Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 48
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافق (جمع) وَدَعْ : اور خیال نہ کریں اَذٰىهُمْ : ان کا ایذا دینا وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ ۭ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ ان کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور خدا پر بھروسہ رکھنا۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے
ولا تطع الکفرین والمنفقین . اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ کیجئے۔ یعنی شریعت اسلامیہ کے خلاف کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانئے۔ یہ کافروں اور منافقوں کے قول کی مخالفت پر جمے رہنے کی ترغیب ہے۔ ودع اذا ھم . اور ان کی طرف سے جو ایذا پہنچے اس کا خیال نہ کیجئے۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ نے فرمایا : مطلب یہ ہے کہ کافروں اور منافقوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کیجئے۔ دَعْ چھوڑ دیجئے یعنی ایک طرف کو پھینک دیجئے ‘ اس کی پروا نہ کیجئے ‘ اس کا خوف نہ کیجئے۔ زجاج نے آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان سے جھگڑا نہ کیجئے ‘ ان کو دیکھ پہنچانے کا خیال نہ کیجئے۔ خلاصہ یہ کہ کافروں اور منافقوں کی (ان کی ایذا رسانی کے عوض) ایذا نہ دیجئے۔ اس توضیحی مطلب پر بعض اہل علم کے نزدیک یہ آیت منسوخ الحکم ہے۔ وتوکل علی اللہ اور اللہ پر بھروسہ رکھئے ‘ وہی آپ کیلئے کافی ہے۔ وکفی باللہ وکیلا اور اللہ کی کارسازی کافی ہے۔ یعنی جب تم اللہ کو اپنے تمام امور سپرد کر دو گے تو وہ تمہارے سارے امور کیلئے کافی ہوگا ‘ تم کو دوسروں کا محتاج نہ چھوڑے گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اللہ نے اپنی نبی کے پانچ اوصاف بیان فرمائے : شاہد ‘ مبشر ‘ نذیر ‘ داعی الی اللہ ‘ سراج منیر ‘ پھر ہر صفت کے مناب ترتیب وار حکم دیا ‘ صرف شاہد کے مقابل کوئی حکم نہیں دیا کیونکہ مابعد کا کلام تمام احکام نگہداشت کی تفصیل کر رہا ہے (گویا شاہد کا لفظ چاہتا تھا کہ نگہداشت کی جائے لیکن نگہداشت کس بات کی کی جائے ‘ اس کی تفصیل بعد والے کلام میں کردی گئی) مبشر کے مقابل (یعنی مناسب) مؤمنوں کو بشارت دینے کا حکم دیا گیا اور نذیر کے مقابل کافروں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کی پروا نہ کرنے کا حکم دیا گیا اور ان کا لحاظ کرنے کی ممانعت کردی گئی اور داعی الی اللہ کے مقابل اللہ پر بھروسہ رکھنے کا حکم دیا گیا اور سراج منیر کے مناسب فرمایا کہ اللہ کی کارسازی پر اکتفاء کی جائے کیونکہ وہ ذات جس نے تمام مخلوق سے زیادہ روشن دلائل آپ کو عنایت کئے ‘ اسی ذات پر اکتفاء کرنا مناسب ہے۔
Top