Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر دُرود اور سلام بھیجا کرو
اِنَّ اللہ وَمَلٰٓءِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلی النَّبِیِّ . اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے آپ کیلئے دعاءِ (رحمت) کرتے ہیں۔ دوسری روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے : یصلون یعنی برکت دیتے ہیں۔ بعض نے کہا : اللہ کی طرف سے صلوٰۃ کا معنی ہے رحمت اور صلوٰۃ ملائکہ سے مراد ہے استغفار۔ لفظ صلوٰۃ کی مکمل تنقیح آیت ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓءِکَتُہٗ کی تفسیر کے ذیل میں کردی گئی ہے۔ یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما . اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود پڑھو اور خوب سلام بھیجو۔ یعنی تم بھی رسول اللہ کیلئے دعا کرو اور آپ کیلئے اللہ سے رحمت نازل کرنے کی درخواست کرو اور ان کو سلام کا تحفہ دو اور کہو السَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ ۔ آیت دلالت کر رہی ہے کہ صلوٰۃ وسلام بھیجنا مسلمانوں پر واجب ہے ‘ خواہ عمر میں ایک ہی بار ہو۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا یہی قول ہے ‘ طحاوی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ابن ہمام نے کہا : امر کا مقتضٰی ‘ قطعی عمر بھر میں ایک بار (تعمیل) ہے کیونکہ امر تکرار کو نہیں چاہتا اور ہم اسی کے قائل ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ ہر نماز کے آخر قعدہ میں تشہد کے بعد درود پڑھنا واجب ہے۔ امام شافعی اور امام احمد کا یہی قول ہے۔ رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمۃ میں ہے کہ آخری تشہد میں درود پڑھنا ‘ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک سنت ہے اور امام شافعی کے نزدیک فرض ہے اور مشہور ترین روایت میں امام احمد کا قول آیا ہے کہ درود کو ترک کرنے سے نماز نہیں ہوتی۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ تشہد کے بعد قعدۂ اخیرہ میں درود پڑھنا امام احمد کے نزدیک فرض ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ امام احمد کے نزدیک سنت ہے۔ بعض علماء کا یہ بھی خیال ہے کہ جب بھی رسول اللہ کا ذکر آئے ‘ درود پڑھنا واجب ہے۔ کرخی نے لکھا ہے جو علمائ نماز میں درود پڑھنے کو واجب کہتے ہیں ‘ وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو حضرت سہل بن سعد کی روایت سے بطریق دارقطنی ‘ ابن جوزی نے نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے نبی پر درود نہیں پڑھا ‘ اس کی نماز نہیں۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی عبدالمہیمن ہے اور دارقطنی نے کہا کہ عبدالمہیمن بن عباس بن سہل بن سعد قوی نہیں ہے۔ ابن حبان نے کہا : اس کی حدیث سے استدلال نہ کیا جائے۔ ابن جوزی کی روایت مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ہے : جس کا وضوء نہیں اس کی نماز نہیں ‘ جس نے اللہ کا نام (وضوء شروع کرنے کے وقت) نہیں لیا اس کا وضوء نہیں ‘ جس نے رسول اللہ پر درود نہیں پڑھا اس کی نماز نہیں ‘ جو انصار سے محبت نہیں رکھتا اس کی نماز نہیں۔ اس حدیث کی روایت میں عبدالمہیمن راوی کمزور ‘ ناقابل حجیت ہے۔ طبرانی نے بروایت ابی بن عباس بن سہل بن سعد عن ابیہ (عباس) عن جدہ (سہل بن سعد) اسی کی طرح حدیث کو مرفوعاً روایت کیا ہے۔ علماء نے کہا کہ عبدالمہیمن کی حدیث صحت کے زیادہ قریب ہے ‘ اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے ابی بن عباس کے بارے میں کلام کیا ہے۔ ایک حدیث حضرت ابو مسعود انصاری کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی لیکن نہ مجھ پر درود پڑھا ‘ نہ میرے اہل بیت پر تو اس کی نماز مقبول نہیں ‘ راہ ابن الجوزی من طریق الدارقطنی۔ ابن جوزی نے کہا : اس حدیث کی سند میں جابر جعفی کمزور راوی ہے ‘ پھر جابر نے اس حدیث (کی روایت) میں خود اختلاف کیا ہے کہ کبھی حضرت ابن مسعود پر پہنچ کر حدیث کی روایت کو ٹھہرا دیا یعنی موقوفاً بیان کیا ہے ‘ کبھی رسول اللہ کا قول بتایا ہے یعنی مرفوعاً بیان کیا ہے۔ ابن ہمام نے اس کو حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ابن جوزی نے کہا : اس کی روایت میں جابر ضعیف ہے اور روایت میں اختلاف ہے کہ کبھی موقوفاً بیان کیا ‘ کبھی مرفوعاً ۔ حاکم اور بیہقی نے بروایت یحییٰ بن سباق قبیلۂ بنی حارث کی وساطت سے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے تو کہے اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّارْحَمْ مُحَمَّدًا وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ کِمَا صَلَّیْتَ وَبَارَکْتَ وَتَرَّحَمْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ حافظ ابن حجر نے کہا : اس حدیث کے راوی سوائے حارثی شخص کے ثقہ ہیں ‘ حارثی قابل نظر ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے : حدیث لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یُصَلِّ عَلَیَّ کو تمام اہل حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے اور اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مرد کامل نماز کی نفی ہے (یعنی جس نے مجھ پر نماز کے اندر درود نہیں پڑھا اس کی نماز کامل نہیں ہوئی) یا یہ مطلب ہے کہ جس نے عمر میں ایک بار بھی درود نہیں پڑھا اس کی نماز نہیں۔ حافظ ابن حجر نے کہا : اس حدیث سے زیادہ قوی حضرت فضالہ بن عبید کی حدیث ہے ‘ فضالہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا مگر اس نے رسول اللہ پر درود نہیں پڑھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس نے (دعا مانگنے میں) عجلت کی۔ پھر اس کو بلایا اور اس کو نیز دوسرے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا : تم میں سے جو شخص نماز پڑھے تو پہلے اللہ کی حمد و ثنا کرے ‘ پھر مجھ پر درود بھیجے ‘ پھر جو کچھ چاہے دعا کرے ‘ روای ابو داؤد والنسائی والترمذی وابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم۔ ترمذی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ فضالہ نے کہا : رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی ‘ پھر کہا : اے اللہ ! تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے ! تو نے عجلت کی ‘ جب تو نما زپڑھے اور بیٹھ جائے تو (اول) ان صفات کے ساتھ اللہ کی حمد کر جن کا وہ مستحق ہے ‘ پھر مجھ پر درود پڑھ ‘ پھر اللہ سے دعا کر۔ راوی کا بیان ہے : پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی اور اللہ کی حمد کی اور رسول اللہ پر درود بھیجا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے نماز پڑھنے والے ! اب تو دعا کر ‘ تیری دعا قبول ہوگی۔ رواہ الترمذی ‘ ابو داؤد اور نسائی نے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے۔ میں کہتا ہوں : نماز میں تشہد کے بعد رسول اللہ پر درود پڑھنے کے وجوب پر اس طرح بھی دلیل قائم کی جاسکتی ہے کہ آیت مذکورہ میں جس درود کا حکم دیا گیا ہے ‘ اس سے مراد نماز کے اندر درود پڑھنا ہے۔ جیسے آیت وَرَبَّکَ فَکَبِّرُمیں تکیبر سے مراد تکبیر تحریمہ اور آیت قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ میں قیام سے مراد نماز میں کھڑا ہونا اور آیت واسْجُدُوْا وَارْکَعُوْا میں سجدہ اور رکوع سے مراد نماز میں سجود و رکوع اور آیت فاقْرَءُ وَامَا تَیَّسَرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ میں قرأت قرآن سے مراد نماز کے اندر قرآن پڑھنا ہے۔ کعب بن عجرۃ کی حدیث جس کو بخاری نے نقل کیا ہے ‘ اسی پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور : سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہم معلوم ہے ‘ مگر درود بھیجنے کا کیا طریقہ ہے ؟ فرمایا : کہو اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ یعنی تشہد میں سلام کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہوچکا ہے ‘ تشہد میں السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پڑھا ہی جاتا ہے مگر درود اس وقت کس طرح پڑھیں ؟ اس سوال کے جواب میں (نماز کے اندر) درود پڑھنے کا طریقہ حضور ﷺ نے بتادیا کہ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ پڑھا کرو۔ امت اسلامیہ نے بالاتفاق اس حدیث کو تسلیم کیا ہے اور بلا اختلاف تشہد کے بعد درود پڑھنے کی صراحت کی ہے ‘ البتہ واجب اور سنت ہونے میں اختلاف ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس درود کا حکم آیت مذکورہ میں دیا گیا ہے ‘ اس سے مراد تشہد کے بعد نماز کے اندر درود پڑھنا ہے (اور امر کا تقاضا وجوب ہے ‘ اس لئے نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنا واجب قرار پایا ‘ مترجم) ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ کا نام آئے درود پڑھنا واجب ہے ‘ انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی رویت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے سامنے میرا تذکرہ آیا ہو اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس پر رمضان آکر گذر بھی جائے اور اس کی مغفرت نہ ہو اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو کہ اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک اس کی زندگی میں بوڑھے ہوجائیں اور اس شخص کی جنت میں داخلہ کا ذریعہ نہیں بنیں (یعنی بیٹا بوڑھے ماں باپ کی خدمت نہ کرے اس لئے وہ ناراض رہیں اور یہ شخص جنت سے محروم ہوجائے) رواہ الترمذی وابن حبان فی صحیحہ۔ حضرت جابر بن سمرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے اور دوزخ میں چلا جائے ‘ اللہ اس کو دور رکھے۔ حضرت ابن عباس کی مرفوع حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل آئے (اور انہوں نے کہا) جس شخص کے سامنے آپ کا تذکرہ ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے اور (اس وجہ سے) دوزخ میں داخل ہوجائے ‘ پس اللہ اس کو دور رکھے۔ یہ دونوں حدیثیں طبرانی نے نقل کی ہیں۔ ابن سنی نے حضرت جابر کی مرفوع حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا ‘ وہ بدنصیب ہوگیا۔ حضرت علی راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ‘ وہ بخیل ہے ‘ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہا ہے۔ امام احمد نے یہ حدیث حضرت امام حسین کی روایت سے بیان کی ہے۔ طبرانی نے اچھی سند کے ساتھ حضرت امام حسین کی مرفوع روایت اس طرح بیان کی ہے : جس کے سامنے میرا تذکرہ آیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا چھوٹ گیا اس سے ‘ جنت کا راستہ چھوٹ گیا۔ نسائی نے صحیح سند سے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے : جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اس کو چاہئے کہ مجھ پر درود پڑھے کیونکہ جو شخص مجھ پر (ایک بار) درود پڑھے گا ‘ اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا (یا دس بار رحمت نازل فرمائے گا) ۔ فصل : رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ وسلام کی فضیلت و کیفیت عبدالرحمن بی ابی لیلیٰ کا بیان ہے : میری ملاقات حضرت کعب بن عجرۃ سے ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا : کیا (حدیث کا) ایک تحفہ میں تم کو پیش کروں جو رسول اللہ ن سے میں نے خود سنی ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ‘ ضرور وہ تحفہ مجھے عنایت فرمائیے۔ کعب نے کہا : ہم نے رسول اللہ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو سلام کرنا تو اللہ نے ہمیں بتادیا لیکن آپ (اور آپ کے اہل بیت) پر ہم درود کس طرح پڑھیں ؟ فرمایا : کہو : اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰل اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللَّھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلآی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰل اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (متفق علیہ) مسلم کی روایت میں دونوں جگہ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ کا لفظ نہیں ہے (صرف عَلٰٓی اٰل اِبْرَاھِیْمَ ہے) حضرت ابوحمید ساعدی راوی ہیں کہ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں تو فرمایا : کہو اللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ کَمَا بَارَکْتَ عَلآی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰل اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ متفق علیہ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو ایک بار مجھ پر درود پڑھے گا ‘ اللہ دس بار رحمت اس پر نازل فرمائے گا۔ رواہ مسلم۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا ‘ اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اور دس خطائیں ساقط کرے گا اور دس درجے بلند کرے گا۔ رواہ البخاری واحمد فی الادب والنسائی والحاکم۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حضرت ابن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھتا ہوگا۔ رواہ الترمذی۔ حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے کچھ فرشتے زمین پر گھومتے پھرتے ہیں ‘ وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔ رواہ النسائی وا لدارمی۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں : جو کوئی (جب بھی) مجھ پر سلام پڑھے گا ‘ اللہ میری روح مجھے لوٹا دے گا کہ میں سلام کا جواب دوں گا۔ رواہ ابوداؤد والبیہقی فی الدعوات الکبیر۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ فرما رہے تھے : اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ (کہ وہاں نماز نہ پڑھو ‘ مترجم) اور نہ میری قبر کو میلہ بنانا ‘ اور مجھ پر درود پڑھنا ‘ تمہارا درود مجھے پہنچے گا ‘ تم جہاں بھی ہو۔ حضرت ابو طلحہ راوی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ تشریف لائے ‘ اس وقت حضور ﷺ کے چہرہ پر شگفتگی تھی۔ فرمایا : مجھ سے جبرئیل نے آکر کہا کہ آپ کا رب فرماتا ہے : محمد ! کیا تم اس بات پر خوش نہ ہو گے کہ تمہاری امت میں سے جو کوئی تم پر درود پڑھے گا ‘ میں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اور تمہاری امت میں سے جو کوئی آپ پر سلام پڑھے گا ‘ میں دس بار اس پر سلامتی نازل کروں گا۔ رواہ النسائی والدارمی۔ حضرت ابی بن کعب کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میں آپ پر درود بہت پڑھتا ہوں ‘ کتنی بار پڑھا کروں ؟ فرمایا : جتنا (بھی) چاہو ‘ اگر زیادہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا : (کل ذکر کا) آدھا حصہ (درود کو بنا لوں) فرمایا : تم جتنا چاہو (کر لو لیکن) اگر زیادہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا : کیا دو تہائی ؟ فرمایا : جتنا چاہو مگر زیادہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا : کیا میں اپنی ساری دعا آپ کیلئے کر دوں ؟ فرمایا : تو ایسی حالت میں تمہارے سارے فکر دور ہوجائیں گے ‘ کام پورے کر دئیے جائیں گے اور تمہارے گناہ ساقط کر دئیے جائیں گے۔ رواہ الترمذی۔ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : اگر کسی کو یہ بات (پسند اور) مسرور کرنے والی ہو کہ جب وہ ہم گھر والوں کیلئے دعا کرے تو اس کو بھرپور پیمانہ سے (بدلہ) دیا جائے تو اس کو اس طرح کہنا چاہئے : اللّٰھم صلی علی محمد انلنّبی الامی وازواجہ امھات المؤمنین وزریتہٖ واھل بییۃٖ کما صلّیت علٰی ابراھیم انک حمید مّجید (رواہ ابو داؤد) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو کا قول ہے کہ جو شخص نبی ﷺ پر ایک بار درود پڑھے گا ‘ اللہ اور اس کے فرشتے ستر رحمتیں اس پر نازل کریں گے۔ رواہ احمد۔ حضرت رویفع کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے مجھ پر درود پڑھا اور کہا : اللھم انزلہ المقعد عندک یوم القیٰمۃ وجبت لہ شفاعتی اے اللہ ! قیامت کے دن محمد ﷺ کو اپنا مقام قرب عنایت کر ‘ اس کیلئے میری شفاعت لازم ہوگئی۔ رواہ احمد۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کا بیان ہے کہ ایک روز رسول اللہ (گھر سے) برآمد ہوئے اور ایک نخلستان کے اندر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہوگیا کہ کہیں حضور ﷺ کی وفات نہ ہوگئی ہو۔ میں دیکھنے کیلئے (قریب) گیا ‘ آپ نے سر اٹھا کر فرمایا : کیا بات ہے ؟ میں نے اپنا اندیشہ بیان کردیا۔ فرمایا : جبرئیل نے (آ کر) مجھ سے کہا تھا : کیا میں آپ کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ اللہ نے آپ کے (اعزاز اور آپ کو خوش کرنے کے) لئے فرمایا ہے کہ جو شخص آپ پر درود پڑھے گا ‘ میں اس پر رحمت نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام پڑھے گا ‘ میں اس کو سلامتی عطا کروں گا۔ رواہ احمد۔ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : دعا آسمان و زمین کے درمیان روک لی جاتی ہے۔ جب تک تم اپنے نبی ﷺ پر درود نہ پڑھو ‘ دعا کا کوئی حصہ اوپر نہیں چڑھنے پاتا۔ رواہ الترمذی۔ عبدا اللہ بن عامر بن ربیعہ نے اپنے باپ کا بیان نقل کیا کہ انہوں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا : جو شخص مجھ پر جتنا درود پڑھتا ہے فرشتے اتنی ہی اس پر رحمتیں نازل کرتے ہیں۔ اب بندہ کو اختیار ہے کہ درود پڑھے کم یا زیادہ۔ رواہ البغوی۔ حضرت علی راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اس کیلئے ایک قیراط (ثواب) لکھ دیا جاتا ہے اور ایک قیراط کوہ احد کے برابر ہوتا ہے۔ رواہ عبدالرزاق فی الجامع بسند حسن۔ حضرت ابو درداء کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح اور شام دس دس مرتبہ درود پڑھے گا ‘ اس کو میری شفاعت مل جائے گی۔ روای الطبرانی فی الکبیر بسند حسن۔ 1 ؂ مسئلہ : کیا انبیاء کے علاوہ دوسروں کیلئے بھی صلوٰۃ وسلام کا استعمال درست ہے ؟ صحیح یہ ہے کہ تنہا غیر انبیاء کیلئے صحیح نہیں ہے اور تبعاً یعنی انبیاء کے ساتھ ملا کر صحیح ہے جس طرح کہ محمد عز و جل کہنا مکروہ ہے باوجوی کہ آپ معزز و جلیل القدر تھے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرف میں صلوٰۃ وسلام کا استعمال انبیاء کیلئے مخصوص کردیا گیا ہے جیسے عزَّ و جَلَّ کے الفاظ باری تعالیٰ کیلئے خاص کر دئیے گئے ہیں۔ سورۂ توبہ کی آیت وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ کی تفسیر کے ذیل میں اس کی مکمل تنقیح ہوچکی ہے۔
Top