Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 27
وَ اَوْرَثَكُمْ اَرْضَهُمْ وَ دِیَارَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ وَ اَرْضًا لَّمْ تَطَئُوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرًا۠   ۧ
وَاَوْرَثَكُمْ : اور تمہیں وارث بنادیا اَرْضَهُمْ : ان کی زمین وَدِيَارَهُمْ : اور ان کے گھر (جمع) وَاَمْوَالَهُمْ : اور ان کے مال (جمع) وَاَرْضًا : اور وہ زمین لَّمْ تَطَئُوْهَا ۭ : تم نے وہاں قدم نہیں رکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرًا : قدرت رکھنے والا
اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس زمین کا جس میں تم نے پاؤں بھی نہیں رکھا تھا تم کو وارث بنا دیا۔ اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم . اور تم کو اللہ نے ان کی زمینوں کا (یعنی کھیتوں اور باغوں کا) اور ان کے گھروں کا (یعنی قلعوں اور گڑھیوں کا) اور ان کے مالوں کا (یعنی نقد جنس اور مویشی کا) مالک بنا دیا۔ وارضا لم تطوھا . اور (اس) زمین کا بھی مالک بنا دیا جس پر تم نے قدم (بھی) نہیں رکھا تھا۔ مقاتل اور ابن زید کے نزدیک اَرْضًا سے مراد خیبر ہے۔ قتادہ نے کہا : ہم سے بیان کیا جارہا ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے۔ حسن کے نزدیک فارس و روم ہے۔ عکرمہ کے قول پر وہ ساری زمین ہے جس کو قیامت تک مسلمان فتح کرتے رہیں گے۔ وکان اللہ علی کل شیء قدیرا . اور اللہ ہر چیز پر قابو رکھتا ہے ‘ لہٰذا اس پر بھی (یعنی اس زمین کی فتح پر بھی جس پر تمہارے قدم ابھی نہیں پہنچے ہیں) قدرت رکھتا ہے۔ غزوۂ بنی قریظہ کا واقعہ محمد بن عمر نے اپنے شیوخ کی سند سے بیان کیا کہ جب مشرک خندق سے واپس چلے گئے تو بنی قریظہ کو (اپنے تنہا رہ جانے کی وجہ سے) بڑا خوف ہوا۔ امام احمد اور شیخین نے مختصر طور پر اور بیہقی و حاکم نے صحیح سند سے تفصیل کے ساتھ حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے۔ ابونعیم اور بیہقی نے دوسری سند سے بھی یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ ابن عابد نے حمید بن ہلال کے واسطہ سے بیان کیا۔ ابن جریر نے حضرت ابن ابی اوفی کی روایت سے اور بیہقی نے عروہ کے حوالہ سے اور ابن سعد نے ماجشون اور یزید بن اصم کی وساطت سے بیان کیا۔ نیز محمد بن عمر نے اپنے شیوخ کے سلسلہ سے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ رسول اللہ اور مسلمان جب تھکے ہارے خندق سے لوٹے تو ہتھیار کھول دئیے۔ رسول اللہ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لے گئے اور پانی طلب کر کے سر دھونے لگے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ حضرت زینب بنت جحش کے مکان میں تشریف لے گئے اور حضرت زینب آپ کا سر دھونے لگیں اور ایک طرف کا سر بھی دھو دیا تھا۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ (باہر) کسی شخص نے ہم کو سلام کیا ‘ ہم گھر کے اندر تھے۔ محمد بن عمر نے کہا : وہ شخص جنازوں کے رکھنے کے مقام میں کھڑا تھا ‘ اس نے پکار کر کہا : اے جنگ کرنے والے ! (ہتھیار کھول دینے کا) تمہارے پاس کیا عذر ہے ؟ حضور ﷺ آواز سنتے ہی گھبرا کر اچھل پڑے اور یکدم تیزی سے کود کر باہر نکل گئے۔ میں بھی آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور کو اڑوں کے سوراخ میں سے دیکھنے لگی۔ مجھے دحیہ کلبی کی صورت نظر آئی جو اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے۔ ابن اسحاق نے کہا : وہ شخص عمامہ لپیٹے ہوئے تھا ‘ اس شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے جلد ہتھیار کھول دئیے ‘ اللہ آپ کو معاف کرے ‘ آپ نے ہتھیار کھول کر رکھ دئیے حالانکہ جب سے دشمن اترا ہے ‘ ملائکہ نے اس وقت سے اب تک اسلحہ نہیں کھولے۔ دوسری روایت میں ہے : چالیس دن سے ملائکہ نے اسلحہ نہیں کھولے۔ ہم نے حمراء الاسد تک ان کا تعاقب کیا۔ اس وقت انہی کے تعاقب سے لوٹ کر آئے ہیں۔ اللہ نے ان کو بھگا دیا اور آپ کو حکم دیا ہے کہ بنی قریظہ سے جا کر جنگ کرو۔ میں اپنے ساتھ والے ملائکہ کو لے کر انہی کی طرف جا رہا ہوں تاکہ ان کے قلعوں میں زلزلہ پیدا کر دوں۔ آپ بھی لوگوں کو لے کر نکل کر (میرے بعد) آئیے۔ حمید بن ہلال کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میرے ساتھ تھک چکے ہیں ‘ اگر آپ چند روز کی انہیں مہلت دے دیں تو بہتر ہے۔ جبرئیل نے کہا : آپ اٹھ کر ان پر چڑھائی تو کریں ‘ میں ان کو اس طرح دے پٹکوں گا جیسے انڈا پتھر کی چٹان پر پٹکا جاتا ہے ‘ پھر ان کو ہلا ڈالوں گا (یعنی قلعوں سے باہر نکل پڑنے پر مجبور کر دوں گا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا) ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے : جب رسول اللہ اندر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا : آپ جس شخص سے باتیں کر رہے تھے ‘ وہ کون تھا ؟ فرمایا : کیا تم نے اس کو دیکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ فرمایا : تمہارے خیال میں اس کی شکل کس سے مشابہ تھی ؟ میں نے عرض کیا : دحیہ کلبی سے مشابہ تھی۔ فرمایا : وہ جبرئیل تھے ‘ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ بنی قریظہ کی طرف جاؤں۔ حمید کا بیان ہے کہ پھر جبرئیل اور ان کے ساتھ کے ملائکہ پشت پھیر کر چل دئیے یہاں تک کہ بنی غنم کے کوچوں میں (ان کی رفتار سے اٹھا ہوا) غبار اڑنے لگا۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت انس نے فرمایا : گویا اٹھتا ہوا غبار اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ قتادہ نے ابن عابد کی روایت کے بموجب بیان کیا کہ رسول اللہ نے اس روز ایک منادی کو (مسلمانوں کی بستیوں میں) یہ ندا کرنے کیلئے بھیج دیا کہ اے سواران خدا ! سوار ہوجاؤ اور حضرت بلال کو اعلان کرنے کا حکم دیا کہ جو سننے والے فرمانبردار ہوں ‘ ان کو عصر کی نماز بنی قریظہ تک پہنچنے سے پہلے نہ پڑھنی چاہئے (یعنی ہر شخص پر لازم ہے کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کی بستی میں پہنچ کر ہی پڑھے) شیخین نے حضرت ابن عمر کی روایت سے ‘ بیہقی نے حضرت عائشہ اور ابن عقبہ کی روایت سے اور طبرانی نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ نے صحابہ سے فرمایا : میں تم کو تاکیدی حکم دیتا ہوں کہ عصر کی نماز (بنی قریظہ کی بستی تک پہنچنے سے پہلے کہیں) نہ پڑھنا۔ مسلم نے حضرت ابن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے ظہر کی نماز کے متعلق حکم دیا تھا ‘ چناچہ راستہ میں جب عصر کی نماز یا حسب روایت مسلم ظہر کی نماز کا وقت آگیا تو بعض لوگوں نے کہا : ہم تو بنی قریظہ میں پہنچ کر عصر کی نماز پڑھیں گے ‘ اس سے پہلے نہیں پڑھیں گے۔ رسول اللہ نے ہم کو تاکیدی حکم دیا ہے (اگر نماز میں تاخیر ہوگئی تو) ہم پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ غروب آفتاب کے بعد جب بنی قریظہ پہنچے تو ان لوگوں نے عصر کی نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے کہا : رسول اللہ کا مقصد یہ نہ تھا کہ ہم نماز نہ پڑھیں (بلکہ جلد پہنچنے کی تاکید مقصود تھی) اس لئے ہم تو راستہ میں ہی نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ کو اس کی اطلاع پہنچ گئی مگر آپ نے کسی فریق کو تنبیہ نہیں کی۔ فائدہ : ظہر اور عصر کی تعیین میں روایات کا اختلاف ہے ‘ اختلاف کو دور کرنے کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ یقیناً ایک فریق پہلے روانہ ہوا ہوگا اور دوسرا کچھ (تیاری کے) بعد۔ اول فریق کو حکم ہوا کہ ظہر کی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھیں اور دوسرے فریق کو حکم ہوا کہ تم عصر کی نماز بنی قریظہ میں پہنچ کر پڑھنا۔ یہ بھی تاویل کی گئی ہے کہ جو لوگ طاقتور تھے یا ان کے مکان قریب تھے ‘ ان کو بنی قریظہ میں پہنچ کر ظہر پڑھنے کا حکم ہوا اور جو کمزور تھے یا ان کے گھر دور تھے ‘ ان کو عصر کی نماز وہاں پہنچ کر پڑھنے کا حکم ہوا۔ مسئلہ : اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ مجتہد سے اگر اجتہاد میں غلطی ہوجائے تب بھی وہ گناہگار نہ ہوگا۔ دیکھو رسول اللہ دونوں فریقوں میں سے کسی پر درشتی نہیں کرتے ‘ جس نے راستہ میں نماز پڑھ لی اس کو برابھلا نہیں کہا اور جس نے پہنچ کر (مغرب ہونے کے بعد) پڑھی اس کو بھی تنبیہ نہیں کی۔ صاحب زاد المعاد نے لکھا ہے کہ ہر فریق نیت کے مطابق ثواب کا حقدار ہوگیا لیکن جس فریق نے راستہ میں نماز پڑھ لی اس کو دوہرا ثواب ہوا ‘ ایک بروقت نماز پڑھنے کا اور دوسرا تعمیل حکم میں تیزی کرنے کا۔ کیونکہ بنی قریظہ میں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھنے کے حکم کا مقصد ہی یہ تھا کہ تعمیل حکم میں تاخیر نہ کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو طلب فرمایا اور اپنا جھنڈا ان کے سپرد کردیا۔ خندق سے واپسی کے بعد سے جھنڈا نہیں کھولا گیا تھا۔ محمد بن عمرو اور ابن ہشام و بلاذری کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا حاکم (اپنی جگہ) بنایا۔ محمد بن عمرو کا قول ہے کہ 23/ ذی القعدہ کو مدینہ سے برآمد ہوئے۔ بغوی نے کہا : یہ واقعہ 5 ھ ؁ کا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ہتھیار لگائے ‘ زرہ پہنی ‘ خود اوڑھا ‘ بھالا ہاتھ میں لیا ‘ ڈھال گلے میں لٹکائی اور نحیف گھوڑے پر سوار ہوگئے۔ جلو میں صحابہ نے گھیرا ڈال لیا ‘ جو مسلح تھے ‘ گھوڑوں پر سوار تھے اور تعداد میں چھبیس تھے۔ یہ سوار اور پیادے آپ کے گرداگرد تھے۔ اس شان سے صحابہ کے ہجوم میں آپ روانہ ہوگئے۔ ابن سعد کی روایت کے بموجب ہمرکاب صحابی تین ہزار تھے۔ مسئلہ : اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ حرام میں ابتداء جہاد جائز ہے (کیونکہ خیبر کا واقعہ ذی القعدہ کے آخر کا ہے) لیکن حجۃ الوداع کے خطبہ میں حضور ﷺ نے ماہ حرام میں قتال کی ممانعت فرما دی تھی ‘ مگر یہ ممانعت اباحت کے بعد ہوئی تھی (فتح مکہ کا واقعہ فتح خیبر سے بعد کا ہے) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح حرم مکہ میں ایک ساعت کیلئے خصوصیت کے ساتھ قتال حلال کردیا تھا ‘ اسی طرح آپ کیلئے خصوصیت کے ساتھ خیبر کی فتح کا موقع پر بھی ماہ حرام میں جہاد کو مباح کردیا گیا۔ یہ بھی توجیہ ہوسکتی ہے کہ یہ ابتداء جنگ نہ تھی بلکہ لڑائی کی ابتداء بنی قریظہ کی طرف سے ہوچکی تھی۔ انہوں نے لڑائی میں قریش کی مدد اس سے پہلے کی تھی۔ واللہ اعلم۔ طبرانی نے حضرت ابو رافع و ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ جب بنی قریظہ پر (یعنی ان کی بستی کے قریب) پہنچے تو ایک برہنہ پشت گدھے پر جس کا نام یعفور تھا ‘ سوار ہوگئے ‘ لوگ آپ کے گرداگرد تھے۔ حاکم ‘ بیہقی اور ابو نعیم نے حضرت عائشہ کی روایت سے ‘ نیز محمد بن عمرو اور ابن اسحاق نے بیان کیا کہ رسول اللہ صَوْرَیْن کی طرف سے گذرے ‘ وہاں بنی نجار کے کچھ لوگ جمع تھے جن میں حارثہ بن نعمان بھی تھے ‘ سب مسلح اور صف بند تھے۔ 123 حضور ﷺ نے دریافت فرمایا : کیا تمہاری طرف سے کوئی گزرا ہے ؟ انصار نے کہا : جی ہاں ‘ دحیہ کلبی خچر پر سوار ادھر سے گزرے تھے ‘ خچر پر دبیز ریشم کی جھول بھی پڑی تھی۔ ہم کو حکم دے گئے تھے کہ ہم بھی ہتھیار اٹھا لیں (مسلح ہوجائیں) چناچہ ہم مسلح اور صف بند ہوگئے۔ وہ یہ بھی کہہ گئے تھے کہ رسول اللہ بھی ابھی برآمد ہونے والے ہیں۔ حارثہ بن نعمان نے بیان کیا کہ ہم نے دو صفیں بنا لیں تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : وہ جبرئیل تھے ‘ جن کو بنی قریظہ کی طرف سے ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کرنے اور ان کے دلوں میں رعب ڈالنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ حضرت علی کچھ مہاجرین و انصار کی جماعت کو لے کر پہلے آگئے تھے ‘ انہی میں حضرت ابو قتادہ بھی تھے۔ محمد بن عمرو کی روایت ہے کہ حضرت ابو قتادہ نے فرمایا : جب ہم بنی قریظہ پر پہنچے تو ہم نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کو لڑائی کا یقین ہوچکا ہے۔ حضرت علی نے جا کر قلعہ کی جڑ میں جھنڈا گاڑ دیا۔ ان لوگوں نے اپنی گڑھیوں کے اندر سے ہی گالیوں سے ہمارا استقبال کیا۔ رسول اللہ اور آپ کی بیویوں کو گالیاں دینے لگے ‘ مگر ہم خاموش رہے اور ہم نے کہہ دیا کہ ہمارا تمہارا فیصلہ تلوا رسے ہوگا۔ رسول اللہ بھی پہنچ گئے اور ان کے قلعہ کے قریب بنی قریظہ کے پتھریلے میدان کے نشیبی جانب چاہ انا پر نزول فرمایا۔ حضرت علی نے حضور ﷺ کو دیکھا تو مجھے حکم دیا کہ میں جھنڈا پکڑ لوں۔ میں نے جھنڈا پکڑ لیا۔ حضرت علی کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ رسول اللہ کے کان میں ان لوگوں کی گالیاں اور گندے الفاظ پہنچیں ‘ اس لئے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر آپ ان خبیثوں کے قریب نہ پہنچیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھے واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہو ؟ میرا خیال ہے کہ تم نے ان کی طرف سے کچھ گندے الفاظ سن لئے ہیں۔ حضرت علی نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کچھ بھی اس طرح کی بات نہ کہتے۔ غرض رسول اللہ آے بڑھے ‘ آگے آگے اسید بن حضیر تھے ‘ اسید نے کہا : اے اللہ کے دشمنو ! جب تک تم بھوکے نہ مرجاؤ گے ‘ ہم تمہارے قلعوں سے نہیں ہٹیں گے (یعنی رسد نہ ملنے کی وجہ سے تم بھوکے مرجاؤ گے ‘ ہم محاصرہ نہیں اٹھائیں گے) تم (اس وقت) اس طرح (گڑھیوں میں محصور اور بند) ہو جیسے بھٹ کے اندر لومڑی۔ بنی قریظہ نے کہا : ابے ابن حضیر ! خزرج کے مقابلہ میں ہم نے تم سے معاہدہ کیا تھا (ہم تمہارے حلیف تھے) حضرت اسید نے کہا : اب میرے تمہارے درمیان نہ کوئی معاہدہ باقی ہے اور نہ رشتہ۔ (اس کے بعد) رسول اللہ (یہودیوں کی گڑھی کے) قریب پہنچ گئے اور اتنی اونچی آواز سے یہودیوں کے کچھ سرداروں کو پکارا کہ انہوں نے آواز سن لی اور فرمایا : اے بندروں اور سؤروں کے بھائیو ! اور اے بتوں (یا شیطانوں) کی پرستش کرنے والو ! جواب دو کیا اللہ نے تم کو رسوا کردیا اور تم پر اپنا عذاب نازل فرما دیا ؟ کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو ؟ (اندرون حصن سے) ان لوگوں نے قسمیں کھا کر کہا : ابو القاسم ! ہم نے ایسا نہیں کیا ‘ آپ تو جاہل نہیں ہیں۔ دوسری روایت میں جاہل کی جگہ فحش گو کا لفظ آیا ہے۔ شام کو مسلمان رسول اللہ کے پاس جمع ہوگئے۔ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ کیلئے چھواروں کی کچھ بوریاں بھیج دیں ‘ یہی اس روز کا کھانا ہوا۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا : چھوارے اچھا طعام ہیں۔ صبح کو رسول اللہ سحر سے اٹھ گئے اور تیراندازوں کو آگے بھیج دیا۔ تیراندازوں نے جا کر یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا اور تیر چلانا اور پتھر پھینکنا شروع کر دئیے۔ قلعوں کے اندر سے یہودی بھی تیر اور پتھر پھینکتے رہے۔ دن اسی طرح گزر گیا ‘ جب شام ہوگئی تو رات بھر مسلمان قلعوں کا محاصرہ کئے رہے اور باری باری سے ڈیوٹی دیتے رہے۔ رسول اللہ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے یہ تیرافگنی برابر جاری رہی یہاں تک کہ یہودیوں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا اور انہوں نے تیرافگنی چھوڑ دی اور مسلمانوں سے کہا کہ (لڑائی بند کر دو ) ہم تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہتر ہے۔ یہودیوں نے گڑھی کے اوپر سے نباش بن قیس کو اتار کر بھیجا۔ نباش نے آکر رسول اللہ سے بات چیت کی اور یہ شرط پیش کی کہ جن شرائط پر بنی نضیر نے صلح کی تھی ‘ ہم بھی انہی شرائط پر صلح کرنا چاہتے ہیں۔ شرائط یہ ہیں کہ اپنا مال (نقد ‘ جنس وغیرہ) اور اسلحہ لے جائیں گے اور عورتوں اور بچوں سمیت تمہاری بستیاں چھوڑ جائیں گے اور سوائے اسلحہ کے باقی مال جتنا اونٹوں پر لادا جائے گا ‘ لاد کرلے جائیں گے۔ رسول اللہ نے انکار کردیا۔ یہودیوں نے کہا : تو خیر ہم کو مال کی ضرورت نہیں ‘ ہم مال نہیں لے جائیں گے ‘ البتہ عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ بحفاظت لے جائیں گے۔ رسول اللہ نے یہ شرط ماننے سے بھی انکار کردیا اور فرمایا : بلاشرط تم کو گڑھیوں سے اتر کر آنا ہوگا۔ ہم جو فیصلہ کردیں گے ‘ اس کو ماننا پڑے گا۔ نباش یہ جواب لے کر بنی قریظہ کے پاس لوٹ گیا اور قوم سے جا کر جو گفتگو ہوئی ‘ وہ نقل کردی۔ کعب بن اسد نے کہا : اے گروہ بنی قریظہ ! جو مصیبت تم پر نازل ہوئی ہے ‘ وہ تمہاری نظروں کے سامنے ہے۔ اب میں تین باتیں تمہارے سامنے رکھتا ہوں ‘ تم ان میں سے جو چاہو اختیار کرلو۔ بنی قریظہ نے کہا : وہ باتیں کونسی ہیں ؟ کعب نے کہا : پہلی بات یہ کہ تم اس شخص کی بیعت کرلو اور اس کو سچا مان لو ‘ کیونکہ بخدا یہ وہی نبی مرسل ہے جس کا ذکر تمہاری کتاب میں موجود ہے۔ یہ بات تمہارے سامنے واضح طور پر آچکی ہے۔ اس صورت میں تمہاری جانیں اور مال اور عورتیں محفوظ رہیں گی۔ بخدا ! تم خوب جانتے ہو کہ محمد ﷺ نبی ہیں۔ ہم کو ان کا ساتھی ہونے سے سوائے اس حسد کے اور کوئی امر مانع نہیں تھا کہ یہ عرب میں سے ہیں ‘ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں۔ مگر اللہ نے یہ مقام (نبوت) ان کو عطا فرما دیا۔ مجھے عہدشکنی اور وعدہ کی خلاف ورزی پہلے ہی پسند نہ تھی ‘ لیکن یہ مصیبت اور نحوست اس شخص (یعنی حیی بن اخطب) کی وجہ سے آئی ‘ جو بیٹھا ہوا ہے۔ جب قریش اور بنی غطفان واپس چلے گئے تو حیی ‘ کعب بن اسد سے کئے ہوئے وعدہ کے مطابق بنی قریظہ کے پاس قلعہ میں آگیا تھا (اسی کی طرف کعب نے اشارہ کیا) کیا ابن جّواس کی بات تم کو یاد ہے جو اس نے تم سے کہی تھی ؟ یہودیوں نے پوچھا : کیا کہا تھا ؟ کعب نے جواب دیا : جّواس نے کہا تھا کہ اس بستی میں ایک نبی کا خروج ہوگا۔ اگر میری زندگی میں اس کا خروج ہوگیا تو میں اس کی پیروی اور مدد کروں گا اور اگر میرے بعد وہ پیدا ہوا تو تم اس کا اتباع کرنا۔ خبردار ! کسی کے بہکاوے میں نہ آجانا ‘ اس کے مددگار اور دوست رہنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو دونوں کتابوں پر تمہارا ایمان ہوجائے گا ‘ اول کتاب پر بھی اور آخری کتاب پر بھی۔ ان کو میرا کہہ دینا اور بتادینا کہ میں ان کا سچا جانتا ہوں اور ان پر ایمان رکھتا ہوں۔ کعب نے کہا : (اے معشر یہود ! ) آؤ ہم اس سے بیعت کرلیں اور اس کے سچے ہونے کا اعتراف کرلیں۔ بنی قریظہ نے کہا : ہم توریت کا حکم تو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور شریعت توریت کی بجائے دوسری شریعت کو نہیں اختیار کریں گے۔ کعب نے کہا : جب تم یہ بات نہیں مانتے تو پھر دوسری بات یہ کہ آؤ ہم پہلے اپنے بیوی بچوں کو قتل کردیں پھر محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے مقابلہ میں تلواریں سونت کر نکل آئیں ‘ یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور محمد ﷺ کا فیصلہ کر دے۔ اگر ایسی حالت میں مرجائیں گے تو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے کہ ہمیں اس کے متعلق اندیشہ ہو اور اگر غالب آجائیں گے تو یقیناً ہم کو اور بیویاں اور بچے مل جائیں گے۔ یہودیوں نے کہا : ہم ان بیچاروں کو کیسے قتل کرسکتے ہیں ‘ ان کے بعد جینے میں کیا لذت رہ جائے گی۔ کعب نے کہا : جب یہ بات بھی تم تسلیم نہیں کرتے تو پھر تیسری بات یہ کہ یہ سمجھ لو کہ آج شنبہ کی رات ہے ‘ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی بےفکر ہوں گے (کہ یہودی آج حملہ نہیں کرسکتے) تم نیچے اترو ‘ ممکن ہے غفلت کی حالت میں محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کرنے میں ہم کو کامیابی مل جائے۔ یہودیوں نے جواب دیا : ہم یوم السبت (کے حکم) کو بگاڑ نہیں سکتے ‘ تم جانتے ہو کہ ہم سے پہلے (ہمارے اسلاف میں سے) جن لوگوں نے یوم السبت میں بدعت (خلاف شرع حرکت کی تھی ان پر کیسا مسخ شکل کا عذاب آیا تھا ‘ اس لئے ہم ایسی حرکت نہیں کرسکتے کہ ہم پر بھی وہ عذاب آجائے۔ کعب نے کہا : تم میں سے کوئی بھی جب سے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ‘ اب تک ایک دن کیلئے بھی کبھی سمجھدار (دانشمند) نہیں ہوا۔ ثعلبہ بن سعید اور اسید بن سعید اور اسد بن عبید نے کہا : (یہ خاندان نہ تو بنی قریظہ میں سے تھے ‘ نہ بنی نضیر میں سے بلکہ ہذیل میں سے تھے ‘ اوپر کسی جگہ بنی قریظہ سے ان کا رشتہ ملتا تھا) اے گروہ بنی قریظہ ! بخدا تم خوب جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ان کا حلیہ اور اوصاف ہمارے پاس (ہماری کتابوں میں) موجود ہیں جو ہمارے علماء اور بنی نضیر کے علماء بیان کرتے رہے ہیں۔ ابن ہیّان ہمارے نزدیک بڑا سچا آدمی تھا۔ یہ حیی بن اخطب جو بنی نضیر کا اول شخص ہے ‘ اس کے حالات سے واقف ہے۔ اس نے مرتے وقت اللہ کے رسول ﷺ کے صفات (حلیہ ‘ اخلاق وغیرہ) بیان کئے تھے۔ بنی قریظہ نے کہا : ہم (شریعت) توریت کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب ثعلبہ اور اسید وغیرہ نے دیکھا کہ بنی قریظہ نے ان کی بات نہیں مانی تو اسی تاریخ کو صبح ہوتے ہی گڑھی سے اتر گئے اور جا کر مسلمان ہوگئے اور اپنی جانوں ‘ مالوں اور اہل و عیال کو محفوظ کرلیا۔ عمرو بن مسعود نے کہا : اے گروہ یہود ! تم نے محمد ﷺ سے جن باتوں پر بقسم معاہدہ کیا تھا ‘ اس سے تم واقف ہو۔ تم نے اس معاہدہ کو توڑ دیا۔ میں تمہارا شریک نہ تھا ‘ نہ معاہدہ میں داخل تھا ‘ نہ معاہدہ شکنی میں۔ اب اگر (مسلمان ہونے سے) تم انکار کرتے ہو تو جزیہ قبول کرلو اور یہودیت پر قائم رہو۔ بنی قریظہ نے کہا : ہم عرب کو جزیہ دینے کا بار اپنی گردنوں پر نہیں لیں گے ‘ اس سے تو قتل ہوجانا بہتر ہے۔ عمرو نے کہا : تو میں تم سے الگ ہوں۔ یہ کہہ کر اسی رات سعید کے دونوں بیٹوں کے ساتھ نکل کر چلا گیا۔ اسلامی لشکر کے محافظوں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ تھے۔ عمرو بن مسعود جب یہودیوں کے پاس سے نکل کر اسلامی لشکر کے محافظوں تک پہنچا تو محمد بن مسلمہ نے کہا : کون ہے ؟ عمرو بن مسعود نے کہا : عمرو بن مسعود۔ محمد بن مسلمہ نے کہا : اے اللہ ! مجھے عزت والوں کی صحبت سے محروم نہ کرنا۔ پھر (عمرو کو داخلہ کی اجازت دے دی) راستہ چھوڑ دیا۔ عمرو آگیا اور رسول اللہ کی مسجد تک پہنچ گیا اور وہیں رات گزاری۔ صبح ہوئی تو یہ کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ اس وقت تک کہاں رہا۔ بہرحال رسول اللہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : اس آدمی کو اللہ نے وفاء عہد کی وجہ سے بچا لیا (محفوظ رکھا) ۔ اہل مغازی کا بیان ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ کی خدمت میں پیام بھیجا کہ ہم ابو لبابہ سے اپنے معاملہ میں مشورہ کرنا چاہتے ہیں ‘ آپ ان کو ہمارے پاس بھیج دیجئے۔ حضرت ابو لبابہ خاندان عمرو بن عوف کے ایک فرد تھے اور یہودی قبیلۂ اوس کے حلیف تھے۔ حضور ﷺ نے ابو لبابہ کو ان کے پاس بھیج دیا۔ ابو لبابہ پہنچے تو یہودی مرد ان کے استقبال کیلئے کھڑے ہوگئے اور عورتوں اور بچوں نے ان کے سامنے رونا شروع کردیا۔ ابو لبابہ کو ان پر رحم آگیا۔ یہودیوں نے کہا : ابو لبابہ ! آپ کی کیا رائے ہے ‘ کیا محمد ﷺ کے کہنے سے ہم گڑھیوں سے اتر آئیں ؟ ابو لبابہ نے (زبان سے تو) کہا ہاں (لیکن) ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کردیا۔ مراد یہ تھی کہ قتل کر دئیے جاؤ گے۔ حضرت ابو لبابہ کا بیان ہے کہ میں اس جگہ سے ہٹنے بھی نہ پایا تھا کہ مجھے خیال آگیا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ خیانت (بدعہدی) کی۔ حضرت ابولبابہ وہاں سے چل کر سیدھے مسجد میں آئے اور ایک ستون سے اپنے کو بندھوا دیا۔ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ سے نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ مرجاؤں ‘ یا جو حرکت مجھ سے ہوئی ہے اللہ اس کو معاف فرما دے۔ میں نے اللہ سے عہد کرلیا ہے کہ بنی قریظہ کی سرزمین پر قدم نہیں رکھوں گا اور جس آبادی میں میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بدعہدی کی ہے ‘ اس میں کبھی مجھے کوئی نہیں دیکھے گا۔ رسول اللہ کو میرے جانے کی اور اس عمل کی جو مجھ سے سرزد ہوگیا تھا ‘ اطلاع پہنچی تو فرمایا : اس کو اس وقت تک یونہی رہنے دو جب تک اللہ اس کے بارے میں کوئی حکم جدید نازل نہ فرما دے۔ وہ اگر میرے پاس آجاتا تو میں اللہ سے اس کیلئے معافی کی دعا کرتا ‘ لیکن جب وہ میرے پاس نہیں آیا اور خود چلا گیا تو اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ اسی واقعہ کے سلسلہ میں آیت یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَخُوْنَوا اللہ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمَانَاتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ اس کے بعد ابو لبابہ کے توبہ قبول ہونے کی وحی رسول اللہ پر نازل ہوئی ‘ اس وقت حضور ﷺ حضرت ام سلمہ کے مکان میں تھے۔ حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ کو ہنستے سنا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ آپ کو ہنستا رکھے ‘ آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا : ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی۔ میں نے عرض کیا : کیا میں اس کو اس کی بشارت دے دوں ؟ فرمایا : اگر تم چاہتی ہو (تو ایسا کرلو) میں اٹھ کر حجرہ کے دروازہ پر پہنچی (یہ واقعہ حکم پردہ نازل ہونے سے پہلے کا ہے) اور کہا : ابولبابہ ! تم کو بشارت ہو ‘ اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی۔ یہ سنتے ہی لوگ ابولبابہ کو کھولنے کیلئے دوڑ پڑے۔ لیکن ابو لبابہ نے کہا : نہیں ‘ خدا کی قسم ! (مجھے کوئی نہ کھولے) رسول اللہ ہی مجھے اپنے ہاتھ سے کھولیں۔ تو خیر فجر کی نماز کیلئے حضور ﷺ برآمد ہوئے اور ابولبابہ کی طرف سے گزرے اور ان کو آزاد کیا۔ حماد بن سلمہ نے علی بن زید بن جدعان کی وساطت سے بروایت حضرت علی زین العابدین بن امام حسین بیان کیا کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہراء کھولنے کیلئے تشریف لے گئی تھیں تو حضرت ابو لبابہ نے کہا : میں نے اللہ کی قسم کھالی ہے کہ سوائے اللہ کے رسول ﷺ کے اور کوئی مجھے نہ کھولے۔ رسول اللہ نے فرمایا : فاطمہ میرا ہی ٹکڑا ہے۔ امام زین العابدین کی یہ روایت مرسل ہے (درمیان کا راوی بیان نہیں کیا گیا اور خود امام زین العابدین صحابی نہیں تھے) ابولبابہ کا بیان ہے کہ جب ہم بنی قریظہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو میں نے ایک خوب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ میں بدبودار سیاہ کیچڑ میں رندھ گیا ہوں اور اس کی بدبو سے مرا جاتا ہوں مگر نکل نہیں پاتا۔ پھر میں نے ایک بہتی نہر دیکھی اور اس میں غسل کرنے لگا ‘ یہاں تک کہ پاک صاف ہوگیا اور مجھے پاکیزہ خوشبو محسوس ہونے لگی۔ میں نے اس کی تعبیر حضرت ابوبکر صدیق سے دریافت کی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : تم کسی غم آگیں بات میں پھنس جاؤ گے ‘ پھر اللہ کشائش عطا فرما دے گا۔ میں جس وقت ستون سے بندھا ہوا تھا ‘ اس وقت مجھے حضرت ابوبکر کی بات یاد تھی اس لئے مجھے امید تھی کہ اللہ میری توبہ کی قبولیت نازل فرما دے گا۔ چنانچہ میں مسلسل اسی حالت میں رہا اور تکلیف کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کانوں سے آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی اور رسول اللہ میری حالت دیکھ رہے تھے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ ابو لبابہ چھ رات بندھے رہے۔ ہر نماز کے وقت بیوی آکر کھول دیتی تھی ‘ آپ وضو کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔ بیوی پھر باندھ دیتی تھی۔ ابن عقبہ کا بیان ہے : لوگوں کا قول ہے کہ تقریباً بیس رات بندھے رہے۔ بدایہ میں اس کو زیادہ صحیح قول قرار دیا ہے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پچیس دن بندھے رہے۔ نماز کے وقت یا قضاء حاجت کیلئے بیٹی آکر کھول دیتی تھی۔ فراغت کے بعد بیٹی دوبارہ باندھ دیتی تھی۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کبھی بیوی کھول دیتی ہوگی ‘ کبھی بیٹی۔ ابو لبابہ کی توبہ کے قبول ہونے کے سلسلہ میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی : وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّءًا عَسَی اللہ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللہ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ بغوی نے لکھا ہے : مسلمانوں نے بنی قریظہ کا محاصرہ پچیس روزہ جاری رکھا ‘ یہاں تک کہ محاصرہ کی تکلیف سے وہ تنگ آگئے اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تو اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق وہ اتر آئے۔ رسول اللہ نے ان کی مشکیں کسنے کا حکم دے دیا اور محمد بن مسلمہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا۔ پھر ان کو ایک طرف کو لے گئے اور عورتوں ‘ بچوں کو قلعوں سے باہر لایا گیا اور یہ خدمت عبد اللہ بن سلام کے سپرد کی گئی۔ پھر ان کا سامان جمع کیا گیا ‘ جس میں پندرہ سو تلواریں ‘ تین زرہیں ‘ دو ہزار بھالے ‘ پندرہ سو چمڑے کی چھوٹی بڑی ڈھالیں ‘ بہت سا اثاث البیت ‘ بکثرت ظروف اور شراب اور منشّی شربت ملا۔ شراب بہا دی گئی ‘ اس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ آب کش اونٹوں کی کافی تعداد اور مویشی بکثرت دستیاب ہوئے۔ یہ سب مال جمع کیا گیا اور رسول اللہ ایک گوشہ میں جا کر بیٹھ گئے۔ پھر قبیلۂ اوس والے قریب آئے اور انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ ہمارے حلیف ہیں ‘ خزرج کے حلیف نہیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ابن ابی (سردار خزرج) کے حلیفوں یعنی بنی قینقاع کے معاملہ میں آپ نے کیا سلوک کیا۔ خزرج کی وجہ سے تین سو غیرمسلح اور چار سو زرہ پوش لوگوں کو آپ نے معاف کردیا۔ اب ہمارے حلیف بھی اپنی گزشتہ عہدشکنی پر پشیمان ہیں ‘ ان کو ہماری وجہ سے معاف فرما دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے ‘ کوئی بات نہیں کی۔ اوس والوں نے جب زیادہ اصرار کیا تو فرمایا : کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرو گے کہ یہ فیصلہ تمہارے ہی ایک آدمی کے سپرد کردیا جائے ؟ اوس والوں نے کہا : کیوں نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تو فیصلہ سعد بن معاذ کے سپرد ہے۔ ابن عقبہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تم میرے صحابہ میں سے جس شخص کو چاہو (اس فیصلہ کیلئے) انتخاب کرلو۔ سفارش کرنے والوں نے حضرت سعد بن معاذ کو منتخب کرلیا۔ ایک مسلمان عورت تھی جس کو رفیدہ کہا جاتا تھا۔ وہ زخمیوں کا علاج کرتی تھی اور جس زخمی کا کوئی دیکھ بھال کرنے والا ‘ تیماردار نہ ہوتا تھا ‘ بامید ثواب اس کی خدمت خود کرتی تھی۔ اس کا خیمہ رسول اللہ کے حکم سے مسجد کے اندر لگا دیا گیا تھا۔ جب حضرت سعد جنگ خندق میں زخمی ہوگئے تو حضور ﷺ نے حکم دے دیا تھا کہ سعد کو رفیدہ کے خیمہ میں رکھو تاکہ قریب سے میں اس کی عیادت اور خبرگیری کرسکوں۔ چناچہ اس محاصرہ کے زمانہ میں حضرت سعد مسجد کے اندرر فیدہ کے ڈیرے میں مقیم تھے۔ جب حضور ﷺ نے حضرت سعد کو بنی قریظہ کے معاملہ کا جج بنا دیا تو یہیں رفیدہ کے خیمہ میں قبیلۂ اوس والے حضرت سعد کے پاس آئے اور آپ کو ایک عربی گدھے پر سوار کیا ‘ گدھے پر ریشوں سے بنا ہوا چارجامہ رکھا گیا تھا اور چارجامہ کے اوپر ایک کمبل ڈال دیا گیا تھا ‘ گدھے کی لگام بھی کھجور کے ریشوں کی تھی۔ حضرت سعد جسم دار آدمی تھے ‘ قبیلۂ اوس والے آپ کو اپنے گھیرے میں لے کر چلے اور راستہ میں حضرت سعد سے کہنے لگے : ابوعمرو ! اللہ کے رسول ﷺ نے آپ کے بھائیوں (یعنی حلیفوں) کا معاملہ آپ کے سپرد کردیا تاکہ آپ ان کے معاملہ میں اچھا سلوک کریں ‘ اس لئے آپ بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں (یعنی سخت فیصلہ نہ کریں) آپ دیکھ چکے ہیں کہ ابن ابی نے اپنے حلیفوں کے ساتھ کیسا اچھا سلوک کیا تھا۔ یہ لوگ حضرت سعد سے بہت زیادہ سفارش کرتے رہے مگر آپ خاموش رہے ‘ کوئی بات زبان سے نہیں نکال رہے تھے۔ آخر جب ان لوگوں نے زیادہ زور دیا تو آپ نے فرمایا : اب سعد کیلئے وقت آگیا ہے کہ اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کے برا کہنے کی اس کو پروا نہ ہو۔ یہ سن کر ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ انصاری اور دوسرے لوگ بول اٹھے : افسوس ! قوم والوں کی تباہی آگئی۔ سعد کے منہ سے نکلی ہوئی بات ابھی اوس والوں کو پہنچی بھی نہ تھی کہ ضحاک نے ان کو جا کر بنی قریظہ کی موت کی (یعنی فیصلۂ موت کی ( اطلاع دے دی) ۔ صحیحین میں آیا ہے کہ جب حضرت سعد مسجد کے قریب پہنچے یعنی اس مسجد کے قریب پہنچے جو محاصرہ کے زمانہ میں بنی قریظہ کے احاطہ میں رسول اللہ نے نماز کیلئے تیار کرائی تھی تو رسول اللہ نے فرمایا : اپنے سردار کے (استقبال) لئے اٹھو۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اپنے بہترین (سب سے اچھے) آدمی کے لینے کیلئے اٹھو۔ مہاجرین قریش کے نزدیک یہ خطاب صرف انصار کو تھا اور انصار کہتے تھے کہ رسول اللہ کا یہ خطاب تمام مسلمانوں کو تھا۔ امام احمد کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اپنے سردار کو لینے کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور اس کو اتارو۔ بنی عبدالاشہل کا بیان ہے کہ (اس حکم کی تعمیل) ہم نے اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر دو قطاریں بنا لیں۔ بوساطت حضرت جابر روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سعد ! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ حضرت سعد نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ حضرت سعد نے (انصاریان اوس سے) کہا : کیا بنی قریظہ کے معاملہ میں تم میرے فیصلہ پر راضی ہو ؟ سب نے کہا : ہاں ‘ ہم تو اس وقت بھی راضی تھی جب آپ یہاں موجود نہ تھے۔ ہم نے آپ کا انتخاب کیا اور یہ امید تھی کہ آپ ہم پر احسان کریں گے جیسے دوسروں نے (یعنی ابن ابی نے) اپنے حلیفوں کے ساتھ یعنی بنی قنیقاع کے ساتھ کیا تھا۔ سعد نے کہا : کیا تم اللہ کے عہد و میثاق کے ساتھ کہتے ہو کہ جو کچھ فیصلہ میں کروں گا ‘ تم اس کو واجب النفاذ قرار دو گے۔ سب نے کہا : ہاں۔ سعد نے اس گوشہ کی جانب جہاں رسول اللہ تشریف فرما تھے ‘ اشارہ کرتے ہوئے کہا : (یہ فیصلہ) کیا ان پر بھی ہوگا جو یہاں ہیں ؟ عظمت رسول اللہ کا احترام کرتے ہوئے حضرت سعد کا رخ اس وقت رسول اللہ کی طرف مڑا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ سعد نے کہا : تو میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے بالغ مرد قتل کر دئیے جائیں اور عورتوں ‘ بچوں کو باندی غلام بنا لیا جائے اور ان کے مال کو بانٹ لیا جائے اور ان کے گھر مہاجرین و انصار کو دے دئیے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے یہ فیصلہ اس حکم خداوندی کے مطابق کیا جو سات ٹکڑوں (یعنی سات آسمانوں) کے اوپر سے اللہ نے نازل فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سحر کو ہی یہ حکم لے کر فرشتہ میرے پاس آچکا تھا۔ جس رات کی صبح کو رسول اللہ کے حکم کے مطابق بنی قریظہ اپنے قلعوں سے اترے تھے ‘ اسی رات کو حضرت سعد نے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ ! اگر قریش سے جنگ کرنے کیلئے مجھے زندہ رکھنا چاہتا ہے تو باقی رکھ ‘ کیونکہ جن لوگوں نے تیرے رسول کی تکذیب کی ‘ ان کو ستایا اور جلاوطن کیا ان سے زیادہ کسی قوم سے لڑنے کی مجھے خواہش نہیں اور اگر قریش کی لڑائی ختم ہوچکی ہے تو اسی (زخم) کو میرے لئے باعث شہادت بنا دے لیکن جب تک بنی قریظہ کی طرف سے (یعنی ان کی شکست و تباہی کو دیکھ کر) میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوجائیں ‘ میرے لئے موت مقرر نہ فرما۔ اللہ نے بنی قریظہ کی طرف سے سعد کی آنکھیں ٹھنڈی کردیں۔ رسول اللہ ﷺ وہاں سے بروز پنج شنبہ ‘ نو یا پانچ ذی الحجہ کو واپس ہوئے اور حسب الحکم رملہ بنت حارث نجاریہ کے گھر میں یہودیوں کو بند کردیا گیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ مدینہ کے بازار کی طرف تشریف لے گئے۔ وہ بازار وہی تھا جو آج بھی ہے ‘ وہاں ایک گڑھا کھودنے کا حکم دیا ‘ چناچہ ابوالجہم عدوی کے مکان کے پاس سے احجار الرزیت تک بازار میں گڑھا صحابہ کھودنے لگے۔ رسول اللہ تشریف فرما رہے ‘ پھر آپ نے بنی قریظہ کے مردوں کو بلوایا اور اس گڑھے میں ان کی گردنیں ماری جانے لگیں۔ کعب بن اسد سے جو یہودیوں کو دستہ دستہ (قطار در قطار) رسول اللہ کی خدمت میں لے جا رہے تھے ‘ یہودیوں نے کہا : کعب ! تمہارا کیا خیال ہے محمد ﷺ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں ؟ کعب نے جواب دیا : کم بختو ! تمہارے ساتھ وہ معاملہ کریں گے جو تم کو پسند نہ ہوگا۔ بہرحال تم کو دیت لے کر چھوڑا نہیں جائے گا۔ تم میں سے جو جائے گا ‘ وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ خدا کی قسم ! (اب تو تمہارے لئے) تلوار ہی ہے۔ میں نے تم کو پہلے جس بات کی دعوت دی تھی (یعنی عہدشکنی نہ کرنے کی) تو نے اس کو نہ مانا۔ وہ کہنے لگے : یہ وقت عتاب (برابھلا کہنے) کا نہیں ہے ‘ اگر ہم تمہاری رائے کو برا سمجھ کر نظرانداز نہ کردیتے تو جو معاہدہ ہمارے اور محمد ﷺ کے درمیان تھا اس کو توڑنے میں شریک نہ ہوتے۔ حیی ابن اخطب نے کہا : اب ایک دوسرے کو برابھلا کہنا چھوڑو ‘ اس وقت اس سے کچھ فائدہ نہیں ‘ مرنے پر تیار ہوجاؤ۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت زبیر بن عوام نے بنی قریظہ کو قتل کیا تھا (یعنی قتل کرنے کی خدمت ان ہی دونوں بزرگوں نے انجام دی تھی) پھر حیی بن اخطب کو لایا گیا ‘ اس وقت گردن سے اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے اور فقاحی جوڑا اس نے قتل ہونے کیلئے پہن رکھا تھا۔ لیکن پھر اس کو پھاڑ دیا اور انگل انگل برابر ٹکڑے کر دئیے تاکہ اس کو اتار کو کوئی پہن نہ سکے۔ جب رسول اللہ کے سامنے آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : دشمن خدا ! کیا اللہ نے تجھے میرے قابو میں نہیں کردیا ؟ کہنے لگا : کیوں نہیں ‘ لیکن آپ سے دشمنی رکھنے پر میں اپنے آپ کو قابل ملامت نہیں قرار دیتا کیونکہ اپنے خیال میں میں آپ پر غالب آجانے کا خواستگار تھا لیکن اللہ کو یہ منظور نہ تھا ‘ اس کو یہی منظور تھا کہ مجھ پر آپ کو قابو عطا کر دے۔ میں نے چند دوڑ لگائی لیکن جس کی مدد اللہ نہ کرے اس کی مدد کوئی نہیں کرتا۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا : لوگو ! اللہ کے ہکم میں کوئی خرابی نہیں ‘ بنی اسرائیل پر یہ خدا کی طرف سے لکھا ہوا اور مقدر کیا ہوا امر ہے۔ یہ کہنے کے بعد بیٹھ گیا ‘ پھر اس کی گردن مار دی گئی۔ اس کے بعد رسول اللہ نے حکم دیا کہ اپنے قیدیوں سے بھلائی کرو اور دوپہر کا وقفہ دو اور پانی پلاؤ تاکہ ان کو کچھ ٹھنڈک مل جائے ‘ پھر جو باقی رہ گئے ہیں ان کو قتل کردینا۔ دوہری گرمی کی مارن ان پر نہ ڈالو۔ ایک تلوار کی گرمی ‘ دوسری سورج کی گرمی۔ گرمی کا موسم تھا اور دن گرم بھی تھا۔ لوگوں نے یہودیوں کو کچھ وقفہ دیا اور پانی پلایا۔ جب ٹھنڈک ہوگئی تو رسول اللہ تشریف لے آئے اور جو لوگ باقی رہ گئے تھے ان کو قتل کردیا گیا۔ کعب بن اسعد کو رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا : ابن حّواس نے تم کو نصیحت کی تھی اور میرے متعلق اس نے سچ کہا تھا ‘ مگر تم نے اس کی نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ کیا اس نے تم کو میر اتباع کرنے کا مشورہ نہ دیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات مجھ سے ہوجائے تو مجھے اس کی طرف سے سلام پہنچا دینا ؟ کعب نے کہا : بیشک ابو القاسم ! توریت کی قسم (اس نے یہی کہا تھا) اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ یہودی مجھے عار دلائیں گے اور کہیں گے کہ تلوار سے ڈر گیا تو میں آپ کا اتباع ضرور کرتا ‘ لیکن اب تو دین یہودیت پر قائم ہوں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا : اس کو بھی (قتل گاہ میں) پیش کرو۔ چناچہ اس کی بھی گردن مار دی گئی۔ رسول اللہ نے ہر اس مرد کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا جس کے زیر ناف بال آگئے ہوں۔ امام احمد اور اصحاب السنن نے بیان کیا ہے کہ عطیہ قرظی نے کہا : میں (اس زمانہ میں) لڑکا تھا۔ زیر ناف بال نہیں جمے تھے ‘ اس لئے مجھے چھوڑ دیا۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top