Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی
اِنَّآ اَحْلَلْنَا
: ہم نے حلال کیں
لَكَ
: تمہارے لیے
اَزْوَاجَكَ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْٓ
: وہ جو کہ
اٰتَيْتَ
: تم نے دے دیا
اُجُوْرَهُنَّ
: ان کا مہر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ
: مالک ہوا
يَمِيْنُكَ
: تمہارا دایاں ہاتھ
مِمَّآ
: ان سے جو
اَفَآءَ اللّٰهُ
: اللہ نے ہاتھ لگا دیں
عَلَيْكَ
: تمہارے
وَبَنٰتِ عَمِّكَ
: اور تمہارے چچا کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ
: اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ خَالِكَ
: اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں
وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ
: اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں
الّٰتِيْ
: وہ جنہوں نے
هَاجَرْنَ
: انہوں نے ہجرت کی
مَعَكَ ۡ
: تمہارے ساتھ
وَامْرَاَةً
: اور مومن
مُّؤْمِنَةً
: عورت
اِنْ
: اگر
وَّهَبَتْ
: وہ بخش دے (نذر کردے
نَفْسَهَا
: اپنے آپ کو
لِلنَّبِيِّ
: نبی کے لیے
اِنْ
: اگر
اَرَادَ النَّبِيُّ
: چاہے نبی
اَنْ
: کہ
يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ
: اسے نکاح میں لے لے
خَالِصَةً
: خاص
لَّكَ
: تمہارے لیے
مِنْ دُوْنِ
: علاوہ
الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ
: مومنوں
قَدْ عَلِمْنَا
: البتہ ہمیں معلوم ہے
مَا فَرَضْنَا
: جو ہم نے فرض کیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فِيْٓ
: میں
اَزْوَاجِهِمْ
: ان کی عورتیں
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ
: مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں)
لِكَيْلَا يَكُوْنَ
: تاکہ نہ رہے
عَلَيْكَ
: تم پر
حَرَجٌ ۭ
: کوئی تنگی
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
اے پیغمبر ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اگر اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہے لیکن) یہ اجازت (اے محمدﷺ) خاص تم ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
یایھا النبی انا احللنالک ازواجک التی اتیت اجورھن اے نبی ! ہم نے آپ کیلئے آپ کی یہ بیویاں جن کا مہر آپ دے چکے ہیں ‘ حلال کردی ہیں۔ اجور (اجر کی جمع ہے) سے مراد ہے مہر کیونکہ مہر تمتع اندوزی کا بدل ہے ‘ مہر ادا کردینے کی قید (احترازی نہیں بلکہ) ایک واقعہ کا بیان ہے۔ رسول اللہ کی عادت ہی تھی کہ ہر بیوی کا مہر آپ نے فوراً ادا کردیا تھا ‘ یا یوں کہا جائے کہ اٰتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ کی صراحت اس لئے کی کہ مہر معجل یعنی مہر کی فوراً ادائیگی افضل ہے اور رسول اللہ نے اسی کو اختیار کیا تھا۔ بہرحال باتفاق علماء (یعنی ان علماء کے نزدیک بھی جو مفہوم مخالف کے قائل ہیں) اس جگہ مفہوم مخالف نہیں ہے (یعنی یہ مطلب نہیں اخذ کیا جاسکتا کہ اگر بیوی کا مہر نقد نہ ادا کیا گیا ہو تو رسول اللہ کیلئے وہ حلال نہ تھی) ۔ وما ملکت یمینک مما افآء اللہ علیک . اور وہ عورتیں بھی آپ کیلئے حلال کردی ہیں جو آپ کی مملوکہ ہیں اور غنیمت میں اللہ نے آپ کو دلوا دی ہیں۔ مَآ اَفَآءَ اللہ عَلَیْکَکی قید بھی احترازی نہیں ہے ‘ جو علماء مفہوم (مخالف) کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس کا کوئی مفہوم (مخالف) نہیں ہے۔ صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ کسی جہاد کے موقع پر گرفتار کر کے نہیں لائی گی تھیں بلکہ مقوقس شاہ مصر نے بطور ہدیہ رسول اللہ کیلئے ان کو بھیجا تھا۔ اَفَآء یعنی جن باندیوں کو کافروں سے لوٹا کر آپ کو عطا کیا ہے ‘ مطلب یہ کہ جو گرفتار کر کے لائی تئی ہوں اور آپ ان کے مالک ہوگئے ہوں جیسے حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ تھیں۔ وبنت عمک وبنت عمتک اور (ا اللہ نے آپ کیلئے حلال کردی ہیں) آپ کے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں۔ یعنی قریش کی بیٹیاں (آپ قریش کی بیٹیوں سے نکاح کرسکتے ہیں ‘ مترجم) ۔ وبنت خالک وبنت خلتک اور آپ کے ماموں کی بٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں۔ یعنی خاندان بنی زہرہ کی بیٹیاں۔ التی ھاجرون معک . جنہوں نے آپ کی موافقت میں ہجرت کی ہو۔ معیت سے معیت زمانی نہیں ہے (یعنی یہ مطلب نہیں کہ آپ کے ساتھ آپ کے ہمراہ اور ہم رکاب ہجرت کی ہو) بلکہ معیت سے مراد ہے نفس فعل میں موافقت (یعنی فعل ہجرت میں وہ آپ کے ساتھ ہوں ‘ ہجرت ترک نہ کی ہو) جیسے اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَان میں لفظ مَعَ استعمال کیا گیا ہے گویا قریش اور بنی زہرہ کی ہجرت کرنے والیاں مراد ہیں (خواہ رسول اللہ کی ہجرت سے پہلے انہوں نے ہجرت کی ہو یا بعدکو) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ہجرت کی قید سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جن عورتوں نے ہجرت نہیں کی ‘ ان سے رسول اللہ کا نکاح جائز نہ تھا۔ ترمذی اور حاکم نے بوساطت سدی ‘ ابو صالح کی روایت سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے ‘ ترمذی نے اس کو حسن اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت ام ہانی بنت ابو طالب نے فرمایا : جب مکہ فتح ہوگیا تو رسول اللہ نے مجھے نکاح کا پیام دیا۔ میں نے معذرت کی ‘ آپ نے میرا عذر قبول کرلیا۔ پھر جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں رسول اللہ کیلئے حلال ہی نہیں رہی کیونکہ میں مہاجرات میں سے نہیں تھی 1 طلقاء میں سے تھی (یعنی ان لوگوں میں داخل تھی جن کو فتح مکہ کے بعد رسول اللہ نے آزادی عطا کردی تھی اور گرفتار نہیں کیا تھا اور فرما دیا تھا : جاؤ ‘ تم سب آزاد ہو ‘ مترجم) ۔ ابن ابی حاتم نے بطریق اسماعیل بن ابو خالد بروایت ابو صالح حضرت ام ہانی کا بیان نقل کیا ہے کہ آیت وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ھَاجَرْنَ مَعَکَز میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ رسول اللہ نے مجھ سے نکاح کرنا چاہتا تھا ‘ پھر آپ کو میرے ساتھ نکاح کرنے کی ممانعت کردی گئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ بغوی نے لکھا ہے : پھر کچھ مدت کے بعد شرط ہجرت منسوخ کردی گئی۔ بعض کے نزدیک آیت میں ہجرت سے مراد اسلام ہے یعنی آپ کے ساتھ مسلمان ہوگئی ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا : مہاجر وہ ہے جس نے وہ تمام امور چھوڑ دئیے ہوں جن کی اللہ نے ممانعت فرما دی ہے ‘ رواہ البخاری۔ آیت کی اس طرح تشریح دلالت کر رہی ہے کہ غیرمسلمہ (خواہ یہودی ہو یا عیسائی) کا نکاح رسول اللہ سے جائز نہیں تھا۔ وامراۃ مؤمنۃ ان وھبت نفسھا للبنی ان اراد النبی ان یستنکحھا اور وہ مسلمان عورت بھی حلال کر دی ہے جو بلاعوض اپنے آپ کو پیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اگر غیر مسلمہ خود اپنے کو رسول اللہ کو ہبہ کردی تو آپ کیلئے اس کو نکاح میں لانا جائز نہ تھا (مؤمنہ کی قید اس پر دلالت کر رہی ہے) ۔ علماء کے اقوال اس مسئلہ میں مختلف ہیں کہ کسی غیر مسلمہ سے رسول اللہ کا نکاح جائز تھا یا نہیں تھا ‘ علماء کی ایک جماعت عدم جواز کی قائل ہے کیونکہ اللہ نے وامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً فرمایا ہے اور ھاجَرْنَ مَعَکَ کا معنی اَسْلَمْنَ مَعَکَ ہم اوپر بیان کر ہی چکے ہیں (جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلمہ عورتوں سے نکاح حضور ﷺ کیلئے حلال نہیں کیا گیا) ۔ اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا کا یہ مطلب ہے کہ اگر اتفاق سے کوئی مسلمان عورت بغیر مہر کے اپنی ذات کو رسول اللہ کو ہبہ کر دے تو ایسی عورت کو ہم نے نبی کیلئے حلال کردیا ہے ‘ اگر وہ نکاح میں لانا چاہیں تو اس کو اپنے نکاح میں لاسکتے ہیں۔ ہبۂ نفس نکاح کا رکن ہے گویا قبول سے پہلے جو ایجاب ہوتا ہے ‘ یہ ہبہ اس کے قائم مقام ہوجائے گا لیکن صرف ہبہ کرنے سے وہ عورت حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ رسول اللہ کی طرف سے اس کو نکاح میں لانے کا ارادہ ضروری ہے ‘ رسول اللہ کی طرف سے نکاح کرنے کی مرضی قبول کے قائم مقام ہوجائے گی ‘ اس طرح نکاح کے دونوں رکن پورے ہوجائیں گے اور نکاح مکمل ہوجائے گا۔ خالصۃً لک من دون المؤمنین . یہ سب آپ کیلئے مخصوص کئے گئے ہیں ‘ نہ اور مؤمنوں کیلئے۔ یعنی دوسرے مسلمانوں پر مہر واجب ہے ‘ قربت کے بعد یا مرنے کے بعد خواہ نکاح کے وقت مہر کا ذکر بالکل نہ کیا گیا ہو۔ یہ اظہار ہے رسول اللہ کی عزت اور شرف نبوت کا جس کی وجہ سے نکاح بلامہر آپ کیلئے جائز کردیا گیا۔ خالصۃً بروزن عافیۃ مصدر ہے ‘ آیت کی یہ تفسیر اس وقت ہوگی جب مذکورہ شرطوں کو احترازی قرار دیا جائے۔ خالصۃً کو موصوف محذوف کی صفت بھی قرار دیا جاسکتا ہے یعنی ہبہ خالص آپ کیلئے ہو ‘ دوسرے مسلمانوں کیلئے نہ ہو۔ ابن سعد نے آیت وامْرَأَۃً مُّؤْمِنَۃً کی بابت عکرمہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کا نزول ام شریک دوسیہ کے بارے میں ہوا۔ ابن سعد نے منیر بن عبد اللہ دوسی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ام شریک عزیہ بنت جابر بن حکیم دوسی نے رسول اللہ کو اپنے نفس کی پیشکش کی تھی۔ عورت خوبصورت تھی ‘ رسول اللہ نے اس کو قبول فرما لیا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : جو عورت اپنی ذات کو کسی مرد کو ہبہ کر دے اس کے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ ام شریک نے کہا : میں ہی ہوں (کہ اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کیلئے میں نے ہبہ کیا) اللہ نے ان کو مؤمنہ فرمایا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عائشہ نے کہا : اللہ آپ کو آپ کی خواہش جلد عطا کردیتا ہے۔ ابن سعد نے بروایت ابو رزین بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی کسی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا۔ عورتوں نے جب یہ دیکھا تو اپنے حقوق سے آپ کو آزاد کردیا کہ آپ جس بیوی کو چاہیں (اپنی قربت کیلئے) دوسری پر ترجیح دیں (یعنی ہر عورت نے اپنی باری کے استحقاق سے آپ کو سبکدوش کردیا) اس پر اللہ نے آیات اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ سے تُرْجِیْ مَنْ تَشَآء الخ تک نازل فرمائیں۔ خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ بغیر (وجوب) مہر کے نکاح کرلینے کی اجازت حضور ﷺ کیلئے مخصوص تھی۔ یہی مطلب ہے آیت اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا کا یعنی اگر کوئی عورت اپنے آپ کو بغیر مہر کے آپ کے نکاح میں دے دے (نکاح بلامہر کو ہبۂ نفس فرمایا ہے) ایک زمانہ میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح کرنا اور نکاح میں رکھنا بھی رسول اللہ کیلئے خاص تھا۔ خَالِصَۃً کا یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ لفظ ہبہ استعمال کر کے نکاح کا انعقاد رسول اللہ کیلئے مخصوص تھا ‘ دوسروں کیلئے جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بلفظ ہبہ نکاح کا انعقاد رسول اللہ کے ہی لئے مخصوص نہ تھا بلکہ ہر شخص کا نکاح بلفظ ہبہ ہوسکتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : پہلا قول سعید ابن مسیب ‘ زہری ‘ مجاہد ‘ عطاء ‘ ربیعہ ‘ مالک اور شافعی کا ہے ‘ سب کے نزدیک رسول اللہ کے علاوہ کسی کا نکاح بھی بغیر نفط نکاح یا تزویج کے نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں : یہی قول امام احمد کا بھی ہے لیکن اختلاف ائمہ کے ذیل میں امام احمد کا قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص کا نکاح بلفظ ہبہ ہوسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جو لفظ دوامی انتقال ملکیت پر دلالت کرتا ہو (اس کو اگر عورت نے استعمال کیا) تو اس سے نکاح ہوجاتا ہے جیسے لفظ ہبہ ‘ بیع ‘ صدقہ ‘ تملیک وغیرہ۔ اگر لفظ عاریت یا اجرت استعمال کیا ہو (مثلاً یہ کہا ہو کہ میں نے اجرت پر یا بغیر اجرت کے صرف عاریۃً اپنا نفس تجھے دیا) تو اس سے نکاح نہیں ہوگا (کیونکہ ان الفاظ سے دوامی انتقال ملکیت نہیں ہوتا بلکہ عارضی تملیک منفعت ہوجاتا ہے) کرخی کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں لفظوں سے نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں لفظوں سے منفعت اندوزی کا تو اختیار حاصل ہوجاتا ہے اور نکاح میں منفعت اندوزی کی ہی ملکیت ہوتی ہے (ملکیت رقبہ حاصل نہیں ہوتی) ہم کہتے ہیں : ان لفظوں سے ملکیت تمتع بھی (دوامی) حاصل نہیں ہوتی اس لئے ان لفظوں کو بطور استعارہ نکاح کیلئے نہیں استعمال کیا جاسکتا۔ اسی طرح لفظ وصیت سے بھی نکاح نہیں ہوتا کیونکہ وصیت سے انتقال ملکیت مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ طحطاوی نے لکھا ہے : لفظ وصیت سے کسی قدر ملکیت رقبہ کا حصول تو ہو ہی جاتا ہے اس لئے لفظ وصیت سے نکاح ہوجائے گا۔ کرخی نے کہا : اگر لفظ وصیت کو ایسے لفظ سے مشروط کردیا جو وجود حال پر دلالت کر رہا ہو تو نکاح ہوجائے گا جیسے (نکاح کے وقت) یوں کہا : اَوصْیَیْتُ لَکَ بِنْتِیْ ھٰذَہٖ الْاٰنَ میں نے تیرے لئے اپنی اس لڑکی کی اس وقت وصیت کردی یعنی اس وقت تیرے نکاح میں دے دیا ‘ اس صورت میں لفظ وصیت بمعنیء نکاح مجازاً ہوجائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ لفظ وصیت میں (موت کی طرف) اضافت داخل ہے (یعنی وصیت کے لفظ میں ہی تملیک بعد الموت کا مفہوم ماخوذ ہے) اور لفظ نکاح میں عدم اضافت ماخوذ ہے (یعنی لفظ نکاح کے اندر دوامی غیر موقت تملیک ماخوذ ہے) دونوں میں تضاد ہے (اس لئے ایک دوسرے کی جگہ نہیں استعمال کیا جاسکتا) ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کیلئے بھی دوسرے افراد امت کی طرح بغیر لفظ نکاہ یا تزویج کے کسی دوسرے لفظ سے نکاح جائز نہیں تھا اس لئے کہ اللہ نے اِنْ اَرَادَا النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنِکَھَا فرمایا ہے ‘ آیت میں لفظ ہبہ کا نکاح پر اطلاق مجازی ہے۔ بیضاوی نے اس آیت سے امام شافعی کے مسلک پر استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ لفظ معنی کے تابع ہوتے ہیں اور (نکاح بلامہر کا) رسول اللہ کے ساتھ معنوی اختصاص تو باتفاق علماء ہے (لہٰذا لفظ ہبہ سے نکاح کا انعقاد بھی رسول اللہ کیلئے ہی مخصوص تھا) ۔ بیضاوی کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔ لفظ ہبہ کا نکاح پر اطلاق تو بہرحال مجازی ہے ‘ پھر کوئی وجہ نہیں کہ الفاظ مجازی کے استعمال کی خصوصیت صرف رسول اللہ کیلئے ہو اور لفظ ہبہ سے نکاح مراد لینا فقط رسول اللہ ہی کیلئے ہو۔ لفظ ہبہ میں نکاح کا معنی مراد ہونے کی تو صلاحیت مجازاً موجود ہی ہے۔ ایک شبہ ہبہ کا حقیقی معنی تو بہرحال مراد نہیں ہے ‘ ہبہ کا حقیقی معنی تَمْلِیْکَ عَیْنَ (نفس شیء میں ہر طرح کا تصرف کرنا ‘ شیء مملوک سے کام لینا یا فروخت کردینا یا کسی کو بلامعاوضہ بخش دینا وغیرہ) اور یہاں تملیک عین (یعنی اپنی ذات کو مملوک بنا دینا) مراد نہیں ہے بلکہ بلاعوض (اور بغیر مہر کے) تمتع اندوازی کا اختیار دینا مراد ہے ‘ پس اس جگہ جب رسول اللہ کے ساتھ خاص طور پر لفظ ہبہ کا مجازی معنی کیلئے استعمال کیا گیا ہے تو دوسروں کیلئے لفظ ہبہ سے نکاح مراد نہیں ہوسکتا۔ ازالہ ہبہ کا مجازی معنی تملیک منافع (یعنی تمتع اندوزی کا اختیار دے دینا) ہے بالعوض ہو یا بلاعوض ‘ صرف بلاعوض تملیک منفعت ہی لفظ ہبہ کا مجازی معنی نہیں ہے (اس لئے رسول اللہ کیلئے ہبہ بمعنی نکاح بلامہر ہوگیا اور دوسروں کیلئے بمعنی بعوض مہر ہوگا) کوئی وجہ نہیں کہ ہبہ بمعنی نکاح مطلقاً (بالعوض اور بلاعوض) رسول اللہ کیلئے مخصوص مانا جائے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے : اصل میں کلام طریق مجاز کے تحقیق میں ہے۔ امام شافعی کے نزدیک چونکہ مجازی کی مجوز کوئی وجہ موجود نہیں ہے اس لئے انہوں نے تحقق مجاز کی نفی کی ہے اور اس پر دو دلیلیں قائم کی ہیں : ایک اجمالی ‘ دسری تفصیلی۔ مجمل دلیل یہ ہے کہ اگر مجازی معنی مراد لینا صحیح ہوگا تو دونوں طرف سے تجویز مجاز جائز قرار دینی ہوگی۔ جب ہبہ کو بمعنی نکاح لینا جائز ہوگا تو نکاح کو بمعنی ہبہ لینا بھی درست ہوگا اور بجائے وَھَبْتُکَ ھٰذَا الثَّوْبَکے نَکَحْتُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بھی صحیح ہوگا اور ایسا کہنا لغت کے خلاف ہے۔ تفصیلی دلیل یہ ہے کہ لغت میں تزویج کا لغوی معنی ہے دو چیزوں کو باہم ملا دینا ‘ جوڑ دینا اور نکاح کا معنی بھی ملا دینا ‘ جمع کردینا ہے اور مالک و مملوک میں جوڑا اور جمع ممکن نہیں ‘ اسی وجہ سے اگر زوجین میں سے ایک دوسرے کا مالک ہوجائے تو نکاح فاسد ہوجاتا ہے لہٰذ لفظ ہبہ (جو بمعنیء تملیک ہے) بول کر نکاح مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ شافعی کے خلاف ہماری مجمل دلیل یہ ہے کہ اگر ہبہ اور نکاح میں کوئی مجازی علاقہ نہیں ہے تو رسول اللہ کا نکاح بھی بلفظ ہبہ نہ ہونا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دونوں لفظوں میں مجازی علاقہ ہے ‘ پس جب نکاح بلاعوض اور لفظ ہبہ کے درمیان مجازی علاقہ ہونا ضروری ہوا تو مطلق نکاح اور ہبہ میں بھی یہی علاقہ ضرور ہوگا کیونکہ عام ‘ خاص کے اندر پایا جاتا ہے۔ ہماری دوسری دلیل یہ ہے کہ ہبہ کا حقیقی معنی ہے تملیک عین (نفس شیء کا مالک بنا دینا) اور ملکیت عین حاصل ہونے سے ملکیت منفعت حاصل ہوجاتی ہے۔ تملیک عین ‘ تملیک فوائد کا سبب ہے اور ملک منافع منفعت کے محل میں نکاح سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا بطری مجاز ہوتا (گویا قیاس یوں بنا ‘ ہبہ سے ملکیت نفس شیء حاصل ہوتی ہے اور ملکیت عین ‘ ملکیت منفعت فی محلہا کا سبب ہے اور نکاح سے ملک منفعت فی محلہا حاصل ہوتی ہے لہٰذا ہبہ اور نکاح میں مجاز کا علاقۂ سببت ہوا) ۔ رہی یہ بات کہ جب نکاح اور ہبہ کے درمیان مسببیت اور سببت کا علاقہ ہے تو پھر لفظ نکاح بول کر ہبہ مراد لینا بھی درست قرار پائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصول فقہ میں یہ مسئلہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسبب بول کر سبب مراد لینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ہاں ‘ اگر مشروعیت سبب مقصود ہو تو خیر۔ اور ملکیت تمتع کا حصول جو مقتضاء نکاح ہے ‘ مقصود تملیک نہیں ہے بلکہ تملیک کا مقصد ہے ملکیت عین کا حصول۔ رہا شافعی کا یہ قول کہ مالک و مملوک کے درمیان نہ جوڑ ہوتا ہے ‘ نہ ازدواج تو یہ بات ناقابل تسلیم ہے ‘ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : کیا رسول اللہ کے پاس کوئی ایسی عورت تھی جس نے اپنے آپ کو رسول اللہ کو ہبہ کردیا ہو یا نہیں تھی ؟ علماء روایت کے اس کے متعلق اقوال مختلف ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ رسول اللہ کے پاس کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس سے آپ نے عقد نکاح نہ کیا ہو یا وہ آپ کی ملک میں نہ ہو (یعنی باندی نہ ہو) رہی آیت اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا یہ کلام بطور شرط ہے۔ دوسرے علماء قائل ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس ایسی واہبات النفس عورتوں میں سے ایک (برقول شعبی) زینب بنت خزیمہ انصاریہ تھیں جن کو ام المساکین کہا جاتا تھا اور برقول قتادہ ‘ میمونہ بنت حارث بھی ایسی ہی تھیں۔ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین اور ضحاک و مقاتل نے کہا : ام شریک بنت جابر اسدیہ بھی ایسی ہی تھیں۔ ابن سعد ‘ ابن شبیہ ‘ ابن جریر ‘ ابن المنذر اور طبرانی نے حضرت علی بن حسین کی روایت سے اور ابن سعد نے عکرمہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایسی عورت ام شریک بنت جابر تھیں۔ عروہ بن زبیر نے کہا : ایسی عورت قبیلہ بنی سلیم کی خولہ بنت حکیم تھیں۔ قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وما ملکت ایمانھم لکیلا یکون علیک حرج وکان اللہ غفورًا رحیمًا . ہم (وہ احکام) جانتے ہیں جو ہم نے ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے بارے میں ان پر واجب کئے اور اللہ بڑا بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ فَرَضْنَا ہم نے واجب کئے ہیں فِیْٓ اَزْوَاجِھِمْ یعنی نکاح ‘ مہر ‘ باری کی تقسیم۔ اگر مہر مقرر نہ کیا ہو تو جماع کے بعد مہر کا وجوب ‘ ایک وقت میں چار عورتیں رکھنے کی اجازت وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ اور ان کے بارے میں جو ان کی مملوکہ ہوں ‘ خواہ باندی ہوں یا کسی اور طریقہ سے مالک بنے ہوں ‘ مگر وہ ایسی ہوں کہ مالک کیلئے حلال ہوں یعنی کتابیہ (یہودی یا عیسائی) ہوں ‘ مجوسی اور بت پرست نہ ہوں اور قربت سے پہلے استبراء رحم کرلیا جائے ‘ ان کی تعداد معین نہیں کی ‘ نہ ان کی کوئی باری مقرر کی۔ لِکَیْلاَ یَکُوْنَ یعنی خاص طور پر آپ کیلئے حلال کی ہیں تاکہ آپ کیلئے تنگی نہ ہو ‘ وَکَانَ اللہ غَفُوْرًا یعنی جن باتوں سے پرہیز کرنا اور بچنا دشوار ہے ‘ ان کو بخشنے والا ہے۔ رَحِیْمًا یعنی جہاں تنگی کا خیال ہو ‘ وہاں اس نے گنجائش رکھ دی ہے۔ شیخین نے صحیحین میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی تھیں : کیا عورت کو شرم نہیں آتی کہ وہ اپنی جان کو ہبہ کرتی ہے۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top