Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 12
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ١ۣؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠   ۧ
اِنَّا نَحْنُ : بیشک ہم نُحْيِ : زندہ کرتے ہیں الْمَوْتٰى : مردے وَنَكْتُبُ : اور ہم لکھتے ہیں مَا قَدَّمُوْا : جو انہوں نے آگے بھیجا (عمل) وَاٰثَارَهُمْ ڳ : اور ان کے اثر (نشانات) وَكُلَّ : اور ہر شَيْءٍ : شے اَحْصَيْنٰهُ : ہم نے اسے شمار کر رکھا ہے فِيْٓ : میں اِمَامٍ مُّبِيْنٍ : کتاب روشن (لوح محفوظ
بےشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے اور (جو) ان کے نشان پیچھے رہ گئے ہم ان کو قلمبند کرلیتے ہیں۔ اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن (یعنی لوح محفوظ) میں لکھ رکھا ہے۔
انا نحن نحی الموتی ونکتب ما قدموا واثارھم بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال (بھی) جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور وہ اعمال (بھی) جن کو وہ پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یعنی قبروں سے اٹھانے کے وقت ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے ‘ یا یہ مطلب ہے کہ جہالت اور گمراہی (جو حقیقت میں موت ہیں) کے بعد ہم علم اور ہدایت (جو حقیقت میں زندگی ہیں) دیتے ہیں۔ آثار سے مراد اعمال صالحہ (حسنہ) بھی ہیں جیسے سکھایا ہوا علم ‘ وقت کیا ہوا مال (مردہ سنت کو زندہ کرنا) اور اچھا طریقہ جاری کرنا اور برے اعمال بھی ہیں جیسے باطل کو رواج دینا ‘ ظلم کی بنیاد ڈالنا ‘ کفر کی مدد کرنا ‘ بدعت ایجاد کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا ‘ جس پر بعد والوں نے عمل کیا تو اس شخص کو اپنے کئے کا بھی ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کے برابر بھی جو اس کے جاری کردہ طریقے پر چلے ‘ مگر بعد کو اس طریقہ پر چلنے والوں کا ثواب کم نہیں کیا جائے گا اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا ‘ جس پر بعد کو آنے والے لوگ چلے تو ایجاد کرنے والے پر اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور بعد کو عمل کرنے والوں کا بھی ‘ لیکن بعد کو عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ رواہ مسلم من حدیث جریر۔ بعض علماء نے کہا : اٰثَارُھُمْ سے مراد ہیں مسجدوں تک جانے کے نشانہائے قدم ‘ یعنی مسجدوں تک پہنچنے میں جتنے ان کے قدموں کے نشان پڑتے ہیں ‘ ہم سب کو لکھتے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں سب سے بڑا اجر اس شخص کیلئے ہوتا ہے جو سب سے زیادہ دور سے چل کر آئے ‘ پھر اس کے بعد اس شخص کا اجر ہوتا ہے جو (اوروں سے) زیادہ دور سے آئے۔ اور جو شخص امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے انتظار میں رہتا ہے ‘ اس کو ثواب اس شخص سے بڑھ کر ملتا ہے جو نماز پڑھ کر سو جاتا ہے (متفق علیہ) حضرت جابر کا بیان ہے : مسجد کے گرد کچھ زمین کے قطعے خالی پڑے ہوئے تھے ‘ بنی سلمہ کا ارادہ ہوا کہ (اپنے محلہ سے) منتقل ہو کر مسجد کے قریب آ بسیں۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو فرمایا : کیا تم چاہتے ہو کہ منتقل ہو کر مسجد کے قریب آجاؤ ؟ بنی سلمہ نے عرض کیا : ہاں ‘ یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارا یہی ارادہ ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : بنی سلمہ ! اپنے گھروں میں ہی رہو ‘ تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔ رواہ مسلم بغوی نے حضرت انس کی روایت سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ ترمذی اور حاکم نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کو ترمذی نے حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ وکل شیء احصینہ فی امام مبین . اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کردیا تھا۔ اَحْصَیْنٰہُ یعنی ہم نے لکھ دیا تھا۔ امام مبین سے مراد ہے لوح محفوظ۔
Top