Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 63
یَسْئَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں النَّاسُ : لوگ عَنِ : سے (متعلق) السَّاعَةِ ۭ : قیامت قُلْ : فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں عِلْمُهَا : اس کا علم عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُدْرِيْكَ : تمہیں خبر لَعَلَّ : شاید السَّاعَةَ : قیامت تَكُوْنُ : ہو قَرِيْبًا : قریب
لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں (کہ کب آئے گی) کہہ دو کہ اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو
یسئلک الناس عن الساعۃ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں۔ یعنی قیامت کا مقررہ وقت دریافت کرتے ہیں۔ یہ سوال مشرکوں کی طرف سے انکاری استہزاء کے طور پر تھا اور یہودیوں کی طرف سے عداوت کی وجہ سے یا بطور آزمائش تھا کیونکہ توریت اور تمام کتب الٰہیہ میں وقوع قیامت کا کوئی مقررہ وقت نہیں بتایا گیا۔ قل انما علمھا عند اللہ . آپ کہہ دیجئے کہ قیامت (کی تعیین) کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ یعنی قیامت کا علم اللہ نے نہ کسی نبی کو عطا کیا ‘ نہ فرشتہ کو (اس کے سوا کسی کو معلوم نہیں) ۔ وما یدریک . اور (جب اللہ نے نہیں بتایا تو) کون چیز آپ کو بتاسکتی ہے۔ لعل الساعۃ تکون قریبًا . شاید وہ گھڑی قریب ہی ہو۔ وہ گھڑی یعنی قیامت ‘ جو چیز قریب آنے والی ہے وہ قریب ہے (خواہ کتنی ہی طویل مدت کے بعد آئے ‘ مترجم) لَعَلَّ ظاہر کر رہا ہے کہ قیامت آنا ضروری اور لازم ہے (ا اللہ کی طرف سے کلمۂ امید یعنی لَعَلَّ کا استعمال شک و شبہ کو ظاہر نہیں کرتا ‘ بلکہ لازم الوقوع ہونے کو بتاتا ہے ‘ مترجم) اس جملہ میں ان لوگوں کیلئے تہدید ہے جو بطور استہزاء (وتکذیب) قیامت کے جلد آجانے کے طلب گار تھے اور ان لوگوں کو خاموش کردیا گیا ہے جو محض ضد کی وجہ سے منکر تھے۔
Top