Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 70
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَقُوْلُوْا : اور کہو قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو
یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولاً سدیدًا . اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔ یعنی اللہ کو جو بات ناپسند ہے ‘ اس سے پرہیز کرو ‘ ایذاء رسول کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے سدیدًا کا ترجمہ کیا ہے ” صحیح بات “۔ قتادہ نے کہا : انصاف کی بات۔ بعض نے کہا : سیدھی بات۔ کچھ لوگوں نے کہا : حق تک پہنچنے کا قصد رکھنے والی بات۔ تمام اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے یعنی سچی بات جو قطعاً جھوٹی نہ ہو اور نہ اٹکل پر مبنی ہو کیونکہ جھوٹ فنا ہوجاتا ہے اور سچ باقی رہتا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا : آیت میں بازداشت ہے اس بات سے جو حضرت زینب کے معاملہ میں لوگوں نے ناحق بغیر کسی اعتدال کے اختیار کرلی تھی اور ممانعت ہے حضرت عائشہ پر بہتان تراشی کے واقعہ کی۔ عکرمہ نے کہا : قول سدید لا الہ الا اللہ ہے۔
Top