Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 18
الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ
الَّذِيْنَ : وہ جو يَسْتَمِعُوْنَ : سنتے ہیں الْقَوْلَ : بات فَيَتَّبِعُوْنَ : پھر پیروی کرتے ہیں اَحْسَنَهٗ ۭ : اس کی اچھی باتیں اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہیں هَدٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں ہدایت دی اللہ نے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمْ : وہ اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں
الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھدھم اللہ واولئک ھم اولو الالباب جو اس کلام (الٰہی) کو کان لگا کر سنتے ہیں ‘ پھر اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں۔ یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت یاب بنایا اور یہی ہیں جو عقلوں والے ہیں۔ یعنی قرآن کو بھی سنتے ہیں اور دوسرے کلام کو بھی ‘ پھر قرآن کی ہدایتوں پر چلتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کا کلام بھی سنتے ہیں اور کافروں کا کلام بھی ‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر چلتے ہیں (اس مطلب پر القول سے عام کلام مراد ہوگا ‘ کسی کا ہو : اللہ کا ‘ رسول کا ‘ یا کسی اور کا اور احسن سے مراد ہوگا : قرآن مجید ‘ اور رسول اللہ ﷺ کا کلام۔ اس تفسیر پر اَحْسَنْ (اسم تفضیل) حَسَنْ (صفت مشبہ) کے معنی ہوگا (یعنی احسن کا ترجمہ بہت اچھا نہ ہوگا ‘ بلکہ اچھا ہوگا) کیونکہ کافروں کے کلام میں تو کوئی اچھائی نہیں ہوتی (کہ اس کے مقابلہ میں اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو بہت اچھا کہا جائے) ۔ رفتار عبارت کا تقاضا ہے کہ فَبَشِّرْ عِبَادِ کی جگہ فَبَشِّرْ ھُمْ کہا جاتا (کیونکہ ضمیر کا مرجع پہلے مذکور ہے) صراحت کے ساتھ عبادی کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ شیطان سے ان کے اجتناب کی اساس یہ ہے کہ وہ کلام کو پرکھنے والے ہیں ‘ گندے اور پاکیزہ کلام میں فرق کرتے ہیں ‘ برے اچھے کلام میں ان کو امتیاز ہے اور حسن و احسن کے فرق کی بھی شناخت ہے۔ عطاء نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر جب ایمان لے آئے تو حضرت عثمان ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت طلحہ بن عبیدا اللہ ‘ حضرت زبیر بن عوام ‘ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید ؓ آپ کے پاس آئے اور مسلمان ہونے کی خبر معلوم کی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا : ہاں ‘ میں ایمان لے آیا۔ اس پر یہ حضرات بھی مسلمان ہوگئے اور انہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن زید کا قول ہے کہ ان دونوں آیات کا نزول تین آدمیوں کے متعلق ہوا ‘ جو عہد جاہلیت میں بھی لاَ اِلٰہَ الاّ اللہ کے قال تھے : نمبر 1 زید بن عمرو بن نفییل یا سعید بن زید ‘ نمبر 2 ابوذر غفاری ‘ نمبر 3 سلمان فارسی۔ اور احسن القول سے مراد لاَ اِلٰہَ الاّ اللہ ہے۔ سدی نے کہا : احسن سے مراد یہ ہے کہ جو احکام ان کو دئیے جاتے ہیں ‘ ان میں سب سے اچھے حکم پر وہ چلتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا کہ قرآن میں ظالم سے انتقام لینے کی اور معاف کردینے کی ‘ ہر ایک کو اجازت ہے ‘ لیکن دونوں میں سے معاف کردینا احسن ہے۔ قرآن میں عزائم کا بھی ذکر ہے اور رخصتوں کا بھی ‘ لیکن عزائم احسن ہیں (یعنی احسن میں حسن اضافی مراد ہے ‘ حسن واقعی مراد نہیں ہے ‘ حسن واقعی تو جانب مرجوع میں بھی ہوتا ہے۔ مترجم) اُولُو الْاَلْبَابِ وہ اہل دانش جن کی عقلیں توہمات اور رواجوں سے پاک ہیں۔ اس آیت میں دلالت ہے اس امر پر کہ ہدایت کو پیدا کرنے والا تو اللہ ہے ‘ لیکن نفس انسانی اس کو قبول کرتا ہے۔ اگر تخلیق ہدایت نہ ہو ‘ یا نفس اس کو قبول نہ کرے تو آدمی ہدایت یاب نہیں ہوتا۔
Top