Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا
الۗـۗمَّ ۝ اللّٰهُ : یعقوب کے نزدیک الم پر وقف ہے اور اَﷲُ سے الگ ابتداء ہے۔ جمہور کے نزدیک وقف نہیں ہے اور الم اَﷲُ قراءت ہے سیبویہ کے نزدیک اللہ کا الف ساقط کردیا گیا اور میم کے فتحہ کو اللہ کے لام سے ملا دیا گیا۔ زمخشری کے نزدیک میم پر فتحہ اللہ کے الف کا دیدیا گیا پھر الف کو ساقط کردیا گیا۔ میم کو کم سے کم دو حرکات کے برابر اور زیادہ سے زیادہ چھ حرکات کے بقدر کھینچنا جائز ہے۔ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ : یعنی سوائے اللہ کے کوئی اِلٰہ موجود نہیں ہے۔ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ : یعنی وہ حی وقیوم ہے۔ ابن ابی شیبہ، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابو امامہ کی مرفوع حدیث بیان کی کہ اللہ کا اسم اعظم تین سورتوں میں ہے البقرہ اور آل عمران اور طٰہٰ ۔ حضرت ابو امامہ کے شاگرد قاسم نے کہا میں نے تینوں سورتوں میں تلاش کیا تو الحی القیوم کو تینوں سورتوں میں مشترک پایا ایک سورة بقرہ کی آیۃ الکرسی میں دوسرے آل عمران کی اسی آیت میں اور تیسرے سورة طہٰ کی آیت : وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْم میں۔ جزری مؤلف حصن حصین نے لکھا ہے کہ میرے نزدیک اسم اعظم لا الٰہ الا ہو الحی القیوم ہے۔ (یہی تینوں سورتوں میں مذکور ہے) میں کہتا ہوں کہ اسم اعظم لا الٰہ الا ہو ہے حدیثوں میں مطابقت اس طرح ہوجائے گی۔ ایک حدیث حضرت ابو امامہ کی روایت کردہ جو ابھی بیان کردی گئی۔ دوسری حدیث حضرت اسماء بنت یزید کی روایت کردہ کہ رسول اللہ سے میں نے خود سنا فرما رہے تھے اللہ کا اسم اعظم ان دو آیات میں ہے : و الھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم اور اللہ لا الٰہ الا ھو الحی القیوم۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد ابن ماجۃ والدارمی) تیسری حدیث حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کردہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ذوالنون (حضرت یونس ( علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ کے اندر اپنے رب سے جو دعا کی تھی وہ یہ تھی : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ جو مسلمان کسی چیز کے متعلق ان الفاظ کے ساتھ اللہ سے دعا کرے گا تو اللہ اس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔ (رواہ احمد والترمذی) مستدرک میں حاکم نے لکھا ہے : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ اگر اس کے ذریعہ سے اللہ سے دعا کی جائے تو اللہ قبول فرماتا ہے اور اس سے کچھ مانگا جائے تو عطا فرماتا ہے۔ چوتھی روایت حضرت یزید ؓ کی ہے کہ رسول اللہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا : اللّٰھُم انی اسء الک بانی اشھد ان لآ اِلٰہ اِلَّا انت الاحد الصمد الذی لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفواً احد۔ فرمایا : اس شخص نے اللہ سے ایسا اسم اعظم پڑھ کر دعاء مانگی ہے کہ جب اس سے اس اسم کے ذریعہ سے کچھ مانگا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے اور دعا کی جائے تو قبول فرماتا ہے 2 ؂۔ پانچویں حدیث اس پوری جماعت نے حضرت انس کی روایت سے بیان کی ہے حضرت انس ؓ نے فرمایا : میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے (نماز میں) کہا : اللھم انی اسأَلک بان لک الحمد لا الہ الا انت الحنان المنان بدیع السمٰوات والارض یا ذالجلال والاکرام یا حی یا قیوم۔. رسول اللہ نے فرمایا : اس نے اللہ کا ایسا اسم اعظم لے کر دعا کی ہے کہ اگر اس سے یہ نام لے کر دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور کچھ مانگا جائے تو عطا فرماتا ہے۔ ابن ابی شیبہ نے یا حی یا قیوم کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا۔ ان تمام احادیث کا تقاضا ہے کہ ان سب میں اور تینوں سورتوں میں اسم اعظم موجود ہے اور وہ صرف نفی و اثبات یعنی لا الہ الا ھو ہے سورة بقرہ میں آیۃ الکرسی کے اندر اور آل عمران میں اسی آیت کے اندر کلمہ توحید مذکور ہے اور سورة طٰہٰ میں آیت اللہ لا الہ الا ھو لہ الاسماء الحسنی موجود ہے۔ حضرت جابر ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : لا الہ الا اللہ ہی افضل الذکر ہے۔ (رواہ الترمذی) حضرت معاذ ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ : لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے۔ اس مفہوم کی احادیث متواتر المعنی آئی ہیں۔ فائدہ احادیث میں اسم اعظم لا الٰہَ الَّا ھُوَ اور لا اِلٰہ الا اَنْتَ کو کہا گیا ہے لآ الہ الا اللہ (بھی اگرچہ اسم اعظم ہے مطلب سب کا ایک ہی ہے : ھُوَ اور اَنْتَ سے مراد بھی اللہ ہی ہے لیکن) سے مذکورۂ بالا دونوں جملوں کی عظمت زیادہ ہے کیونکہ ضمیریں (خواہ غائب کی ہوں یا مخاطب کی) محض ذات کے لیے موضوع ہیں (وصفی معنی کا ان کی وضع میں شائبہ بھی نہیں ہے ضمیروں سے ذہنی انتقال خالص ذات کی طرف ہوتا ہے کسی نام یا صفت یا حالت کا تصور بھی نہیں ہوتا اور لفظ اللہ کی وضع اگرچہ ذات کے لیے ہے (کیونکہ یہ ذات خدا وندی کا عَلَم اور خصوصی نام ہے) لیکن یہ لفظ بولنے سے اوّل اسم کا تصور ہوتا ہے پھر ذات کی جانب ذہنی انتقال ہوتا ہے اور اگر اللہ کو اسم وصفی قرار دیا جائے تو اشتقاقی معنی یعنی الوہیت کا مفہوم ذہن میں آتا ہے (اور نفس وضع کے لحاظ سے وصفی معنی یعنی الوہیت کی خصوصی وضع ذات خداوندی کے لیے نہیں قرار پاتی) لیکن وصف الوہیت کا تقاضا ہے کہ اِلٰہ کے اندر تمام صفات کمالیہ موجود ہوں اور عیوب و نقائص اس میں بالکل نہ ہوں اس لیے دوسرے وصفی ناموں کے مقابلہ میں لفظ اللہ زیادہ جامع ہوگا (لیکن کوئی وصفی نام محض ذات پر دلالت نہیں کرتا اس لیے لفظ اللہ گو کتنا ہی جامع الصفات ہو مگر اسم وصفی ہونے کی وجہ سے ذات خالص پر دلالت نہیں کرے گا۔ ) صوفیہ نے مبتدی کے لیے لا الٰہ الا اللہ (کا ورد) ہی منتخب کیا ہے کیونکہ مبتدی کے لیے بغیر کسی وصفی یا صفت کی وساطت کے ذات خالص تک رسائی ممکن نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس نفی و اثبات کے اسم اعظم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اثبات الوہیت کا تقاضا ہے کہ تمام صفات کمالیہ اس کی ذات میں بالذات موجود ہوں اور کوئی عیب و نقص اس میں نہ ہو کیونکہ جو ذات ایسی جامع الصفات اور نقائص سے منزہ نہ ہو اسکو استحقاق معبودیت نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں غیر اللہ کی الوہیت کی نفی اور ذات الٰہی میں تمام صفات ثبوتیہ و سلبیہ کے حصر پر جو کلمہ دلالت کرے گا وہی اسم اعظم ہوگا اس لییلا الٰہ الا اللہ ہی اسم اعظم ہے۔
Top