ ﷺ پر جادو کیا، آپ کو زہر دیا جس کے اثر سے آپ کی وفات ہوئی۔ جادو اور زہر کا تذکرہ سورة بقرہ میں گذر چکا ہے۔ بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق یعنی اپنے خیال میں بھی ناحق۔ بات یہ ہے کہ انبیاء کا قتل تو بہر حال ناحق ہی ہے (پھر اس قید کو بڑھانے کی کیا ضرورت تھی) اور وہ بھی اپنے خیال میں ناحق ہی جانتے تھے مگر ریاست کی ہوس نے ان کو قتل انبیاء پر آمادہ کردیا ورنہ قتل کی کوئی وجہ جواز ان کی نظر میں بھی نہ تھی۔ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ : اور جو لوگ انصاف کرنے کا حکم دیتے تھے ان کو بھی وہ قتل کرتے تھے یعنی انبیاء کے متبعین کو بھی قتل کرتے تھے۔ ابن جریح نے بیان کیا کہ انبیاء بنی اسرائیل کے پاس وحی آتی تھی کتاب نہیں آتی تھی وحی کے مطابق انبیاء قوم کو نصیحت کرتے تھے اور شہید کردیئے جاتے تھے پھر انبیاء کے پیرو نصیحت کرنے کھڑے ہوجاتے تھے مگر ان کو بھی شہید کردیا جاتا تھا یہی وہ لوگ تھے جو لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتے تھے۔ بغوی نے حضرت ابو عبیدہ ؓ بن جراح کا قول نقل کیا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا : یارسول اللہ ! قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب کس کو ہوگا ؟ فرمایا : جس نے کسی نبی کو قتل کیا یا منکر کا حکم دیا اور معروف سے ممانعت کی پھر حضور ﷺ نے آیت : و یقتلون النبیین بغیر حق سے و ما لھم من ناصرین تک تلاوت فرمائی اس کے بعد ارشاد فرمایا : ابو عبیدہ بنی اسرائیل نے 43 انبیاء کو ایک ساعت کے اندر دن کے اوّل حصہ میں قتل کردیا شہادت انبیاء کے بعد بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے 120 آدمی بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے کھڑے ہوگئے بنی اسرائیل نے اسی روز دن کے آخر حصہ میں انکو بھی قتل کردیا یہی وہ لوگ ہیں جن کا تذکرہ اللہ نے اپنی کتاب میں کیا اور انکے بیان میں آیت نازل فرمائی۔ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ : اے محمد ﷺ تم ان کو درد ناک عذاب کی بشارت یعنی اطلاع دیدو خبر کو بشارت سے بطور استہزاء تعبیر کیا۔ سیبویہ کے نزدیک فبشرھم اِنَّ الَّذِیْنَ کی خبر نہیں ہوسکتا۔ لَیْتَ وَ لَعَل کی خبر کی طرح اِنَّ کی خبر پر بھی فاء نہیں آسکتی (کیونکہ سب حروف مشبہ بفعل ہیں) اس قول پر اِنَّ کی خبر یا تو اولٰءِکَ الذین حبطت ہوگی اور فبشرھم بعذاب الیم جملہ معترضہ ہوگا جیسے : زَیْدٌ فَافَھَم رَجُلٌ صَالح میں فافھم جملہ معترضہ ہے اور زید کی خبررجل صالح ہے یا خبرمحذوف ہے اصل کلام اس طرح تھا لھم عَذَابٌ اَلِیْمٌ فَبَشرھم بعذاب الیم سبب کو مسبب کی جگہ ذکر کردیا۔ جمہور کے نزدیک اِنَّ الذین کی خبرفبشرھم ہی ہے۔ بغوی نے اس صورت میں اِنَّ کو عمل سے معطل قرار دیا ہے اور صراحت کی ہے کہ کلام بغیر انَّ کے ہی تھا۔ لیکن اکثر اہل نحو قائل ہیں کہ اگر اِنّ کا اسم موصول ہو تو خبر پر فاء آسکتی ہے کیونکہ اسم موصول شرط کے مشابہ ہوتا ہے جیسے بغیر اِنّ کے اگر مبتدا موصول ہو تو (شرط کے مشابہ ہونے کی وجہ سے) خبر پر فاء کا لانا جائز ہے۔ لیت اور لعَلّ کے اسم پر قیاس کرنا صحیح نہیں کیونکہ یہ دونوں جملہ خبریہ کو انشاء کی طرف منتقل کردیتے ہیں اس لیے شرط کی مسابہت فوت ہوجاتی ہے۔ پس جمہور کے مسلک پر آئندہ آیت کو دوسری خبر کہا جائے گا۔
Top