Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 23
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ١ۖۗ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ١ۚ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ
اَللّٰهُ : اللہ نَزَّلَ : نازل کیا اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ : بہترین کلام كِتٰبًا : ایک کتاب مُّتَشَابِهًا : ملتی جلتی ( آیات والی) مَّثَانِيَ ڰ : دہرائی گئی تَقْشَعِرُّ : بال کھڑے ہوجاتے ہیں مِنْهُ : اس سے جُلُوْدُ : جلدیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْشَوْنَ : وہ ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ ۚ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تَلِيْنُ : نرم ہوجاتی ہیں جُلُوْدُهُمْ : ان کی جلدیں وَقُلُوْبُهُمْ : اور ان کے دل اِلٰى : طرف ذِكْرِاللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد ذٰلِكَ : یہ هُدَى اللّٰهِ : اللہ کی ہدایت يَهْدِيْ بِهٖ : ہدایت دیتا ہے اس سے مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جسے وہ چاہتا ہے وَمَنْ : اور۔ جو ۔ جس يُّضْلِلِ اللّٰهُ : گمراہ کرتا ہے اللہ فَمَا : تو نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ هَادٍ : کوئی ہدایت دینے والا
خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں
اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی اللہ ہی نے سب سے اچھا کلام نازل فرمایا جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے ہے ‘ بار بار دہرائی گئی ہے۔ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ یہ آیت تائید ہے آیت اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ کی ‘ اور درمیان میں تمام جملے معترضہ ہیں۔ نَزَّلَ سے پہلے اللّٰہُ کہنے کے تین فائدے ہیں : (1) اللہ کی طرف قرآن نازل کرنے کی نسبت پختہ ہوگئی (2) نازل شدہ قرآن کی عظمت شان کا اظہار ہوگیا (کہ یہ اللہ ہی کا بھیجا ہوا کلام ہے) (3) قرآن کے احسن ہونے کی شہادت دے دی گئی (کہ اللہ ہی نے اس کلام کو اتارا اور اس کے احسن الحدیث ہونے کی شہادت دی ہے) ۔ مُتَشَابِھًا یہ کتابًا کی صفت ہے اور کتابًا احسن الحدیث سے بدل ہے۔ متشابہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تمام آیات صحت معنی ‘ حسن عبارت اور افادۂ عام میں ایک جیسی ہیں اور کوئی آیت دوسری آیت کی تکذیب نہیں کرتی (تمام آیات باہم تصدیق کرتی ہیں۔ یہ سمجھنے والے کی علمی بےبضاعتی اور فہم کی کجی کا قصور ہے کہ وہ بعض آیات کو بعض کے خلاف سمجھتا ہے۔ مترجم) مَثَانِیَ یہ بھی کتابًا کی صفت ہے۔ مثانی ‘ مثناۃ کی جمع ہے اور مثناۃ اسم ظرف ہے۔ قرآن کے اندر بار بار وعد و وعید ‘ امر و نہی ‘ اخبار اور احکام کا ذکر ہے ‘ اسلئے اس کو بار بار دہرائی جانے والی کتاب فرمایا ‘ گویا تفصیلات کے لحاظ سے اس کو مثانی کہا گیا ‘ جیسے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سورتیں ہیں اور آیات ہیں ‘ یا یوں کہیں کہ انسان رگیں ہے ‘ اعصاب ہے ‘ ہڈیاں ہے ‘ گوشت ہے (یعنی ان کا مجموعہ ہے) ۔ یا مثانی ‘ مُثْنِیَۃٌ کی جمع ہے ‘ ثناء کرنے والیاں یعنی اس کی آیات اللہ کی صفات اور ذات کی ثناء بیان کرتی ہیں۔ تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ‘ پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رحمت اور عموم مغفرت کا جب وہ ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کی وجہ سے ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ ذکر اللہ کے ساتھ رحمت کا ذکر نہیں کیا ‘ کیونکہ اصل تو رحمت ہی ہے ‘ اللہ کی رحمت ‘ غضب پر غالب ہے۔ الٰی ذکر اللہ میں الٰی بمعنی لام ہے ‘ یعنی اللہ کے ذکر کی وجہ سے ‘ لیکن ذکر کے اندر چونکہ سکون و اطمینان کا مفہوم داخل ہے ‘ اسلئے بجائے لام کے الٰی کہا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں آیات وعید کا ذکر آتا ہے تو مؤمنوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جلد بدن سکڑ جاتی ہے ‘ اس میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے اور جب آیات وعدہ کا ذکر آتا ہے تو کھالوں کا انقباض جاتا رہتا ہے ‘ کھالیں نرم ہوجاتی ہیں اور دلوں میں سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ پہلے کتابًا کی صفت مثانی بیان کی تھی ‘ یعنی اس میں فرمانبرداروں کیلئے وعدۂ ثواب اور نافرمانوں کیلئے وعید عذاب کا بار بار ذکر ہے۔ اس آیت میں وہ اثر بیان کردیا جو وعد و وعید سے مؤمنوں پر پڑتا ہے۔ حضرت عباس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ کے خوف سے بندہ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت کے سوکھے پتے ‘ رواہ الطبرانی بسند ضعیف ورواہ البغوی ‘ بغوی کی دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے : جب اللہ کے خوف سے بندہ کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو اللہ اس کو دوزخ کیلئے حرام کردیتا ہے۔ ایک شبہ : بعض عاشقان الٰہی قرآن سننے سے بےہوش ہوجاتے ہیں ‘ کیا ایسا ہونا کوئی پسندیدہ صفت ہے ؟ امام محی السنۃ بغوی نے تو اس کو سخت برا کہا ہے اور اس سلسلہ میں قتادہ کا بیان نقل کیا ہے کہ اللہ کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہوجانا اولیاء اللہ کی صفت ہے۔ اللہ نے ان کی یہی صفت بیان کی ہے ‘ اولیاء کی یہ صفت بیان نہیں کی کہ قرآن سننے سے ان کی عقلیں جاتی رہتی ہیں اور وہ بےہوش ہوجاتے ہیں۔ یہ کیفیت اہل بدعت کی ہوتی ہے اور شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے فرمایا : میں نے اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکر سے پوچھا : (اس عبادت میں شاید یہ سہو ہے ‘ کیونکہ حضرت اسماء کو حضرت عبد اللہ نے جدتی کہا ہے ‘ لیکن حضرت اسماء حضرت عبد اللہ کی والد تھیں ‘ دادی نہیں تھیں۔ جدۃ ماں کو نہیں کہتے ‘ ہاں ام کا اطلاق کبھی جدۃ پر آجاتا ہے۔ مترجم) رسول اللہ ﷺ کے صحابیوں کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا تو ان کی کیا حالت ہوتی تھی ؟ حضرت اسماء نے فرمایا : ان کی حالت وہی ہوتی تھی جیسی اللہ نے بیان فرمائی ہے کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میں نے کہا : کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ بےہوش ہو کر گرپڑتے ہیں۔ حضرت اسماء نے (جواب میں) فرمایا : میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں (یعنی یہ حرکت شیطان مردود کی ہے) ۔ بغوی کا بیان ہے کہ ایک عراقی شخص گرا پڑا ہے ‘ حضرت ابن عمر کا ادھر سے گذر ہوا ‘ دریافت فرمایا : اس کی کیا حالت ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس شخص کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا ہے اور یہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو بےہوش ہو کر گر جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : ہم بھی اللہ سے ڈرتے ہیں لیکن (قرآن سن کر بےہوش ہو کر) گر نہیں پڑتے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ شیطان بعض لوگوں کے اندر گھس جاتا ہے (اور بےہوش کر کے گرا دیتا ہے) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تو ایسا نہیں کرتے تھے ‘ یہ فعل ان کا نہ تھا۔ شبہ کا جواب : میں کہتا ہوں : جب برکات اور تجلیات کی بارش بکثرت ہوتی ہے اور صوی کا حوصلہ تنگ اور استعداد کمزور ہوتی ہے تو (صوفی برداشت نہیں کرسکتا اسلئے) بےہوشی کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ صحابہ کے ظرف وسیع تھے اور صحبت رسول کی برکت سے استعداد قوی تھی ‘ اسلئے باوجود برکات کی کثیر بارش کے ان پر بےہوشی طاری نہیں ہوتی تھی۔ صحابیوں کے علاوہ دوسروں کو یہ چیز میسر نہیں ‘ اسلئے دو وجہوں سے ان پر بےہوشی طاری ہوجاتی ہے : نمبر 1 یا نزول برکات ہی کم ہوتا ہے ‘ نمبر 2 یا ان کا ظرف تنگ ہوتا ہے اور حوصلہ میں سمائی نہیں ہوتی۔ تعجب ہے کہ امام محی السنۃ نے ان صوفیوں کو برا کہا جن پر قرآن سننے سے بےہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ وہ بھول گئے کہ اللہ نے فرمایا ہے : حتّٰی اذا فزع عن قلوبھم قالوا ما ذا قال ربکم قالوا الحق ‘ وھو العلی الکبیر۔ امام موصوف نے اس آیت کی تفسیر میں خود ہی حضرت نواس بن سمعان کی روایت سے مندرجہ ذیل حدیث نقل کی ہے کہ جب اللہ کسی بات کا ارادہ کرتا ہے اور وحی کے الفاظ فرماتا ہے تو اللہ کے خوف سے آسمانوں میں ایک شدید لرزہ آجاتا ہے ‘ آسمان والے اس کو سن کر بےہوش ہوجاتے ہیں اور سجدہ میں گرپڑتے ہیں ‘ پھر سب سے پہلے سر اٹھانے والے جبرئیل ہوتے ہیں ‘ الحدیث۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ایسی ہی حدیث نقل کی ہے لیکن الفاظ (میں کچھ تغیر ہے اور الفاظ) اس طرح ہیں : جب اللہ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے کلام کو سن کر عاجزی کے ساتھ ملائکہ اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں (اور ایسی آواز آتی ہے) جیسے پتھر کی چٹان پر زنجیر لگنے سے پیدا ہوتی ہے ‘ پھر جب ان کے دلوں کی وہ ہیبت دور ہوجاتی ہے تو (بعض ملائکہ بعض سے) کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ وہ جواب دیتے ہیں (جو کچھ فرمایا) حق ہے ‘ الحدیث۔ ایک اور آیت میں (حضرت موسیٰ کے بےہوش ہوجانے کا ذکر کیا اور) فرمایا ہے : فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا۔ رہا حضرت ابن عمر کا یہ قول کہ شیطان لوگوں کے خون کے اندر گھس جاتا ہے ‘ اسی طرح حضرت اسماء کا اعوذ باللہ الخ پڑھنا تو ظاہر ہے کہ انکے حوصلے قوی اور ظرف وسیع تھے ‘ جن کے اندر تمام تجلیات کی سمائی تھی ‘ اسلئے انکی اور ان جیسے دوسرے صحابیوں کی بےہوشی کی حالت نہیں ہوتی تھی۔ جب ان بزرگوں نے دو آدمیوں کو بےہوش پایا تو (ان پر چونکہ کبھی یہ حالت طاری نہیں ہوئی تھی اسلئے) خیال کرلیا کہ یہ فریبی ہیں ‘ مکر سے بےہوش بنے ہیں۔ اس بات کی تائید اس قصہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب ابن سرین کے سامنے ذکر کیا گیا کہ کچھ لوگ قرآن سن کر بےہوش ہوجاتے ہیں تو فرمایا : ایسے آدمی کو کسی چھت کے کنارے پر نیچے کو پاؤں لٹکا کر بٹھایا جائے ‘ پھر قرآن پڑھا جائے ‘ اگر وہ قرآن سن کر بےہوش ہو کر نیچے گرپڑے تو سمجھ لو سچا ہے (ورنہ جھوٹا ہے ‘ مکار ہے) ۔ ابن سیرین کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اکثر اس طرح کے آدمیوں کو بناوٹی اور مکار خیال کرتے تھے۔ تنبیہ : ملائکہ سے انسان کی استعداد زیادہ قوی اور حوصلہ زیادہ وسیع ہے ‘ اس کے ثبوت کیلئے آیت اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً سے اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ تک کافی ہے۔ اسی وسعت حوصلہ اور قوت استعداد کو ظاہر کرنے کیلئے فرمایا : اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمَلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے جب بھی وحی (کی آواز) سنی تو ان پر غشی طاری ہوگئی ‘ لیکن آدمی کی حالت ایسی نہیں ہے۔ اگر (عروج کے بعد) انسان کا نزول بھی مکمل ہوجائے تو سوائے کسی نادر مثال کے عام طور پر ایسے عارفوں کی حالت میں کوئی تغیر نہیں آتا اور اگر نزولی حالت کامل نہ ہو ‘ ناقص ہو تو اکثر حالات میں تغیر آجاتا ہے (اور ناقص النزول عارف کلام اللہ سب کر بےہوش ہوجاتا ہے) ۔ جب صوفی سکر کی حالت میں ہوتا ہے اور شعر و غناء میں محبوب کا ذکر سنتا ہے تو اکثر اس کی حالت بگڑ جاتی ہے (رقص کرتا ہے ‘ لوٹتا ہے ‘ تڑپتا ہے ‘ بےہوش ہوجاتا ہے) اسلئے صوفیہ سماع کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن قرآن تو شعر و غناء سے بہت زیادہ بلند مقام رکھتا ہے ‘ اس کو سن کر حالت میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے یا سننے کے وقت ذاتی صفات و تجلیات سے تعلق رکھنے والی برکات کا اتنی کثرت سے فیضان و نزول ہوتا ہے کہ جو صوفی اپنے مقام پر رکے ہوئے ہیں اور احتباس کی حالت میں ہیں ‘ ان کی رسائی بھی ان برکات تک نہیں ہو پاتی ‘ یہی احتباس گانا سننے کے وقت تو ان کی حالت میں تغیر پیدا کردیتا ہے اور قرآن سننے کے وقت حالت میں کوئی تغیر نہیں آتا۔ لیکن جو صوفی افق پر پہنچ گئے ہوں اور مقام دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی تک ان کی رسائی ہوگئی ہو ‘ ان کی حالت میں تغیر (بےہوشی کی حد تک نہیں بلکہ) صحابہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں ‘ بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ذکر رب سے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ ذلک ھدی اللہ یھدی بہ من یشاء ومن یضلل اللہ فما لہ من ھاد یہ اللہ کی ہدایت ہے اسکے ذریعے سے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت یاب کرتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کر دے ‘ اس کا کوئی ہادی نہیں۔ ذٰلِکَ یہ یعنی خوف وامید یا قرآن مجید۔ وَمَنْ یُّضْلِلْ یعنی جس کو اللہ بےمدد چھوڑ دے اس کو کوئی گمراہی سے نہیں نکال سکتا۔
Top