Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ : تم چاہتی ہو اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ : اور آخرت کا گھر فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ اَعَدَّ : تیار کیا ہے لِلْمُحْسِنٰتِ : نیکی کرنے والوں کے لیے مِنْكُنَّ : تم میں سے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لئے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ . اور اگر تم اللہ (کے قرب و رضامندی) کی اور اس کے رسول (کے قرب) کی اور دار آخرت (کی راحت و آسائش) کی خواستگار ہو۔ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجر عظیما . تو بلاشبہ اللہ نے تم میں سے نیکوکاروں کیلئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ یعنی ان عورتوں کیلئے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے جو اللہ ‘ اس کے رسول اور دار آخرت کی طلب گار ہیں ‘ ایسی ہی عورتیں مُحْسِنہ ہیں۔ احسان کا معنی ہی یہ ہے کہ رب کی عبادت اس حضور قلب سے کی جائے کہ گویا رب نظروں کے سامنے ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں رسول اللہ کی نو بیبیاں تھیں ‘ پانچ قریشی حضرت عائشہ بنت ابوبکر ‘ حضرت حفصہ بنت عمر فاروق ‘ حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان ‘ حضرت ام سلمہ بنت امیہ ‘ حضرت سودہ بنت زمعہ۔ باقی چار قریشی نہیں تھیں حضرت زینب بنت جحش اسدی ‘ حضرت میمونہ بنت حارث ہلالی ‘ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب خیبری اسرائیلی ‘ حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقی۔ جب آیت تخییر (مندرجہ بالا نازل ہوئی) تو سب سے پہلے رسول اللہ نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا ‘ آپ رسول اللہ کی سب سے زیادہ چہیتی بی بی تھیں۔ حضور ﷺ نے ان کے سامنے آیت پڑھی اور ان کو (طلاق حاصل کرنے ‘ یا ساتھ رہنے) کا اختیار دیا۔ حضرت عائشہ نے اللہ ‘ اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کیا اور اس بات سے حضور ﷺ کے چہرہ پر خوشی محسوس کی۔ دوسری بیبیوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کی پیروی کی۔ قتادہ کا بیان ہے کہ جب امہات المؤمنین نے اللہ ‘ اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کیا تو اللہ نے بھی ان کی قدرافزائی کی اور رسول اللہ کو انہی بیبیوں پر بس کرنے اور آئندہ نکاح نہ کرنے کا حکم دے دے دیا اور فرمایا : لاَ یَحِلُّ لَکَ النِسَّآءُ مِنْم بَعد الخ ان کے بعد تمہارے لئے اور عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔ مسلم ‘ احمد اور نسائی نے بوساطب ابو الزبیر حضرت جابر کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نے بارگاہ نبوت میں داخلہ کی اجازت طلب کی ‘ لیکن آپ کو اجازت نہیں ملی۔ پھر حضرت عمر آئے اور انہوں نے اجازت طلب کی ‘ ان کو بھی اجازت نہیں ملی۔ کچھ دیر کے بعد دونوں کو اجازت دے دی۔ دونوں حضرات اندر پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت غمگین خاموش بیٹھے ہوئے تھے ‘ گرداگرد آپ کی بیبیاں موجود تھیں۔ حضرت عمر نے (اپنے دل میں) کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات کہنی چاہئے جس سے رسول اللہ ہنس پڑیں۔ حضرت عمر کا بیان ہے (یہ خیال کر کے) میں نے عرض کیا : دیکھئے ! اگر خارجہ کی بیٹی (یعنی میری بی بی) مجھ سے (زائد) خرچ مانگتی تو میں اٹھ کر اس کی گردن توڑ دیا۔ یہ بات سن کر رسول اللہ کو ہنسی آگئی اور فرمایا : تم دیکھ رہے ہو کہ میرے گرداگرد یہ عورتیں جمع ہیں اور مجھ سے زیادہ خرچ دینے کی خواستگار ہیں۔ یہ بات سنتے ہی حضرت ابوبکر حضرت عائشہ کی گردن پر ضرب رسید کرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت عمر بھی حضرت حفصہ کی طرف گردن پر ضرب لگانے کیلئے بڑھے اور دونوں نے کہا : رسول اللہ کے پاس جو چیز نہیں ہے اس کا سوال رسول اللہ سے ہرگز کبھی نہ کرنا۔ اس کے بعد رسول اللہ سب عورتوں سے ایک مہینہ یعنی انتیس (29) روز کنارہ کش رہے ‘ پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے ابتداء حضرت عائشہ سے کی اور فرمایا : عائشہ ! میں ایک بات تمہارے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر تم جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ حضرت عائشہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیا بات ہے ؟ حضور ﷺ نے آیت مذکورہ پڑھ کر سنائی۔ حضرت عائشہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! کی آپ کے بارے میں میں اپنے باپ ماں سے مشورہ کروں ؟ (ایسا نہیں ہوسکتا) میں تو اللہ ‘ اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہوں لیکن آپ سے میری درخواست ہے کہ اپنی بیبیوں میں سے کسی کو میرے اس فیصلہ کی اطلاع آپ نہ دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مجھ سے تو جو عورت بھی پوچھے گی ‘ میں اس کو بتادوں گا۔ اللہ نے مجھے فتنہ انگیز بنا کر نہیں بلکہ بشارت دہندہ اور معلم بنا کر معبوث کیا ہے۔ صحیح میں زہری کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ نے ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی تھی۔ مجھ سے عروہ نے حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ ( 29 روز کے بعد) رسول اللہ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ہمارے پاس ایک ماہ تک نہیں آئیں گے اور آج تو 29 دن ہوئے ہیں ‘ میں گن رہی ہوں۔ فرمایا : مہینہ 29 دن کا ہے۔ فائدہ : بغوی نے لکھا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے کہ یہ اختیار جو رسول اللہ نے بیویوں کو دیا تھا ‘ کیا تفویض طلاق تھی کہ اگر عورتیں اپنے نفس کو اختیار کرلیتیں تو فوراً طلاق پڑجاتی (مزید طلاق دینے کی ضرورت نہ ہوتی) یا ایسا نہ تھا (بلکہ اس سے محض عورتوں کی مرضی کا اظہار ہوجاتا اور پھر بھی طلاق کا اختیار رسول اللہ کے ہاتھ میں رہتا) بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ تفویض طلاق تھی۔ لیکن حسن ‘ قتادہ اور اکثر اہل علم کا قول ہے کہ یہ تفویض طلاق نہ تھی بلکہ طلب طلاق کا اختیار دیا گیا تھا۔ اگر عورتیں دنیا کو پسند کرلیتیں تو رسول اللہ ان کو چھوڑ دیتے (یعنی طلاق دے دیتے) کیونکہ آیت میں آیا ہے : فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ (اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اگر عورتیں دنیا کو اختیار کرلیتیں تب بھی آزاد کرنے کا اختیار رسول اللہ کے ہی ہاتھ میں رہتا) ۔ مسئلہ : اگر شوہر نے بیوی سے کہا : تجھے اپنا اختیار ہے اور اس جملہ سے اس کا مطلب تفویض طلاق ہو ‘ یعنی یہ مقصد ہو کہ عورت چاہے تو خود اپنے کو طلاق دے لے تو اس مجلس میں عورت جب تک رہے گی اس کو اختیار رہے گا کہ اگر چاہے تو اپنے آپ کو طلاق دے لے ‘ لیکن اگر اس جگہ سے اٹھ جائے گی یا کسی کام میں مشغول ہوجائے تو طلاق کا اختیار ہاتھ سے نکل جائے گا کیونکہ یہ تملیک فعل ہے اور تملیک فعل کا تقاضا ہے کہ اسی مجلس میں جواب دیا جائے گا جیسے بیع میں (قبول کا اختیار اسی مجلس عقد میں رہتا ہے) صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ عورت کو اختیار مجلس باجماع صحابہ ثابت ہے۔ ابن ہمام کا بیان ہے کہ ابن منذر نے کہا : اگر مرد عورت کو اختیار (یعنی تفیض طلاق) دے دے تو یہ اختیار کب تک رہتا ہے ‘ اس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ عورت کو آخر مجلس تک اختیار رہتا ہے ‘ مجلس سے اٹھ جائے گی تو اختیار ساقط ہوجائے گا۔ مختلف استادوں سے ان بزرگوں کا یہ قول مروی ہے ‘ لیکن ان سندوں میں کلام کیا گیا ہے۔ حضرت جابر بن عبدا اللہ ‘ علاء ‘ مجاہد ‘ شعبی ‘ نخعی ‘ امام مالک ‘ سفیان ثوری ‘ اوزاعی ‘ شافعی ‘ ابو ثور اور اصحاب زاری کا یہی مسلک ہے لیکن زہری ‘ قتادہ ‘ ابوعبیدہ اور بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ عورت کا اختیار اس مجلس کے بعد بھی رہتا ہے۔ ابن منذر نے کہا : ہم بھی اسی کے قائل ہیں کیونکہ رسول اللہ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر (جوب دینے میں) جلدی نہ کرنا۔ صاحب مغنی نے یہی قول حضرت علی کا روایت کیا ہے۔ ابن ہمام نے ابن المنذر کے جواب میں کہا ہے کہ حضرت علی کا قول مذکور متفق علیہ نہیں ہے۔ دوسری روایت میں حضرت علی کا قول بھی جماعت صحابہ کے قول کے موافق آیا ہے۔ امام محمد نے بلاغات میں اس کی صراحت کی ہے ‘ لکھا ہے : ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان ‘ حضرت علی ‘ حضرت ابن مسعود اور حضرت جابر نے فرمایا : جو شخص اپنی بیوی کو اس کے نفس کا اختیار دے دے تو عورت کو اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اس مجلس میں رہے ‘ جب مجلس سے اٹھ جائے گی تو اس کو اختیار نفس نہیں رہے گا۔ کسی دوسرے صحابی کا قول بھی اس کے خلاف منقول نہیں ‘ لہٰذا اس پر اجماع سکوتی ہوگیا۔ رہی یہ بات کہ روایات کی اسنادوں میں کلام کیا گیا ہے تو اس سے اصل مسئلہ پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ امت اسلامیہ نے اس قول کو بالاتفاق قبول کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ عبدالرزاق نے حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابن مسعود کا قول جس سند سے نقل کیا ہے ‘ وہ کھری ہے (اس سند میں کوئی کلام نہیں) رہا ابن منذر کا حدیث کے لفظ لاتستعجلی سے استدلال تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ رسول اللہ نے طلاق کی تفویض نہیں کی تھی (طلب طلاق کا اختیار دیا تھا اور ہماری بحث اس مسئلہ میں ہے کہ شوہر نے تفویض طلاق کردی اور خود اپنے آپکو طلاق دے لینے کا اختیار دے دیا ہو) آیت فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاً بھی اس پر دلالت کررہی ہے۔ مسئلہ : اگر شوہر نے بیوی سے کہا : تجھے اپنا اختیار ہے تو تفویض طلاق کی نیت ضرور اس وقت ہونی چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ شوہر بیوی کو کسی اور چیز کا اختیار دے رہا ہو (اور یہ مقصد ہو کہ تجھے خود اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے) ۔ مسئلہ : اگر شوہر نے بیوی سے کہا : تجھے اپنا اختیار ہے اور اس نے جواب میں کہا کہ میں نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو حضرت عمر ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس کے نزدیک ایک رجعی طلاق ہوجائے گی کیونکہ شوہر کی طرف سے تفویض اختیار کا معنی ہے تفویض طلاق اور جب عورت نے اختیار نفس کا اظہار کردیا تو ایسا ہوگیا جیسے اس نے یہ لفظ کہہ دیئے کہ میں نے اپنے آپ کو طلاق دے لی اور اس طرح لفظ طلاق سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آیت قرآنی سے بھی ثابت ہے کہ تیسری طلاق کے بعد تو خیر رجوع نہیں کیا جاسکتا ‘ البتہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ حضرت زید بن ثابت کا قول آیا ہے کہ صورت مذکور میں تین طلاقیں پڑجاتی ہیں جس عورت سے قربت کی جا چکی ہو۔ اس کے معاملہ میں امام مالک کا قول بھی حضرت زید کے قول کے موافق ہے اور غیرمدخولہ کے معاملہ میں اگر ایک طلاق مراد ہونے کا دعویٰ کیا جائے تو قبول کرلیا جائے گا۔ حضرت زید کے قول کی وجہ یہ ہے کہ تفویض اختیار کی صورت میں اختیار طلاق کا حق عورت کو ہونا ضروری ہے ‘ عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو اس پر حق تسلط باقی نہ رہنا چاہئے۔ اگر مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے تو عورت کو تفویض طلاق کا کیا فائدہ ؟ عورت چاہے یا نہ چاہے ‘ مرد بہرطور رجوع کرسکے گا اور عورت کو اس قسم کا خصوصی حق اس وقت ہوسکتا ہے جب عورت کی اختیار کردہ طلاق کو بائن کہا جائے ‘ غیر بائن طلاق کے بعد تو تین طلاقوں کے علاوہ اور کسی صورت سے حق رجوع ساقط نہیں ہوتا ‘ لہٰذا عورت کی اختیار کردہ طلاق کو تین طلاقیں قرار دینا ضروری ہے۔ حضرت علی کا قول روایۃً ثابت ہے کہ ایک بائنہ طلاق واقع ہوگی۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے کیونکہ تفویض اختیار کے بعد طلاق کا اختیار صرف عورت ہی کو مل جاتا ہے (مرد کو رجوع کا حق نہیں رہتا) اور یہ جب ہی ہوگا کہ عورت کی اختیار کردہ طلاق کو بائنہ کہا جائے اور طلاق بائن بغیر تین طلاقوں کے بھی کبھی ہوتی ہے جیسے طلاق بالمال ہو یا طلاق قبل الدخول ‘ اس لئے اس طلاق بائنہ کو تین طلاقیں قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ بائنہ ایک ہو یا تین ‘ اس کے بعد بینونت ہوجاتی ہے اور حق رجوع بہرنوح ساقط ہوجاتا ہے) ترمذی کی روایت میں حضرت ابن مسعود اور حضرت عمر کا قول آیا ہے کہ صورت مذکورہ میں طلاق بائنہ ہوگی۔ دوسری روایت میں ان دونوں بزرگوں کی طرف طلاق رجعی ہونے کی نسبت کی گئی ہے ‘ پس روایات میں اختلاف ہوگیا (اور کوئی ایک روایت بھی قابل استدلال نہیں رہی) ۔ میں کہتا ہوں : بینونت دو طرح کی ہوتی ہے ‘ غلیظ اور خفیفہ۔ اگر شوہر نے بینونت غلیظ کی نیت کی ہو تو لامحالہ تین طلاقیں پڑجائیں گی۔ لیکن امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ تجھے اپنا اختیار ہے کہنے سے بینوت پر دلالت نہیں ہوتی بلکہ یہ کلام تو صرف اس مفہوم کیلئے مفید ہے کہ خالص طور پر عورت کو اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ اپنے آپ کو طلاق دے لے۔ بینونت تو بتقاضاء کلام (یعنی بدلالت التزامی) سمجھی جاتی ہے ‘ لہٰذا بینونت عومی نہیں بلکہ بقدر ضرورت لینا کافی ہے ‘ برخلاف اَنْتِ بَاءِنٌ یا اس جیسے دوسرے کلام کے (کہ یہ صراحۃً بدلالت مطابقی بینونت پر دلالت کر رہا ہے) اگر ایسے کلام میں تین طلاقوں کی نیت کی تو تین طلاقیں پڑجائیں گی لیکن جو جملہ ما بہ النزاع ہے ‘ اس میں تو بینونت پر صراحۃً دلالت ہی نہیں ہے اس لئے اگر صورت مذکورہ میں شوہر نے تین طلاقیں تفویض کرنے کی نیت بھی کی ہو تب بھی ایک بائنہ پڑگی کیونکہ نیت وہیں عمل کرتی ہے جہاں نیت کے مطابق معنی مراد لینے کو لفظ برداشت کرسکے اور لفظ میں اس مرادی معنی کا احتمال ہو۔ اگر تین اختیاری (تجھے اپنا اختیار ہے) کہا تو چونکہ الفاظ تفویض تین بار کہے اس لئے مقصود کا تعدد معلوم ہوتا ہے (پاس ایسی صورت میں اگر عورت نے طلاق کو اختیار کرلیا اور ” اخترت “ کہہ دیا تو تین طلاقیں پڑجائیں گی۔ مسئلہ : اگر شوہر کے جواب میں عورت نے کہا کہ میں نے اپنے شوہر کو اختیار کرلیا تو جمہور کے نزدیک کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ شوہر نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ عورت کو تفویض طلاق کی تھی اور عورت نے طلاق کو اختیار نہیں کیا بلکہ بقاء نکاح کو اختیار کیا۔ ایک روایت میں حضرت علی کا قول آیا ہے کہ ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی گویا آپ نے لفظ اختیار کو ایقاع طلاق قرار دیا (مفعول کا لحاظ نہیں کیا) ابن ہمام نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ کا قول (جمہور کے مسلک کی تائید کرتا ہے ‘ حضرت عائشہ کا یہ قول) ہے کہ رسول اللہ نے ہم کو اختیار دیا تھا مگر ہم نے رسول اللہ ہی کو اختیار کیا اور حضور ﷺ نے اس (اختیار) کو کچھ نہیں قرار دیا۔ میں کہتا ہوں : پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ نے امہات المؤمنین کو طلاق کا اختیار نہیں دیا تھا بلکہ طلب طلاق کا اختیار دیا تھا ‘ لہٰذا حضرت عائشہ کے قول سے حضرت علی کے قول کے خلاف استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ : (تفویض طلاق کیلئے) نفس کا لفظ ذکر کیا جانا ضروری ہے۔ اگر مرد نے کہا کہ تجھے اختیار ہے اور عورت نے جواب دیا کہ میں نے اختیار کرلیا تو طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اختیار کا لفظ طلاق کا لفظ نہیں ہے کیونکہ کسی کو کسی چیز کا مالک بنانے کا تقاضا ہے کہ وہ چیز پہلے مالک بنانے والے کی ملک میں ہو (جب خود ہی مالک نہ ہوگا تو دوسرے کو اس چیز کا مالک کیسے بنا سکے گا ؟ ) اور لفظ اختیار کہہ کر شوہرخود ہی طلاق واقع نہیں کرسکتا تو اس لفظ کا استعمال ایقاع طلاق کا مالک کیسے کرسکتا ہے ؟ قیاس کا یہی تقاضا ہے لیکن اجماع صحابہ ہے کہ عورت اگر اپنے نفس کو اختیار کرلے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اس لئے ہم خلاف قیاس بھی اجماع صحابہ کی وجہ سے وقوع طلاق کے قائل ہیں مگر وقوع طلاق پر اجماع صحابہ اسی وقت ہے جب زوجین میں سے کسی نے کھل کر لفظ نفس استعمال کیا ہو (یا شوہر نے کہا ہو کہ تجھے اپنے نفس کا اختیار ہے یا عورت نے کہا ہو کہ میں نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا) فقظ اختیار کا لفظ تو مبہم ہے ‘ اختیار نفس بھی مراد ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے کام کا اختیار بھی ‘ اور جب زوجین میں سے ہر ایک نے اختیار کا لفظ مبہم بولا تو تعیین مفہوم نہیں ہوئی۔ مبہم ‘ مبہم کی تشریح نہیں بن سکتا۔ (اگر نص کتاب یا حدیث یا اجماع کی وجہ سے کوئی حکم خلاف قیاس ہو تو اس کا اقتصار اس کے مورد پر کیا جاتا ہے ‘ اس پر کسی دوسرے مسئلہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ‘ یہ ضابطہ تفسیری فقہی ہے) اور اختیار نفس کے لفظ سے طلاق کا وقوع خلاف قیاس ہے اس لئے اس حکم کو اسی مقام پر مقصود رکھا جائے گا جس پر اجماع ہوا ہو ‘ لہٰذا قرینۂ حال کی موجودگی میں بھی باوجود نیت کے بغیر لفظ نفس کے استعمال کے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ زوجین کی طرف سے صرف لفظ اختیار کو استعمال کرنے سے طلاق کے وقوع پر اجماع نہیں ہے۔ امام شافعی اور امام احمد کہتے ہیں کہ اگر قرینۂ حال موجود ہو اور لفظ اختیار سے شوہر کی مراد وقوع طلاق ہو اور زوجین اس مفہوم کے مراد ہونے پر متفق ہوں تو شوہر کی نیت کافی ہے (مطلق لفظ اختیار استعمال کرنے سے طلاق واقع ہوجائے گی) ۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں : اگر لفظ میں کسی مفہوم کے مراد ہونے کا احتمال ہی نہ ہو تو نیت بیکار ہے ورنہ کسی لفظ کو بھی بول کر کوئی مفہوم مراد لینا صرف اس وجہ سے صحیح قرار پائے گا کہ بولنے والے کی نیت میں وہ مفہوم تھا مثلاً کوئی شخص بیوی سے کہے کہ مجھے پانی پلا دے اور اس لفظ سے اس کی مراد ایقاع طلاق ہو تو کیا طلاق ہوجائے گی ؟ پس لفظ اختیار سے بھی طلاق مراد نہیں ہوسکتی ‘ خواہ طلاق کی نیت ہی ہو مگر اس قیاسی نظریہ کو ہم نے اجماع صحابہ کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دوسرے الفاظ کو لفظ اختیار کے مساوی قرار دینا بےمحل ہے کیونکہ بغیر نیت کے لفظ اختیار میں دونوں احتمال ہیں۔ اختیار نفس بھی مراد ہونے کا احتمال ہے اور کسی دوسرے کام کے اختیار کرنے کا بھی احتمال ہے۔ اب اگر شوہر نے اس لفظ سے تفویض طلاق کی نیت کی ہو اور عورت کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو طلاق ہوجائے گی کیونکہ عورت کا کلام شوہر کے کلام کی تفسیر ہوجائے گا اور حسب نیت شوہر لفظ اختیار میں تو تفویض طلاق کا احتمال موجود تھا ہی۔ مسئلہ : اگر شوہر نے کہا کہ تجھے اختیار ہے اور عورت نے مضارع کا صیغہ بولا تو طلاق ہوجائے گی۔ قیاس کا تقاضا تھا کہ طلاق واقع نہ ہو کیونکہ عورت کا لفظ یا تو مستقبل میں وعدۂ اختیار کو ظاہر کر رہا ہے یا ایسا لفظ ہے جس میں وعدۂ مستقبل کا احتمال ہے اور اختیار مستقبل سے طلاق واقع نہیں ہوتی جیسے شوہر نے اگر صراحۃً کہہ دیا ہو کہ تو اپنے نفس کو طلاق دے لے اور عورت جواب میں کہے کہ میں اپنے کو طلاق دے لوں گی تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے : ظاہرہ قیاس کے خلاف استحسان کی وجہ حضرت عائشہ کا وہ قول ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا : لا بل اختار اللہ ورسولہ (حضرت عائشہ نے اس کلام میں لفظ اختار بصیغہ مضارع بولا تھا اور) رسول اللہ نے اس کو حضرت عائشہ کی طرف سے صحیح جواب مان لیا۔ ایک شبہ موضوع بحث سے ہی امہات المؤمنین کو حاصل شدہ خیار خارج ہے۔ اس شبہ کو زائل کرنے کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے ہمارے مقصد میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ رسول اللہ نے حضرت عائشہ کے قول کو تخییر کا جواب مان لیا ‘ خواہ تخییر کا تعلق طلاق سے تھا یا طلب طلاق سے۔ اس کے علاوہ اختار اور اطلق میں یہ فرق بھی ہے کہ لفظ اختار نفسی کو حالت موجودہ کی تعبیر قرار دیا جاسکتا ہے یعنی اس کلام کو اختیار نفس کی حکایت کہتے ہیں لیکن لفظ اطلق نفسی کو حالت موجودہ کی حکایت نہیں کہا جاسکتا۔
Top