Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرکے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ۔ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن . اے ایمان والو ! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے (کسی وجہ سے) طلاق دے دو ۔ یہ حکم مسلمان عورتوں کا بھی ہے اور کتابی عورتیں جن سے مسلمانوں نے نکاح کرلیا ہو ‘ ان کا بھی یہی حکم ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ صرف مؤمنات کا ذکر کرنے سے اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مسلمان عورتوں سے ہی نکاح کرنا مسلمانوں کیلئے مناسب ہے۔ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ پھر (یعنی نکاح کے بعد) تم نے ان کو طلاق دے دی ہو۔ بغوی نے کہا کہ اس فقرہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ نکاح پر طلاق کو منتفرع کیا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی غیر عورت سے اس طرح کہا ہے کہ جب میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے ‘ پھر اس سے نکاح کرلیا تو (نکاح سے) پہلے دی ہوئی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اگر اس طرح کہا کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اسے طلاق ہے ‘ پھر کسی عورت سے نکاح کرلیا تو طلاق واقع ہوگی۔ حضرت علی ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت معاذ ‘ حضرت جابر اور حضرت عائشہ کا یہی قول ہے۔ سعید بن مسیب ‘ سعید بن جبیر ‘ عروہ ‘ قاسم ‘ طاؤس ‘ عکرمہ ‘ عطاء ‘ سلیمان بن یسار ‘ مجاہد ‘ شعبی ‘ قتادہ اور اکثر علماء اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔ اگر آزادی کو ملک کے ساتھ معلق کردیا ہو (مثلاً یوں کہا ہو کہ جب میں کسی باندی ‘ غلام کا مالک ہوں تو وہ آزاد ہے ‘ یا کسی معین باندی غلام سے کہا ہو کہ جب میں تیرا مالک ہوں تو تو آزاد ہے) تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : (مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں ( طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابراہیم نخعی اور اصحاب الرای یعنی امام ابوحنیفہ اور صاحبین کا یہی قول ہے۔ ربیعہ ‘ اوزاعی اور مالک نے کہا : اگر کسی معین عورت کے متعلق جملۂ مذکورہ کہا (جیسا اول الذکر صورت میں ہے) تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر عورت کی تعیین نہیں کی بلکہ عام جملہ بولا (جیسا دوسری مثال میں ہے) تو طلاق نہ ہوگی۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : لوگوں نے ابن مسعود کی طرف غلط نسبت کی ہے اور اگر واقعی انہوں نے کسی معین عورت کے متعلق کہا ہو کہ فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے ‘ اللہ فرما رہا ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھَنَّاس نے اِذَا طَلَّقْتُمُوْھَنَّ ثُمَّ نَکَحْتُمُوْھُنَّ نہیں فرمایا (یعنی نکاح کے بعد طلاق کا ذکر کیا ‘ طلاق کے بعد نکاح کا ذکر نہیں کیا) بغوی نے (مسلک شافعی پر) ایک حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی۔ میں کہتا ہوں : حاکم نے مستدرک میں یہ حدیث بیان کی ہے اور اس کو صحیح کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ شیخین (امام بخاری و مسلم) پر مجھے تعجب ہے کہ کیوں انہوں نے یہ حدیث صحیحین میں ذکر نہیں کی باوجودیکہ ان کی شرائط کے مطابق (اس کے راوی ثقہ ‘ عادل ‘ حافظ و ضابط ہیں) ۔ امام احمد نے کہا : اگر طلاق کو معلق بالنکاح کیا ہے تو نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر باندی غلام کی آزادی کو معلق بالملک کیا ہے تو مالک ہونے کے بعد غلام باندی کے آزاد ہونے یا نہ ہونے کے متعلق امام احمد کے دو قول مروی ہیں ‘ امام مالک نے کہا : کسی خاص شہر کا یا قبیلہ یا کسی خاص صنف کا یا کسی خاص عورت کا نام لیا ہے اور اس کی طلاق کو معلق بالنکاح کیا ہے تو نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر بالکل تعمیم کی ہے ‘ نہ عورت کو نامزد کیا ہے ‘ نہ کسی شہر ‘ قبیلہ یا صنف کو (اور یوں کہا کہ میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے) تو طلاق نہیں ہوگی۔ ا بن جوزی نے امام احمد کے قول کو ثابت کرنے کیلئے چھ احادیث پیش کی ہیں : (1) عمروبن شعیب نے بوساطت شعیب اپنے دادا کی روایت سے رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ غیر مملوک (یعنی غیرمنکوحہ) کی طلاق (نافذ) نہیں ‘ نہ غیر مملوک کو آزاد کرنا (جائز) ہے ‘ نہ غیر مملوک کو فروخت کرنا (درست) ہے۔ ابن جوزی نے یہ حدیث امام احمد کے طریق سے نقل کی ہے ‘ اصحاب السنن نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔ ترمذی نے کہا : اس باب میں جو روایات آئی ہیں ‘ سب سے بہتر یہ روایت ہے۔ بزار کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : نکاح سے پہلے طلاق نہیں اور نہ ملکیت سے پہلے آزادی ہے۔ بیہقی نے خلافیات میں لکھا ہے کہ بخاری نے اس موضوع کی روایات میں مذکورہ روایت کو سب سے زیادہ صحیح کہا ہے۔ (2) عمرو بن شعیب نے بوساطت طاؤس حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ غیرمملوک کی نہ طلاق جائز ہے ‘ نہ اس کا آزاد کرنا ‘ نہ فروخت کرنا ‘ نہ اس نذر کو پورا کرنا جائز ہے جو غیرمملوک چیز کی ہو۔ رواہ الدارقطنی۔ دارقطنی نے ایک اور طقیہ سے از ابراہیم ابو اسحاق ضریر از یزید بن عیاض از زہری از سعید بن مسیب از معاذ بن جبل بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : طلاق (جائز) نہیں ہے مگر نکاح کے بعد خواہ مقررہ عورت کو نامزد کر کے (دی گئی) ہو۔ حافظ ابن حجر نے کہا : یہ روایت منقطع ہے اور یزید بن عیاض متروک ہے۔ ذہبی نے استیعاب اسماء الرجال میں ذکر کیا ہے کہ امام مالک نے کہا : یزید بن عیاض بڑا جھوٹا ہے۔ یحییٰ بن معین نے کہا : ضعیف ہے ‘ ہیچ ہے۔ احمد بن صار نے کہا : لوگوں کیلئے یہ (احادیث) بنا لیتا تھا۔ بخاری اور مسلم نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے۔ ابو داؤد نے کہا : اس کی (بیان کی ہوئی) حدیث ترک کردی جائے۔ نسائی نے اس کو متروک کہا ہے اور ایک مقام پر کذاب کہا ہے۔ (3) دارقطنی کی روایت ہے کہ ہم سے بقیہ بن ولید نے بیان کیا بحوالۂ ثور بن یزید از روایت خالد بن معدان کہ حضرت ابوثعلبہ خشنی نے کہا کہ مجھ سے میرا چچا نے کہا : تو میرے ساتھ مل کر کام کر ‘ میں اپنی لڑکی کا نکاح تجھ سے کر دوں گا۔ میں نے (جواب میں) کہا : اگر میں نے اس سے نکاح کرلیا تو اس کو (میری طرف سے) تین طلاقیں۔ کچھ مدت کے بعد اس سے نکاح کرنا کا مجھے خیال ہوا تو رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے (یہ مسئلہ) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : تو اسے نکاح کرلے کیونکہ طلاق (جائز) نہیں مگر نکاح کے بعد۔ حسب اجازت میں نے اس سے نکاح کرلیا اور اس سے میرے دو بیٹے پیدا ہوئے اسعد اور سعید۔ ذہبی نے میزان میں لکھا ہے کہ نسائی وغیرہ نے کہا : اگر بقیہ بن ولید لفظ حَدَّثَنَا (ہم سے بیان کیا) کہے تو قابل اعتماد ہے لیکن بہت سے اہل روایت کہتے ہیں کہ بقیہ مدلس تھا ‘ جب وہ کسی حدیث کو از فلاں کہہ کے بیان کرے تو قابل استدلال نہیں ہے۔ ثور بن یزید ضرور ثقہ ہے ‘ صحیح الحدیث ہے لیکن فرقۂ قدریہ میں اس کا داخل ہونا مشہور ہے۔ اس جگہ بقیہ نے یہ حدیث از ثور بن یزید کے لفظ سے بیان کی ہے (اس لئے قابل استدلال نہیں) ابن ہمام نے اس کی سند پر طعن کیا ہے کہ اس سلسلہ میں علی بن قرین ایک راوی ہے جس کو امام احمد نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں : ابن جوزی نے جس سلسلہ میں یہ حدیث بیان کی ہے ‘ وہ دارقطنی کے طریق سے نہیں ہے اور نہ اس میں علی بن قرین آتا ہے۔ (4) حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نے کہا : جس روز میں فلاں عورت سے نکاح کروں اس کو (میری طرف سے) طلاق ہے (کیا نکاح کے بعد طلاق پڑجائے گی ( فرمایا : اس نے ایسی طلاق دی جس کا وہ مالک نہیں تھا۔ رواہ الدارقطنی ‘ اس کی سند میں ابو خالد واسطی یعنی عمر ون خالد واقع ہے جس کو بقول ذہبی ‘ ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے اور بقول ابن ہمام ‘ امام احمد اور یحییٰ بن معین نے کذاب قرار دیا ہے۔ ابن عدی نے بروایت نافع بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا : رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : طلاق (جائز) نہیں مگر نکاح کے بعد۔ ابن حجر نے کہا : اس سند کے راوی ثقہ ہیں۔ (5) طاؤس نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : نذر (واجب الادا) نہیں مگر اسی صورت میں جب جس میں اللہ کے حکم کی پابندی کی گئی ہو اور قطع قربت کی قسم (واجب الوفاء) نہیں اور (نافذ نہیں) غیرمملوک کو نہ طلاق دینا ‘ نہ آزاد کرنا۔ رواہ الدارقطنی۔ ابن حجر نے کہا : حاکم نے اس کو دوسرے طریق سے نقل کیا ہے جس کے بعض راوی غیرمعروف ہیں۔ حاکم نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ ابن مسعود نے یہ بات (یعنی وقوع طلاق قبل از نکاح کی) نہیں کہی اور اگر کہی ہو تو یہ ایک عالم کی لغزش ہے۔ اللہ نے تو فرمایا ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھَنَّاس طرح نہیں فرمایا اِذَا طَلَّقْتُمُوْھَنَّ ثُمَّ نَکَحْتُمُوْھُنَّ ۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ ” لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِکَاحٍ “ کی روایت کوئی بھی مرفوع صحیح نہیں۔ سب سے زیادہ صحیح مرسل روایت ہے جو منکدر نے بحوالۂ طاؤس بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : (ظاہر ہے کہ طاؤس صحابی نہ تھے اور کسی صحابی کے حوالہ سے انہوں نے بیان نہیں کیا اس لئے یہ روایت مرسل الصحابی ہے) ۔ (6) حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے ابوسفیان بن حرب کو نجران (علاقۂ ) یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور من جملہ دیگر ہدایت کے یہ ہدایت بھی کی کہ جو نکاح میں نہ ہو اس کو آدمی طلاق نہ دے اور نہ اس کو آزاد کرے جس کا مالک نہ ہو۔ ابن حجر نے کہا : ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔ حاکم نے بطریق حجاج بن منہال ‘ از روایت ہشام و ستوائی ازعروہ از عائشہ اس کو مرفوعاً ذکر کیا ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ اسی طرح کی حدیث حضرت علی اور حضرت جابر کی روایت سے بھی آئی ہے لیکن سارے سلسلے قطعاً واجب الاجتناب ہیں (کوئی قابل اعتبار نہیں) ۔ میں کہتا ہوں : حضرت علی کی روایت سے مرفوعاً ابن ماجہ نے بیان کیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق (جائز) نہیں۔ اس کی سند میں جو ییر ضعیف راوی آیا ہے۔ حضرت جابر کی روایت کردہ حدیث میں نے پہلے ذکر کردی ہے۔ اس سلسلہ کی ایک حدیث حضرت مسور بن مخرمہ کی بیان کردہ آئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : نکاح سے پہلے طلاق نہیں اور نہ مالک ہونے سے پہلے آزاد کرنا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کی دلیل یہ ہے کہ جو طلاق معلق بالشرط ہو ‘ وہ حقیقت میں طلاق ہی نہیں ہے ‘ جب تعلیق بالشرط کردی گئی تو سبب ‘ سبب موجب نہیں رہا۔ اِنْ دَخَلَتِ الدَّارَفَاَنْتِ طَالِقٌ اور اِنْ نَکَحْتُکِ فَاَنْتِ طَالِقٌ دونوں جملوں میں قسم ہے جو دخول دار اور نکاح سے مانع ہے اور دخول دار اور نکاح وقوع طلاق کی شرط ہے ‘ لہٰذا تعلیق بالشرط طلاق سے مانع ہے اس لئے یہ تعلیق موجب طلاق نہیں ہوسکتی۔ مانع طلاق ہونا اور موجب طلاق ہونا دو متضاد چیزیں ہیں۔ ہاں ‘ وجود شرط کے بعد طلاق بننے کی اس میں صلاحیت ہے اور جب طلاق معلق طلاق نہیں ہے تو آیت سے استدلال بھی صحیح نہیں ہے۔ باقی وہ احادیث جن سے قبل از نکاح طلاق دینے کے جواب کی نفی کی گئی ہے تو ان احادیث میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ثعلبہ خشنی کی روایات صحیح نہیں ہیں ‘ عدم صحت کی وجہ اوپر ذکر کردی گئی ہے۔ ایک شبہ جب مشروط طلاق ‘ طلاق ہی نہیں ہے تو پھر اگر کوئی شخص کسی غیر عورت سے کہے کہ اگر تو گھر میں گئی تو تجھے طلاق ہے اور کوئی شخص غیر عورت سے کہے کہ اگر میں نے تجھ سے نکاح کیا تو تجھے طلاق ہے ‘ دونوں جملے ایک ہی طرح کے ہیں (دونوں میں طلاق مشرول ہے اور مشروط طلاق تمہارے نزدیک طلاق ہی نہیں ہے) تو پھر اوّل صورت میں انعقاد نہ ہونا اور دوسرے جملہ میں انعقاد ہوجانا کیوں ہے (یعنی مؤخر الذکر جملہ کہنے کے بعد اگر نکاح کرے گا تو طلاق ہوجائے گی اور اوّل الذکر جملہ کہنے کے بعد اگر عورت گھر میں داخل ہوگئی تو مکان میں اس کے داخلہ کا اس کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی) ۔ جواب دونوں جملوں کے حکم میں فرق یہ ہے کہ قسم یا تو اللہ کے خوف کی وجہ سے مانع فعل ہوتی ہے کہ اگر وہ کام کرے گا تو گناہ ہوگا یا یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ کام کیا تو ایسا ناگوار نتیجہ نکلے گا جو قائل کو پسند نہیں مثلاً طلاق پڑجائے گی یا غلام آزاد ہوجائے گا۔ اب اگر وقوع طلاق و عتق کو ملکیت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہو تو ڈر کی وجہ سے یقیناً مالک ہونے سے رک سکتا ہے (یعی نکاح کرنا یا غلام کو خریدنا چونکہ قائل کا اپنا فعل ہے اس لئے ڈر کے مارے نہ نکاح کرے گا ‘ نہ غلام کو خریدے گا) لیکن طلاق و عتاق کو کسی غیر عورت کے گھر میں داخل ہونے سے مشروط کیا ہو تو اس جملہ میں اجنبی عورت کیلئے گھر میں داخل ہونے سے کوئی مانع نہیں ‘ لہٰذا اس قسم کے جملہ میں نہ قسم ہونے کی صلاحیت ہے ‘ نہ وقوع طلاق کا سب بننے کی بلکہ ایک لغو کلام ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ ہمارے مسلک کے مطابق حضرت عمر ‘ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن مسعود کے اقوال بھی مروی ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے ” مصنف “ میں سالم ‘ قاسم بن محمد ‘ عمر بن عبدالعزیز ‘ شعبی ‘ نخعی ‘ زہری ‘ اسود ‘ ابوبکر بن عبدالرحمن اور مکحول شامی کے اقوال بھی یہی نقل کئے ہیں ‘ اگر کسی نے کہا کہ فلاں عورت سے اگر میں نے نکاح کیا تو اس کو طلاق ہے ‘ یا یوں کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس کو طلاق ہے ‘ یا یوں کہا کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس کو طلاق ہے ‘ تینوں صورتوں میں ان علماء کے نزدیک طلاق بعد النکاح پڑجائے گی۔ ہمارے مسلک کی تائید سعید بن مسیب ‘ عطاء ‘ حماد بن ابی سلیمان اور شریح کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ جو طلاق معلق بالشرط ہو ‘ وہ طلاق ہی ہے۔ تعلیق بالشرط سبب کو سبب ہونے سے نہیں روکتی بلکہ حکم سے روکتی ہے جیسے بیع بشرط خیار (بیع ہی ہوتی ہے ‘ اختیار مشتری یا اختیار بائع بیع ہونے سے مانع نہیں ہوتا بلکہ حکم بیع اور ملکیت کا حصول مدت خیار ختم ہونے یا خیار کے فسخ کردینے سے ہوتا ہے) حضرت ابو ثعلبہ خشنی کی حدیث میں اس کی کھلی ہوئی تصریح ہے۔ ابن جوزی نے اس کا ذکر کیا ہے اور سند پر کوئی طعن نہیں کیا باوجودیکہ وہ بےباک تنقید کرتے ہیں اور اظہارحق میں تامل نہیں کرتے اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ” لا طلاق قبل النکاح “ یا اس کے ہم معنی الفاظ تو اس میں طلاق کو نکاح کے ساتھ معلق کرنے کی یا ممانعت ہے (اگر نہی کا معنی کیا جائے) یا نفی ہے۔ تنجیز طلاق قبل النکاح کا تو کوئی مفہوم ہی اس کے اندر نہیں ہے اور ایسے کلام سے تنجیز طلاق کا تصور کوئی عاقل کر ہی نہیں سکتا۔ اگر تنجیز کی طرف کلام کا رخ پھیرا جائے گا تو یہ کلام ایسا ہی ہوجائے گا جیسے کوئی کہے کہ پیدائش سے پہلے نماز فرض نہیں۔ آیت مذکورہ میں مَسْ (چھونے اور ہاتھ لگانے) سے مراد ہے جماع کرنا۔ فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا . تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت (واجب) نہیں جس کو شمار کرنے لگو۔ عدت یعنی وہ ایام جن میں عورت کیلئے نکاح کرنا ممنوع ہے ‘ اس حکم پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ لَکُمْ کا لفظ بتارہا ہے کہ عورتوں پر (بیوہ ہوں یا مطلقہ) عدت کرنے کا حق مردوں کا ہے ‘ اپنے پانی کی حفاظت اور نسب میں شک نہ ہونا عدت کا فائدہ ہے اور نسب مردوں سے ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا کہ اگر کسی ذمی مرد نے کسی ذمی عورت کو طلاق دے دی اور ان کے مذہب میں عدت کا قانون نہیں ہے تو ذمی عورت پر عدت لازم نہ ہوگی اور اگر ان کے مذہب میں وجوب عدت کا قانون ہے تو عورت پر عدت لازم ہوگی۔ حربی عورت اگر مسلمان ہو کر ہمارے ملک میں آجائے گی تو اس کیلئے کوئی عدت نہیں۔ اگر وہ فوراً نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے کیونکہ حربی کافر کا ازروئے شرع کوئی حق نہیں۔ وہ بےجان جمادات کی طرح ہے کہ مسلمان (دوسرے سامان کی طرح) اس کا مالک ہوسکتا ہے۔ ہاں ‘ اگر وہ حاملہ ہوگی تو عدت پوری کرنی ہوگی کیونکہ اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے ‘ وہ ثابت النسب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک قول اس صورت میں یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حاملہ سے نکاح تو ہوسکتا ہے لیکن قربت نہیں کی جاسکتی جیسے کسی عورت کو زنا سے حمل ہو تو حالت حمل میں اس سے نکاح تو کیا جاسکتا ہے مگر صحبت نہیں کی جاسکتی۔ امام کا اوّل قول زیادہ صحیح ہے۔ فمتعوھن . تو ان کو کچھ متاع (مال) دے دو ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ حکم اس وقت ہے جب مہر کی مقدار مقرر نہ کی ہو ‘ اگر مہر مقرر ہو تو آدھا واجب الادا ہوگا ‘ متاع لازم نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس کے اس قول پر یہ آیت مخصوص البعض ہوگی۔ قتادہ نے کہا کہ یہ آیت منسوخ ہے ‘ آیت فَنِصْفض مَا فَرَضْتُمْ اس کی ناسخ ہے۔ دونوں قولوں کا مآل ایک ہی ہے کہ اگر بغیر جماع کئے کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مہر کی مقدار مقرر تھی تو آدھا مہر ادا کیا جائے گا ‘ اس صورت میں متاع دنیا نہ واجب ہے نہ مستحب۔ بعض کے نزدیک نصف مہر کے ساتھ ساتھ متاع دنیا مستحب ہے ‘ اس قول پر مَتِّعُوْھُنَّ کا امر ستحباب کیلئے ہوگا۔ حسن اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس آیت سے متاع دنیا واجب ہو رہا ہے اور سورة بقرہ کی آیت (فَنِصْفض مَا فَرَضْتُمْ ) سے آدھا مہر ادا کرنا لازم قرار پاتا ہے۔ متاع واجب ہے یا مستحب اور متاع کی مقدار کیا ہے ‘ اس میں علماء کے اقوال میں کیا اختلاف ہے ‘ اس کی پوری تفصیل ہم سورة بقرہ میں کرچکے ہیں یہاں مکرر ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وسرحوھن سراحا جمیلا . اور خوبصورتی سے ان کو رخصت کر دو ۔ یعنی اپنے گھروں سے باہر جانے دو اور ان کی راہ نہ روکو کیونکہ ان پر عدت لازم نہیں۔ جَمِیْلاً سے مراد ہے بغیر دکھ پہنچائے۔
Top