Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
(وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما توتو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : اِذ کا تعلق علیمٌ سے ہے یا فعل محذوف سے یعنی یاد کرو جب کہ عمران کی بیوی نے کہا تھا۔ عمران کے باپ کا نام ماثان تھا یا اشہم۔ ماثان کی اولاد ہی بنی اسرائیل کی سردار تھی انہی میں سے علماء اور بادشاہ ہوتے تھے عمران ( علیہ السلام) کی بیوی کا نام حنہ بنت قاقودا تھا، حنہ بانجھ تھیں اور بوڑھی ہوگئی تھیں ایک روز کسی درخت کے نیچے سے انہوں نے دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچہ کو چونچ سے چوگا دے رہا ہے یہ دیکھ کر انکے دل میں بچہ کیلئے ہوک اٹھی تھیں اللہ کے مقبول گھرانے سے۔ فوراً اللہ سے بچہ کی دعا کی۔ دعاقبول ہوئی اور حاملہ ہوگئیں۔ ابن جریر نے ابن اسحاق کی روایت اسی طرح نقل کی ہے اور عکرمہ ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا : اے میرے رب میں تیرے لیے منت مانتی ہوں کہ میرے پیٹ کے اندرجو کچھ ہے میں اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے آزاد چھوڑ دوں گی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں ڈالوں گی تاکہ وہ فراغ خاطر کے ساتھ تیری عبادت کرسکے۔ یہودیوں کے مذہب میں ایسی منت لڑکوں کے سلسلہ میں ماننی مشروع تھی (لڑکیوں کو گرجا کی خدمت کے لیے وقف نہیں کیا جاتا تھا) ۔ (کذا اخرجہ ابن جریر عن قتادہ والربیع) جب گرجا کی خدمت کے لیے کسی لڑکے کو وقف کیا جاتا تھا تو وہ جوان ہونے تک گرجا کی خدمت میں لگا رہتا تھا وہاں سے ہٹتا نہ تھا جوان ہونے کے بعد اس کو اختیار ہوتا تھا کہ چاہے تو وہیں رہ کر گرجا کی خدمت کرتا رہے اور چاہے تو کہیں چلا جائے کوئی پیغمبر اور مذہبی عالم ایسا نہیں ہوا کہ اس کی نسل کا کوئی فرد بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف نہ کیا گیا ہو مگر وقف کرنے کا دستور صرف لڑکوں کے لیے تھا لڑکیاں وقف نہیں کی جاتی تھیں۔ حنہ کا مذکورہ دعائیہ جملہ یا تو صرف تمنائی تھا (کہ خدا کرے لڑکا پیدا ہو) یا صرف فرض پر مبنی تھا (کہ اگر لڑکا پیدا ہوا تو میں وقف کردوں گی) ۔ فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ : پس تو میری نذر کو قبول فرما۔ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ : بلاشبہ تو ہی میری بات کو سننے والا اور میری نیت کو جاننے والا ہے۔ عمران نے بیوی کی یہ دعا اور منت سن کر کہا ارے ارے تو نے یہ کیا کیا اگر لڑکی ہوئی تو کیا ہوگا اس خیال کے آتے ہی دونوں فکر میں پڑگئے مریم ( علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ہی عمران کا تو انتقال ہوگیا حنہ بیوہ ہوگئیں۔
Top