Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ : اور پالنے میں لوگوں سے باتیں کرے گا یعنی شیر خوارگی کی حالت میں کلام کرے گا۔ وَكَهْلًا : اور درمیانی عمر کی حالت میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا۔ جیسے دوسرے انبیاء کرتے ہیں یعنی اس کے کلام کے لیے اوّل آخر عمر کا کوئی فرق نہیں ہوگا۔ وہ متوسط عمر کی طرح شیر خوارگی میں بھی باتیں کرے گا۔ اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ سن کہولت کو پہنچنے سے پہلے اس کی وفات نہیں ہوگی اور کہولت سے اس کی عمر آگے نہیں بڑھے گی حسن بن فضل نے کہا یعنی آسمان سے اترنے کے بعد وہ کلام کرے گا کیونکہ آپ کو سن کہولت سے پہلے آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا (اس لیے آسمان پر اٹھانے سے پہلے بحالت کہولت کلام کرنے کا احتمال نہیں) ۔ مجاہد نے کہا : کھلاً سے مراد ہے حلیم ہونا۔ عرب سن کہولت کی مدح کرتے ہیں اس عمر میں عقل میں پختگی، رائے میں جودت اور تجربہ ہوجاتا ہے کہولت سے پہلے تجربہ ناقص ہوتا ہے اور عقل بھی درجہ کمال تک نہیں پہنچتی اور کہولت کے بعد عقل میں کمزوری آجاتی ہے۔ و یکلم الناس کا عطف و من المقربین پر ہے حالت شیر خوارگی میں کلام کرنے کی صراحت میں مریم ( علیہ السلام) کو تسلی دینا مقصود ہے کہ بغیر شوہر کے بچہ ہونے پر جو لوگ ملامت کریں گے کہ اس کا ازالہ یہ بچہ خود کردے گا تم کو اندیشہ نہ کرنا چاہئے۔ وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ : اور وہ صالحین میں سے ہوگا اس کے دین میں کوئی نقص اور بگاڑ نہیں ہوگا انبیاء کی یہی شان ہوتی ہے تو گویا من الصالحین کے معنی ہیں من النبیین .
Top