Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت (اے محمدﷺ) خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
یایھا النبی انا احللنالک ازواجک التی اتیت اجورھن اے نبی ! ہم نے آپ کیلئے آپ کی یہ بیویاں جن کا مہر آپ دے چکے ہیں ‘ حلال کردی ہیں۔ اجور (اجر کی جمع ہے) سے مراد ہے مہر کیونکہ مہر تمتع اندوزی کا بدل ہے ‘ مہر ادا کردینے کی قید (احترازی نہیں بلکہ) ایک واقعہ کا بیان ہے۔ رسول اللہ کی عادت ہی تھی کہ ہر بیوی کا مہر آپ نے فوراً ادا کردیا تھا ‘ یا یوں کہا جائے کہ اٰتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ کی صراحت اس لئے کی کہ مہر معجل یعنی مہر کی فوراً ادائیگی افضل ہے اور رسول اللہ نے اسی کو اختیار کیا تھا۔ بہرحال باتفاق علماء (یعنی ان علماء کے نزدیک بھی جو مفہوم مخالف کے قائل ہیں) اس جگہ مفہوم مخالف نہیں ہے (یعنی یہ مطلب نہیں اخذ کیا جاسکتا کہ اگر بیوی کا مہر نقد نہ ادا کیا گیا ہو تو رسول اللہ کیلئے وہ حلال نہ تھی) ۔ وما ملکت یمینک مما افآء اللہ علیک . اور وہ عورتیں بھی آپ کیلئے حلال کردی ہیں جو آپ کی مملوکہ ہیں اور غنیمت میں اللہ نے آپ کو دلوا دی ہیں۔ مَآ اَفَآءَ اللہ عَلَیْکَکی قید بھی احترازی نہیں ہے ‘ جو علماء مفہوم (مخالف) کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس کا کوئی مفہوم (مخالف) نہیں ہے۔ صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ کسی جہاد کے موقع پر گرفتار کر کے نہیں لائی گی تھیں بلکہ مقوقس شاہ مصر نے بطور ہدیہ رسول اللہ کیلئے ان کو بھیجا تھا۔ اَفَآء یعنی جن باندیوں کو کافروں سے لوٹا کر آپ کو عطا کیا ہے ‘ مطلب یہ کہ جو گرفتار کر کے لائی تئی ہوں اور آپ ان کے مالک ہوگئے ہوں جیسے حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ تھیں۔ وبنت عمک وبنت عمتک اور (ا اللہ نے آپ کیلئے حلال کردی ہیں) آپ کے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں۔ یعنی قریش کی بیٹیاں (آپ قریش کی بیٹیوں سے نکاح کرسکتے ہیں ‘ مترجم) ۔ وبنت خالک وبنت خلتک اور آپ کے ماموں کی بٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں۔ یعنی خاندان بنی زہرہ کی بیٹیاں۔ التی ھاجرون معک . جنہوں نے آپ کی موافقت میں ہجرت کی ہو۔ معیت سے معیت زمانی نہیں ہے (یعنی یہ مطلب نہیں کہ آپ کے ساتھ آپ کے ہمراہ اور ہم رکاب ہجرت کی ہو) بلکہ معیت سے مراد ہے نفس فعل میں موافقت (یعنی فعل ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ ہوں ‘ ہجرت ترک نہ کی ہو) جیسے اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَان میں لفظ مَعَ استعمال کیا گیا ہے گویا قریش اور بنی زہرہ کی ہجرت کرنے والیاں مراد ہیں (خواہ رسول اللہ کی ہجرت سے پہلے انہوں نے ہجرت کی ہو یا بعدکو) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ہجرت کی قید سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جن عورتوں نے ہجرت نہیں کی ‘ ان سے رسول اللہ کا نکاح جائز نہ تھا۔ ترمذی اور حاکم نے بوساطت سدی ‘ ابو صالح کی روایت سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے ‘ ترمذی نے اس کو حسن اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت ام ہانی بنت ابو طالب نے فرمایا : جب مکہ فتح ہوگیا تو رسول اللہ نے مجھے نکاح کا پیام دیا۔ میں نے معذرت کی ‘ آپ نے میرا عذر قبول کرلیا۔ پھر جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں رسول اللہ کیلئے حلال ہی نہیں رہی کیونکہ میں مہاجرات میں سے نہیں تھی 1 ؂ طلقاء میں سے تھی (یعنی ان لوگوں میں داخل تھی جن کو فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے آزادی عطا کردی تھی اور گرفتار نہیں کیا تھا اور فرما دیا تھا : جاؤ ‘ تم سب آزاد ہو ‘ مترجم) ۔ ابن ابی حاتم نے بطریق اسماعیل بن ابو خالد بروایت ابو صالح حضرت ام ہانی کا بیان نقل کیا ہے کہ آیت وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ھَاجَرْنَ مَعَکَز میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ رسول اللہ نے مجھ سے نکاح کرنا چاہتا تھا ‘ پھر آپ کو میرے ساتھ نکاح کرنے کی ممانعت کردی گئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ بغوی نے لکھا ہے : پھر کچھ مدت کے بعد شرط ہجرت منسوخ کردی گئی۔ بعض کے نزدیک آیت میں ہجرت سے مراد اسلام ہے یعنی آپ کے ساتھ مسلمان ہوگئی ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا : مہاجر وہ ہے جس نے وہ تمام امور چھوڑ دئیے ہوں جن کی اللہ نے ممانعت فرما دی ہے ‘ رواہ البخاری۔ آیت کی اس طرح تشریح دلالت کر رہی ہے کہ غیرمسلمہ (خواہ یہودی ہو یا عیسائی) کا نکاح رسول اللہ سے جائز نہیں تھا۔ وامراۃ مؤمنۃ ان وھبت نفسھا للبنی ان اراد النبی ان یستنکحھا اور وہ مسلمان عورت بھی حلال کر دی ہے جو بلاعوض اپنے آپ کو پیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اگر غیر مسلمہ خود اپنے کو رسول اللہ کو ہبہ کردی تو آپ کیلئے اس کو نکاح میں لانا جائز نہ تھا (مؤمنہ کی قید اس پر دلالت کر رہی ہے) ۔ علماء کے اقوال اس مسئلہ میں مختلف ہیں کہ کسی غیر مسلمہ سے رسول اللہ کا نکاح جائز تھا یا نہیں تھا ‘ علماء کی ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے کیونکہ اللہ نے وامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً فرمایا ہے اور ھاجَرْنَ مَعَکَ کا معنی اَسْلَمْنَ مَعَکَ ہم اوپر بیان کر ہی چکے ہیں (جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلمہ عورتوں سے نکاح حضور ﷺ کیلئے حلال نہیں کیا گیا) ۔ اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا کا یہ مطلب ہے کہ اگر اتفاق سے کوئی مسلمان عورت بغیر مہر کے اپنی ذات کو رسول اللہ کو ہبہ کر دے تو ایسی عورت کو ہم نے نبی کیلئے حلال کردیا ہے ‘ اگر وہ نکاح میں لانا چاہیں تو اس کو اپنے نکاح میں لاسکتے ہیں۔ ہبۂ نفس نکاح کا رکن ہے گویا قبول سے پہلے جو ایجاب ہوتا ہے ‘ یہ ہبہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا لیکن صرف ہبہ کرنے سے وہ عورت حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ رسول اللہ کی طرف سے اس کو نکاح میں لانے کا ارادہ ضروری ہے ‘ رسول اللہ کی طرف سے نکاح کرنے کی مرضی قبول کے قائم مقام ہوجائے گی ‘ اس طرح نکاح کے دونوں رکن پورے ہوجائیں گے اور نکاح مکمل ہوجائے گا۔ خالصۃً لک من دون المؤمنین . یہ سب آپ کیلئے مخصوص کئے گئے ہیں ‘ نہ اور مؤمنوں کیلئے۔ یعنی دوسرے مسلمانوں پر مہر واجب ہے ‘ قربت کے بعد یا مرنے کے بعد خواہ نکاح کے وقت مہر کا ذکر بالکل نہ کیا گیا ہو۔ یہ اظہار ہے رسول اللہ کی عزت اور شرف نبوت کا جس کی وجہ سے نکاح بلامہر آپ کیلئے جائز کردیا گیا۔ خالصۃً بروزن عافیۃ مصدر ہے ‘ آیت کی یہ تفسیر اس وقت ہوگی جب مذکورہ شرطوں کو احترازی قرار دیا جائے۔ خالصۃً کو موصوف محذوف کی صفت بھی قرار دیا جاسکتا ہے یعنی ہبہ خالص آپ کیلئے ہو ‘ دوسرے مسلمانوں کیلئے نہ ہو۔ ابن سعد نے آیت وامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً کی بابت عکرمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول ام شریک دوسیہ کے بارے میں ہوا۔ ابن سعد نے منیر بن عبد اللہ دوسی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ام شریک عزیہ بنت جابر بن حکیم دوسی نے رسول اللہ کو اپنے نفس کی پیشکش کی تھی۔ عورت خوبصورت تھی ‘ رسول اللہ نے اس کو قبول فرما لیا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : جو عورت اپنی ذات کو کسی مرد کو ہبہ کر دے اس کے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ ام شریک نے کہا : میں ہی ہوں (کہ اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کیلئے میں نے ہبہ کیا) اللہ نے ان کو مؤمنہ فرمایا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عائشہ نے کہا : اللہ آپ کو آپ کی خواہش جلد عطا کردیتا ہے۔ ابن سعد نے بروایت ابو رزین بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی کسی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ عورتوں نے جب یہ دیکھا تو اپنے حقوق سے آپ کو آزاد کردیا کہ آپ جس بیوی کو چاہیں (اپنی قربت کیلئے) دوسری پر ترجیح دیں (یعنی ہر عورت نے اپنی باری کے استحقاق سے آپ کو سبکدوش کردیا) اس پر اللہ نے آیات اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ سے تُرْجِیْ مَنْ تَشَآء الخ تک نازل فرمائیں۔ خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ بغیر (وجوب) مہر کے نکاح کرلینے کی اجازت حضور ﷺ کیلئے مخصوص تھی۔ یہی مطلب ہے آیت اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا کا یعنی اگر کوئی عورت اپنے آپ کو بغیر مہر کے آپ کے نکاح میں دے دے (نکاح بلامہر کو ہبۂ نفس فرمایا ہے) ایک زمانہ میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح کرنا اور نکاح میں رکھنا بھی رسول اللہ کیلئے خاص تھا۔ خَالِصَۃً کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ہبہ استعمال کر کے نکاح کا انعقاد رسول اللہ کیلئے مخصوص تھا ‘ دوسروں کیلئے جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بلفظ ہبہ نکاح کا انعقاد رسول اللہ کے ہی لئے مخصوص نہ تھا بلکہ ہر شخص کا نکاح بلفظ ہبہ ہوسکتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : پہلا قول سعید ابن مسیب ‘ زہری ‘ مجاہد ‘ عطاء ‘ ربیعہ ‘ مالک اور شافعی کا ہے ‘ سب کے نزدیک رسول اللہ کے علاوہ کسی کا نکاح بھی بغیر نفط نکاح یا تزویج کے نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں : یہی قول امام احمد کا بھی ہے لیکن اختلاف ائمہ کے ذیل میں امام احمد کا قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص کا نکاح بلفظ ہبہ ہوسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جو لفظ دوامی انتقال ملکیت پر دلالت کرتا ہو (اس کو اگر عورت نے استعمال کیا) تو اس سے نکاح ہوجاتا ہے جیسے لفظ ہبہ ‘ بیع ‘ صدقہ ‘ تملیک وغیرہ۔ اگر لفظ عاریت یا اجرت استعمال کیا ہو (مثلاً یہ کہا ہو کہ میں نے اجرت پر یا بغیر اجرت کے صرف عاریۃً اپنا نفس تجھے دیا) تو اس سے نکاح نہیں ہوگا (کیونکہ ان الفاظ سے دوامی انتقال ملکیت نہیں ہوتا بلکہ عارضی تملیک منفعت ہوجاتا ہے) کرخی کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں لفظوں سے نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں لفظوں سے منفعت اندوزی کا تو اختیار حاصل ہوجاتا ہے اور نکاح میں منفعت اندوزی کی ہی ملکیت ہوتی ہے (ملکیت رقبہ حاصل نہیں ہوتی) ہم کہتے ہیں : ان لفظوں سے ملکیت تمتع بھی (دوامی) حاصل نہیں ہوتی اس لئے ان لفظوں کو بطور استعارہ نکاح کیلئے نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ وصیت سے بھی نکاح نہیں ہوتا کیونکہ وصیت سے انتقال ملکیت مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ طحطاوی نے لکھا ہے : لفظ وصیت سے کسی قدر ملکیت رقبہ کا حصول تو ہو ہی جاتا ہے اس لئے لفظ وصیت سے نکاح ہوجائے گا۔ کرخی نے کہا : اگر لفظ وصیت کو ایسے لفظ سے مشروط کردیا جو وجود حال پر دلالت کر رہا ہو تو نکاح ہوجائے گا جیسے (نکاح کے وقت) یوں کہا : اَوصْیَیْتُ لَکَ بِنْتِیْ ھٰذَہٖ الْاٰنَ میں نے تیرے لئے اپنی اس لڑکی کی اس وقت وصیت کردی یعنی اس وقت تیرے نکاح میں دے دیا ‘ اس صورت میں لفظ وصیت بمعنیء نکاح مجازاً ہوجائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ لفظ وصیت میں (موت کی طرف) اضافت داخل ہے (یعنی وصیت کے لفظ میں ہی تملیک بعد الموت کا مفہوم ماخوذ ہے) اور لفظ نکاح میں عدم اضافت ماخوذ ہے (یعنی لفظ نکاح کے اندر دوامی غیر موقت تملیک ماخوذ ہے) دونوں میں تضاد ہے (اس لئے ایک دوسرے کی جگہ نہیں استعمال کیا جاسکتا) ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کیلئے بھی دوسرے افراد امت کی طرح بغیر لفظ نکاہ یا تزویج کے کسی دوسرے لفظ سے نکاح جائز نہیں تھا اس لئے کہ اللہ نے اِنْ اَرَادَا النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنِکَھَا فرمایا ہے ‘ آیت میں لفظ ہبہ کا نکاح پر اطلاق مجازی ہے۔ بیضاوی نے اس آیت سے امام شافعی کے مسلک پر استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ لفظ معنی کے تابع ہوتے ہیں اور (نکاح بلامہر کا) رسول اللہ کے ساتھ معنوی اختصاص تو باتفاق علماء ہے (لہٰذا لفظ ہبہ سے نکاح کا انعقاد بھی رسول اللہ کیلئے ہی مخصوص تھا) ۔ بیضاوی کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔ لفظ ہبہ کا نکاح پر اطلاق تو بہرحال مجازی ہے ‘ پھر کوئی وجہ نہیں کہ الفاظ مجازی کے استعمال کی خصوصیت صرف رسول اللہ کیلئے ہو اور لفظ ہبہ سے نکاح مراد لینا فقط رسول اللہ ہی کیلئے ہو۔ لفظ ہبہ میں نکاح کا معنی مراد ہونے کی تو صلاحیت مجازاً موجود ہی ہے۔ ایک شبہ ہبہ کا حقیقی معنی تو بہرحال مراد نہیں ہے ‘ ہبہ کا حقیقی معنی تَمْلِیْکَ عَیْنَ (نفس شیء میں ہر طرح کا تصرف کرنا ‘ شیء مملوک سے کام لینا یا فروخت کردینا یا کسی کو بلامعاوضہ بخش دینا وغیرہ) اور یہاں تملیک عین (یعنی اپنی ذات کو مملوک بنا دینا) مراد نہیں ہے بلکہ بلاعوض (اور بغیر مہر کے) تمتع اندوازی کا اختیار دینا مراد ہے ‘ پس اس جگہ جب رسول اللہ کے ساتھ خاص طور پر لفظ ہبہ کا مجازی معنی کیلئے استعمال کیا گیا ہے تو دوسروں کیلئے لفظ ہبہ سے نکاح مراد نہیں ہوسکتا۔ ازالہ ہبہ کا مجازی معنی تملیک منافع (یعنی تمتع اندوزی کا اختیار دے دینا) ہے بالعوض ہو یا بلاعوض ‘ صرف بلاعوض تملیک منفعت ہی لفظ ہبہ کا مجازی معنی نہیں ہے (اس لئے رسول اللہ کیلئے ہبہ بمعنی نکاح بلامہر ہوگیا اور دوسروں کیلئے بمعنی بعوض مہر ہوگا) کوئی وجہ نہیں کہ ہبہ بمعنی نکاح مطلقاً (بالعوض اور بلاعوض) رسول اللہ کیلئے مخصوص مانا جائے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے : اصل میں کلام طریق مجاز کے تحقیق میں ہے۔ امام شافعی کے نزدیک چونکہ مجازی کی مجوز کوئی وجہ موجود نہیں ہے اس لئے انہوں نے تحقق مجاز کی نفی کی ہے اور اس پر دو دلیلیں قائم کی ہیں : ایک اجمالی ‘ دسری تفصیلی۔ مجمل دلیل یہ ہے کہ اگر مجازی معنی مراد لینا صحیح ہوگا تو دونوں طرف سے تجویز مجاز جائز قرار دینی ہوگی۔ جب ہبہ کو بمعنی نکاح لینا جائز ہوگا تو نکاح کو بمعنی ہبہ لینا بھی درست ہوگا اور بجائے وَھَبْتُکَ ھٰذَا الثَّوْبَکے نَکَحْتُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بھی صحیح ہوگا اور ایسا کہنا لغت کے خلاف ہے۔ تفصیلی دلیل یہ ہے کہ لغت میں تزویج کا لغوی معنی ہے دو چیزوں کو باہم ملا دینا ‘ جوڑ دینا اور نکاح کا معنی بھی ملا دینا ‘ جمع کردینا ہے اور مالک و مملوک میں جوڑا اور جمع ممکن نہیں ‘ اسی وجہ سے اگر زوجین میں سے ایک دوسرے کا مالک ہوجائے تو نکاح فاسد ہوجاتا ہے لہٰذ لفظ ہبہ (جو بمعنیء تملیک ہے) بول کر نکاح مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ شافعی کے خلاف ہماری مجمل دلیل یہ ہے کہ اگر ہبہ اور نکاح میں کوئی مجازی علاقہ نہیں ہے تو رسول اللہ کا نکاح بھی بلفظ ہبہ نہ ہونا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دونوں لفظوں میں مجازی علاقہ ہے ‘ پس جب نکاح بلاعوض اور لفظ ہبہ کے درمیان مجازی علاقہ ہونا ضروری ہوا تو مطلق نکاح اور ہبہ میں بھی یہی علاقہ ضرور ہوگا کیونکہ عام ‘ خاص کے اندر پایا جاتا ہے۔ ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ ہبہ کا حقیقی معنی ہے تملیک عین (نفس شیء کا مالک بنا دینا) اور ملکیت عین حاصل ہونے سے ملکیت منفعت حاصل ہوجاتی ہے۔ تملیک عین ‘ تملیک فوائد کا سبب ہے اور ملک منافع منفعت کے محل میں نکاح سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا بطری مجاز ہوتا (گویا قیاس یوں بنا ‘ ہبہ سے ملکیت نفس شیء حاصل ہوتی ہے اور ملکیت عین ‘ ملکیت منفعت فی محلہا کا سبب ہے اور نکاح سے ملک منفعت فی محلہا حاصل ہوتی ہے لہٰذا ہبہ اور نکاح میں مجاز کا علاقۂ سببت ہوا) ۔ رہی یہ بات کہ جب نکاح اور ہبہ کے درمیان مسببیت اور سببت کا علاقہ ہے تو پھر لفظ نکاح بول کر ہبہ مراد لینا بھی درست قرار پائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصول فقہ میں یہ مسئلہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسبب بول کر سبب مراد لینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ہاں ‘ اگر مشروعیت سبب مقصود ہو تو خیر۔ اور ملکیت تمتع کا حصول جو مقتضاء نکاح ہے ‘ مقصود تملیک نہیں ہے بلکہ تملیک کا مقصد ہے ملکیت عین کا حصول۔ رہا شافعی کا یہ قول کہ مالک و مملوک کے درمیان نہ جوڑ ہوتا ہے ‘ نہ ازدواج تو یہ بات ناقابل تسلیم ہے ‘ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : کیا رسول اللہ کے پاس کوئی ایسی عورت تھی جس نے اپنے آپ کو رسول اللہ کو ہبہ کردیا ہو یا نہیں تھی ؟ علماء روایت کے اس کے متعلق اقوال مختلف ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ رسول اللہ کے پاس کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس سے آپ نے عقد نکاح نہ کیا ہو یا وہ آپ کی ملک میں نہ ہو (یعنی باندی نہ ہو) رہی آیت اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا یہ کلام بطور شرط ہے۔ دوسرے علماء قائل ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس ایسی واہبات النفس عورتوں میں سے ایک (برقول شعبی) زینب بنت خزیمہ انصاریہ تھیں جن کو ام المساکین کہا جاتا تھا اور برقول قتادہ ‘ میمونہ بنت حارث بھی ایسی ہی تھیں۔ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین اور ضحاک و مقاتل نے کہا : ام شریک بنت جابر اسدیہ بھی ایسی ہی تھیں۔ ابن سعد ‘ ابن شبیہ ‘ ابن جریر ‘ ابن المنذر اور طبرانی نے حضرت علی بن حسین کی روایت سے اور ابن سعد نے عکرمہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایسی عورت ام شریک بنت جابر تھیں۔ عروہ بن زبیر نے کہا : ایسی عورت قبیلہ بنی سلیم کی خولہ بنت حکیم تھیں۔ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وما ملکت ایمانھم لکیلا یکون علیک حرج وکان اللہ غفورًا رحیمًا . ہم (وہ احکام) جانتے ہیں جو ہم نے ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے بارے میں ان پر واجب کئے اور اللہ بڑا بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ فَرَضْنَا ہم نے واجب کئے ہیں فِیْٓ اَزْوَاجِھِمْ یعنی نکاح ‘ مہر ‘ باری کی تقسیم۔ اگر مہر مقرر نہ کیا ہو تو جماع کے بعد مہر کا وجوب ‘ ایک وقت میں چار عورتیں رکھنے کی اجازت وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ اور ان کے بارے میں جو ان کی مملوکہ ہوں ‘ خواہ باندی ہوں یا کسی اور طریقہ سے مالک بنے ہوں ‘ مگر وہ ایسی ہوں کہ مالک کیلئے حلال ہوں یعنی کتابیہ (یہودی یا عیسائی) ہوں ‘ مجوسی اور بت پرست نہ ہوں اور قربت سے پہلے استبراء رحم کرلیا جائے ‘ ان کی تعداد معین نہیں کی ‘ نہ ان کی کوئی باری مقرر کی۔ لِکَیْلاَ یَکُوْنَ یعنی خاص طور پر آپ کیلئے حلال کی ہیں تاکہ آپ کیلئے تنگی نہ ہو ‘ وَکَانَ اللہ غَفُوْرًا یعنی جن باتوں سے پرہیز کرنا اور بچنا دشوار ہے ‘ ان کو بخشنے والا ہے۔ رَحِیْمًا یعنی جہاں تنگی کا خیال ہو ‘ وہاں اس نے گنجائش رکھ دی ہے۔ شیخین نے صحیحین میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی تھیں : کیا عورت کو شرم نہیں آتی کہ وہ اپنی جان کو ہبہ کرتی ہے۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top