Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 28
قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
قُرْاٰنًا : قرآن عَرَبِيًّا : عربی غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ : کسی کجی کے بغیر لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کریں
یہ) قرآن عربی (ہے) جس میں کوئی عیب (اور اختلاف) نہیں تاکہ وہ ڈر مانیں
قرانا عربیا غیر ذی عوج لعلھم یتقون عربی میں نازل کیا جس میں ذرا کجی نہیں (اور) تاکہ لوگ ڈریں۔ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ہر طرح کا عمدہ مضمون جو دینی امور پر غور کرنے والوں کیلئے ضروری ہے۔ غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ یعنی اس میں کسی طرح کا اختلال نہیں۔ مستقیم سے غیر ذی عوج کا لفظ زیادہ بلیغ ہے (ہر قسم کی کجی کی نفی کر رہا ہے) اور معانی (میں اختلال نہ ہونے) کیلئے یہ لفظ مخصوص ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں کوئی اختلاف (بیان) نہیں۔ مجاہد نے کہا : اس میں کوئی اشتباہ اور شک نہیں۔ سدی نے کہا : یہ مخلوق نہیں (خرابی ‘ اختلاف اور شک تو مخلوق کے کلام میں ہوتا ہے اور یہ مخلوق ہی نہیں ہے) امام مالک بن انس کا قول بھی اس لفظ کی تفسیر میں یہی آیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ سفیان بن عیینہ نے ستر تابعین کا (بالاتفاق) قول نقل کیا کہ قرآن نہ خالق ہے نہ مخلوق۔ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اللہ کی صفت (کلامیہ) ہے ‘ عین ذات خداوندی نہیں کہ خالق ہوجائے اور غیر ذات بھی نہیں کہ ذات سے جدا ہو اور حادث و مخلوق ہوجائے۔ یہ قول دلالت کر رہا ہے کہ تابعین کے نزدیک اللہ کا کلام لفظی بھی قدیم ہے اور اللہ کی ایک صفت ہے ‘ کیونکہ کلام نفسی (جس پر کلام لفظ دلالت کر رہا ہے) عربی نہیں ہوسکتا (عربی اور عجمی ہونا تو الفاظ کی صفت ہے ‘ الفاظ کے معانی نہ تو عربی ہوتے ہیں نہ عجمی) یہ شبہ نہ کیا جائے کہ کلام لفظ میں ایک حرف کے بعد دوسرا حرف بولا جاتا ہے (اور اس طرح پورا جملہ اور کلام بن جاتا ہے) اور ترتیب حروف حادث ہونے کی علامت ہے ‘ کیونکہ یہ ترتیب حروف تو مخلوق کے کلام کیلئے ضروری ہے۔ محل کلام تنگ ہے ‘ اسلئے ایک حرف کے بعد دوسرا حرف آتا ہے اور پورا کلام حادث ہوجاتا ہے۔ اللہ کا کلام تو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے ‘ اس کے کلام میں تعاقب حروف کا تصور بھی غلط ہے ‘ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے حاضر پر غائب کو قیاس کرلیا جائے۔ رویت خداوندی کا انکار کرنے والے اسی تو ہم میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدار مخلوق پر دیدار خالق کو قیاس کرلیا۔ مخلوق کو دیکھنے کیلئے تو رخ اور مسافت وغیرہ ضروری ہے ‘ لیکن خالق کی رویت ان سب سے پاک ہے۔ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ‘ نہ اس کی ذات میں اس کا کوئی مماثل ہے ‘ نہ کسی صفت میں ‘ شان اعلیٰ اسی کی ہے وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ تاکہ وہ کفر و معاصی سے اجتناب کریں۔ یہ دوسری علت ہے جو پہلی علت لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ پر مرتب ہے ‘ یا اس سے بدل ہے ‘ یا اس کا بیان ہے۔
Top