Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ : ابن جریر اور ابن المنذر نے حسن بصری (رح) کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے کہا محمد خدا کی قسم ہم اپنے رب سے محبت رکھتے ہیں اس پر آیت : قل ان کنتم تحبون اللہ۔۔ نازل ہوئی۔ ابن اسحاق اور ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر کا قول نقل کیا ہے کہ وفد نجران نے کہا تھا ہم مسیح کی پرستش اللہ کی محبت کی وجہ سے کرتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صاحب معالم التنزیل ‘ 12) بغوی نے لکھا ہے کہ آیت کا نزول یہود و نصاریٰ کے حق میں ہوا تھا کیونکہ انہوں نے کہا تھا : نحن ابناء اللہ واحباء ہٗ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا کہ کچھ قریشیوں نے کعبہ کے اندر بت نصب کئے تھے اور ان پر شتر مرغ کے انڈے لٹکائے تھے اور ان کے کانوں میں بالیاں پہنائی تھیں اور ان کو سجدے کر رہے تھے رسول اللہ تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر کچھ توقف کیا اور فرمایا : اے گروہ قریش تم نے اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) کے طریقہ کی مخالفت کی۔ قریشی کہنے لگے ہم تو اللہ ہی کی محبت میں ان کی پوجا کرتے ہیں تاکہ یہ ہم کو خدا کے قرب میں پہنچا دیں اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ حُبٌّ حِبٌّ حُبابٌ حِبَابٌ محَبَّۃٌ سب مصدر ہیں اس سے ماضی اَحَبّ مضارع یُحِبُّ اور اسم مفعول محبوب آتا ہے اور یہ سب خلاف قیاس آتا ہیمُحَبٌّ اسم مفعول قلیل الاستعمال ہے باب ضرب سیحَبَبْتُہٗ (بروزن ضربْتُہٗ ) اور اَحِبُّہٗ (بروزن اَضْرِبُہٗ ) شاذ ہے۔ محب کے دل کا محبوب کے خیال میں مشغول رہنا اور ایسا استغراق ہوجانا کہ دوسرے کی طرف توجہ نہ رہے اور کسی وقت خیال محبوب کی طرف توجہ اور اشتغال کے بغیر چارہ ہی نہ ہو یہ محبت کا مفہوم ہے یہی مطلب ہے اس قول کا کہ عشق دل کی آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر چیز کو سوخت کردیتی ہے یعنی ہر چیز کی طرف سے توجہ کو ہٹا دیتی ہے محبوب کے سوا ہر شے کا تصور مٹا دیتی ہے گویا محب کی نظر میں محبوب کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی یہاں تک کہ اس کو اپنی ہستی بھی نظر نہیں آتی ہر ماسوا تصوّر محبوب میں فنا ہوجاتا ہے۔ اس مغلوب الحالی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کو طبعاً وہی چیز پسند آتی ہے جو محبوب کو پسند ہو اور اس چیز سے ذاتی نفرت ہوجاتی ہے جس سے محبوب کو نفرت ہو وہ ہر وقت مرضی محبوب کا خواستگار ہوتا ہے اس کو نہ ثواب اور فائدہ کا لالچ رہتا ہے نہ عذاب اور ضرر کا اندیشہ اگرچہ بالعرض اسکی طلب میں طمع اور خوف کی آمیزش ہوتی ہے (مگر آلائش نہیں ہوتی اس کی اصل غرض محبوب کی خوشنودی کی طلب ہوگی ہے) یہ تو بندہ کی محبت کی حقیقت ہے رہی اللہ کی محبت بندہ سے تو ظاہر ہے کہ اللہ قلب، استغراق، تصوّر اور انہماک سے پاک ہے اس کو ایسی توجہ کسی طرف نہیں ہوتی کہ دوسری طرف توجہ نہ رہے۔ اس کی محبت ایک سادہ انس کا نام ہے جو بندہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور دوسرے کی طرف بندہ کو مائل نہیں ہونے دیتا اللہ کی طرف سے اسی کشش کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ سے محبت کرتا اور اس کی طرف کھنچ جاتا ہے پس بندہ کی محبت اللہ کی محبت کی شاخ اور اس کا سایہ ہے اصل محبت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِنِّیْ دوسری جگہ فرمایا : یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ ۔ یحبھم کو یحبونہ سے پہلے اسی لیے ذکر کیا (اصل محبت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس کے بعد بندہ اس کی طرف کھنچتا ہے) ۔ ہم نے محبت ذاتیہ کی یہ حقیقت بیان کی ہے لیکن بیضاوی نے محبت کی تعریف کی ہے کہ جب کوئی شخص کسی میں کوئی کمال جان لیتا ہے تو اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور اس میلان کا تقاضا ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کو اختیار کرے جو اس کو محبوب سے قریب کردیں۔ اسی میلان اور نفس کے جھکاؤ کا نام محبت ہے۔ یہ صفاتی محبت کی تعریف ہے جو محبت ذاتیہ سے کوسوں دور ہے دیکھو ماں کی اپنے بچہ سے محبت اس لیے نہیں ہوتی کہ بچہ کے اندر اس کو کوئی کمال نظر آتا ہے بلکہ (بالکل بےغرض) ایک قلبی کھنچاؤ ہوتا ہے ماں کی محبت۔ محبت ذاتیہ کے قریب قریب تو ہوتی ہے مگر بعینہٖ محبت ذاتیہ نہیں ہوتی کیونکہ اس محبت کی بناء محض اس بات پر ہوتی ہے کہ ماں جانتی ہے کہ یہ میرا بچہ ہے محبت الٰہی کا درجہ اس سے بہت اونچا ہے (وہاں رشتۂ نسبی کا شائبہ بھی نہیں ہے) صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے صحابہ ؓ سے مرفوع روایت آئی ہے جس کے الفاظ مختلف ہیں مگر مطلب ایک ہی ہے کہ اللہ کی سور رحمتیں ہیں اس نے ایک رحمت مخلوق کو تقسیم کی ہے جس کی وجہ سے مخلوق آپس میں محبت کرتی ہے ننانوے رحمتیں اللہ نے اپنے اولیاء کے لیے رکھ چھوڑی ہیں (جن کا ظہور کامل قیامت کے دن ہوگا) بغوی ؓ نے بیان کیا ہے کہ اللہ سے بندہ کی محبت یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرے، اس کی طاعت اختیار کرے اور اس کی مرضی کا طلبگار رہے اور بندہ سے اللہ کی محبت کا یہ معنی ہے کہ اللہ بندہ کی تعریف کرے اور اس کو ثواب دے اور اس کی مغفرت کردے۔ بغوی کا یہ بیان محبت کی تعریف نہیں ہے بلکہ تقاضائے محبت کا اظہار ہے۔ فَاتَّبِعُوْنِيْ : یعنی تم اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ فاء سببیہ ہے کیونکہ محبت طلب مرضی کا سبب ہے اور اللہ کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند یہ محض عقل سے بغیر اللہ کی اطلاع کے معلوم نہیں ہوسکتا اور اللہ کی طرف سے اطلاع پیغمبروں ہی کی معرفت آتی ہے پس محبت خدا، اتباع انبیاء کا سبب ہے اتباع انبیاء ہی سے دل میں محبت الٰہی کا ہونا اور اتباع رسل نہ کرنے سے محبت کا نہ ہونا معلوم ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی محبت خدا کا مدعی اور طریقہ رسول اللہ کے خلاف ہو تو وہ جھوٹا ہے جس کو اللہ کی کتاب جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ : یہ امر کا جواب ہے یعنی اگر میرا اتباع کرو گے تو اللہ تم کو پسند فرمائے گا۔ ایک سوال اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ بندہ سے اللہ کی محبت اتباع انبیاء پر موقوف ہے اور اتباع انبیاء اسی وقت ممکن ہے جب بندہ اللہ سے محبت رکھتا ہو نتیجہ یہ نکلا کہ بندہ سے اللہ کی محبت اسی وقت ہوگی جب بندہ اللہ سے محبت کرتا ہو۔ مگر بیان سابق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اللہ سے بندہ کی محبت بعد کو ہوتی ہے اور بندہ سے اللہ کی محبت پہلے۔ محبت عبد نتیجہ ہے محبت اللہ کا یہ تو کھلا ہوا دور (منطقی چکر) ہے۔ جواب سابق میں جس محبت کا بیان تھا وہ اور تھی اور یہ محبت اس کے علاوہ ہے حقیقت میں اللہ کی طرف سے دو محبتیں ہوتی ہیں ایک ابتدائی اور دوسری آخری دونوں کے وسط میں اللہ سے بندہ کی محبت ہوتی ہے اوّل اللہ کی طرف سے وہی محبت ہوتی ہے جو ہم نے پہلے بیان کردی اس کے نتیجہ میں بندہ اللہ کی طرف کھنچتا اور اتباع انبیاء کرتا ہے۔ اتباع انبیائ کے بعد اللہ کی طرف سے بندہ کی ایک اور محبت ہوتی ہے یعنی اللہ بندہ پر رحم اور کامل مہربانی کرتا ہے یہ مہربانی اور محبت وہی ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ کی سو رحمتیں ہیں۔ سو میں سے ایک رحمت تو اس نے مخلوق کو بانٹ دی ہے جس کی وجہ سے مخلوق آپس میں محبت کرتی ہے اور ننانوے رحمتیں اپنے اولیاء کے لیے اس نے رکھ چھوڑی ہیں چونکہ اس آخری محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ بندہ پر رحمت فرمائے اور اس کی مغفرت کردے۔ اس لیے فرمایا : وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اللہ بہت معاف کرنے والا ‘ بڑا مہربان ہے۔ بغوی نے بیان کیا ہے کہ جب آیت : فاتبعونی نازل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھیوں سے کہا محمد ﷺ اپنی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دے رہے ہیں اور ہم کو حکم دے رہے ہیں کہ ہم ان سے ویسی ہی محبت کریں جیسے نصاریٰ عیسیٰ سے کرتے ہیں اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top