Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 31
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عِنْدَ : پاس رَبِّكُمْ : اپنا رب تَخْتَصِمُوْنَ : تم جھگڑو گے
پھر تم سب قیامت کے دن اپنے پروردگار کے سامنے جھگڑو گے (اور جھگڑا فیصل کردیا جائے گا)
ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون پھر تم (سب اپنے مقدمات) اپنے رب کے سامنے پیش کرو گے (وہی تمہارا آخری فیصلہ کر دے گا) ۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ ہر شخص کی موت یقینی ہے ‘ اسلئے بجائے فعل مضارع (تموت اور یموتون) کے صفت مشبہ کا صیغہ جو دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے ‘ استعمال کیا (یعنی میت اور میتون فرمایا) فراء اور کسائی کی تحقیق ہے کہ مَیِّت اس شخص کو کہتے ہیں جو آئندہ مرنے والا ہو ‘ ابھی مرا نہ ہو اور مَیْت اس کو کہتے ہیں جس کی جان نکل چکی ہے ‘ اسلئے میّت اور میّتون بتشدید یؔ فرمایا۔ محلی نے لکھا ہے کہ کفار مکہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جلد وفات پاجائیں ‘ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ بھی یقیناً مریں گے اور وہ یعنی کفار مکہ یا سب لوگ بھی مریں گے ‘ پھر رسول اللہ ﷺ کی وفات سے ان کو خوشی نہ ہونی چاہئے۔ ثُمَّ اِنَّکُمْ یعنی آپ اور کفار مکہ ‘ یا سب لوگ۔ تَخْتَصِمُوْنَ آپس میں جھگڑو گے ‘ اپنے مقدمات پیش کرو گے۔ رسول اللہ ﷺ عرض کریں گے : اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو بکواس قرار دے رکھا تھا۔ انہوں نے میری تکذیب کی باوجودیکہ میں حق پر تھا ‘ توحید کو پیش کر رہا تھا اور یہ باطل پر تھے ‘ مشرک تھے۔ میں نے ان کو راستہ دکھانے اور تیرے احکام پہنچانے کی بہت کوشش کی اور یہ اپنی سرکشی اور تکذیب پر اڑے رہے۔ کفار اپنے عذر میں غلط باتیں کہیں گے ‘ کہیں گے : ہم اللہ کی جو ہمارا رب ہے ‘ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔ یہ بھی کہیں گے کہ ہمارے پاس کو بشیر و نذیر (پیغمبر) ہی نہیں آیا۔ یہ بھی کہیں گے کہ ہم اپنے سرداروں کے اور بڑوں کے کہنے پر چلے اور اس چیز کی تقلید کی جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔ لوگ آپس میں بھی اپنے حقوق کی بابت جھگڑا کریں گے۔ سب سے پہلے آپس کی خوں ریزیوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے باہمی مقدمات میں سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ترمذی اور ابن ماجہ اور طبرانی اور مردویہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : میں نے خود حضور ﷺ سے سنا کہ مقتول اپنے ایک ہاتھ میں اپنا سر لٹکائے اور دوسرے ہاتھ سے قاتل کو پکڑے ہوئے آئے گا ‘ اس وقت اس کی گردن کی رگوں سے خون ابل رہا ہوگا اور عرش الٰہی کے پاس پہنچ کر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض کرے گا : اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ قاتل سے فرمائے گا : تو ہلاک ہو۔ پھر اس کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مقتول ‘ قاتل کو پکڑ کرلے آئے گا ‘ اس کی گردن کی رگوں سے اس وقت خون اچھل رہا ہوگا۔ عرض کرے گا : اے میرے رب ! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا : میں نے اس کو اسلئے قتل کیا تھا کہ فلاں شخض کو عزت (غلبہ) حاصل ہو۔ اللہ فرمائے گا : عزت تو (ساری) اللہ ہی کیلئے ہے۔ ابن حاتم نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے (کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :) قاتل اور مقتول دونوں کو لا کر رحمن کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور قاتل سے پوچھا جائے گا : تو نے اس کو کیوں قتل کیا ؟ اگر اس نے اللہ کیلئے قتل کیا ہوگا تو کہہ دے : میں نے اس کو اسلئے قتل کیا تھا کہ غلبہ اللہ (کے دین) کا ہو۔ جواب دیا جائے گا : بیشک عزت (غلبہ) اللہ ہی کیلئے ہے۔ اور اگر قاتل نے کسی مخلوق کیلئے قتل کیا ہوگا تو وہ کہے گا : میں اس کو اسلئے قتل کیا تھا کہ فلاں شخص کو غلبہ حاصل ہو۔ ارشاد ہوگا : اس کیلئے تو عزت نہیں۔ غرض جس ظالم نے کسی کو قتل کیا ہوگا ‘ اس سے انتقام لیا جائے گا اور اتنے دنوں اس کو موت کا مزہ چکھایا جاتا رہے گا جتنے دنوں اس نے دنیا میں مقتول کو زندگی سے محروم کیا تھا۔ امام احمد ‘ ترمذی اور حاکم نے حضرت عبد اللہ بن زبیر کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت زبیر نے فرمایا : جب آیت اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ ز ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہمارے آپس کے خاص خاص جرائم کو دوبارہ ہمارے سامنے لایا جائے گا ؟ فرمایا : ہاں ‘ ضرور دوبارہ ان کو سامنے لایاجائے گا ‘ یہاں تک کہ ہر حقدار کو اس کا حق پہنچ جائے گا۔ حضرت زبیر نے کہا : وا اللہ ! معاملہ بڑا سخت ہوگا۔ طبرانی نے ناقابل اعتراض سند سے حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مرد و عورت کا جھگڑا پیش ہوگا۔ خدا کی قسم ! مرد زبان سے کچھ نہ کہے گا ‘ بلکہ عورت کے ہاتھ پاؤں خود اس کے خلاف شہادت دیں گے کہ یہ اپنے شوہر کی فلاں فلاں عیب چینی کرتی تھی ‘ پھر مرد کے ہاتھ پاؤں ان باتوں کی شہادت دیں گے جو عورت پر وہ زیادتی کرتا تھا۔ اسی طرح آدمی کو اس کے خدمتگاروں کے ساتھ طلب کیا جائے گا ‘ پھر بازار والوں کو بلایا جائے گا ‘ وہاں دانگ اور کیرٹ تو ہوں گے نہیں بلکہ (ظالم کی) نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے ‘ پھر ظالموں کو آہنی گرزوں (کے گھیرے) میں لایا جائے گا اور حکم ہوگا : ان کو دوزخ کی طرف اتار دو ۔ امام احمد نے سند حسن سے حضرت عقبہ بن عامر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے اول دو ہمسائے (اپنا مقدمہ پیش کرنے) آئیں گے۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی طرف اسکے بھائی کا کوئی حق ہو ‘ اسکو دنیا ہی میں ا سے خلاصی حاصل کر لینی چاہئے ‘ کیونکہ وہاں نہ دینار ہوگا ‘ نہ درہم۔ اگر اسکا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس سے وہ عمل لے کر حقدار کو اسکے حق کے موافق دے دیا جائے گا اور اگر اس (ظالم) کی نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کے گناہ لے کر ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ مسلم اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا : ہم میں مفلس وہی ہوت ہے جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان۔ فرمایا : میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ (سب کچھ) لے کر آئے گا (لیکن) کسی کو گالی دی ہوگی ‘ کسی پر تہمت لگائی ہوگی ‘ کسی کا مال کھایا ہوگا ‘ کسی کا خون بہایا ہوگا ‘ کسی کو مارا ہوگا ‘ چناچہ اس کو پکڑا جائے گا اور اس کی کچھ نیکیاں ایک (حقدار) کو بطور بدلہ دے دی جائیں گی اور کچھ دوسرے کو ‘ اگر بدلہ پورا ہوئے بغیر اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو حقداروں کے کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے ‘ پھر اس کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں : مظلوم ‘ ظالم کی نیکیاں لے لے گا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ ایمان کے دوسری نیکیوں کا ثواب لے لے گا ‘ کیونکہ کفر کے علاوہ ہر قسم کے حقوق اور گناہوں کی سزا غیر متناہی نہیں ہے (کبھی ختم ہوجائے گی) یہی قول اہل سنت کے مسلک کے مطابق ہے ‘ اہل سنت کے نزدیک مرتکب کبیرہ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا اور ایمان کی جزا دوامی جنت ہے اور جنت کی کوئی حد نہیں۔ لہٰذا جو چیز متناہی بدلہ والی ہے (یعنی اللہ کا گناہ یا بندوں کی حق تلفی) اس کا عوض وہ چیز نہیں ہوسکتی جو غیرمتناہی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر گناہوں کا بدلہ پورا ادا ہوئے بغیر ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور صرف ایمان باقی رہ جائے گا تو کفر کے علاوہ مظلوموں کے گناہ ظالم پر لاد دئیے جائیں گے (مظلوم کا کفر ظالم پر نہیں ڈالا جائے گا ‘ کیونکہ کفر کی سزا تو غیرمتناہی ہے اور گناہوں کی سزا متناہی ہے اور متناہی گناہوں کی سزا غیرمتناہی سے نہیں بدل سکتی) پھر اگر مظلوم انکار کرے گا تو ظالم کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اور اتنی مدت تک وہاں رکھا جائے گا جتنی مدت ان گناہوں کی سزا کیلئے مقرر ہوگی۔ جب گناہوں کی سزا پوری ہوجائے گی تو اس ظالم کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ میں نے جو تشریح کی ہے ‘ وہی بیہقی نے بھی کی ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن حقداروں کو انکے حقوق واپس دلائے جائیں گے ‘ یہاں تک کہ منڈی بکری کو بھی سینگوں والی بکری سے (اگر اس نے منڈی بکری کو مارا ہوگا تو) بدلہ دلوایا جائے گا۔ ایک روایت میں آیا ہے : منڈی کو سینگوں والی سے اور (مظلوم) چھوٹی سرخ چیونٹی کو (ظالم) سرخ چیونٹی سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ بیہقی نے حضرت زبیر بن عوام کی روایت سے بیان کیا کہ جب آیت ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ نازل ہوئی تھی تو ہم نے کہا تھا : ہم آپس میں (قیامت کے دن) کیسے جھگڑیں گے ؟ ہمارا رب ایک ہے ‘ ہمارا دین ایک ہے اور ہماری کتاب ایک ہے ‘ یہاں تک کہ میں نے (اب) دیکھ لیا کہ ہم میں بعض ‘ بعض کے چہروں پر تلواریں مار رہے ہیں۔ اب میں نے پہچانا کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عمر کی روایت بھی اسی طرح آئی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا : ہم کہتے تھے : ہمارا رب ایک ہے ‘ ہمارا نبی ایک ہے ‘ ہماری کتاب ایک ہے ‘ پھر (قیامت کے دن) یہ باہمی حق طلبی کیا ہوگی ؟ آخر جب جنگ صفین کا دن آیا اور ہم میں سے بعض نے بعض پر تلواروں سے حملے کئے تو ہم نے کہا : ہاں ‘ یہ وہی ہے۔ ابراہیم کا بیان ہے کہ جب آیت ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا : ہم تو بھائی بھائی ہیں ‘ ہمارا باہم جھگڑا کس طرح ہوگا ؟ لیکن جب حضرت عثمان شہید کر دئیے گئے تو لوگوں نے کہا : یہ ہے ہمارا باہمی جھگڑا۔ ان تمام مندرجۂ بالا اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ یہ سمجھتے تھے کہ قتل و خون کے جھگڑے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوں گے (مسلمانوں کے آپس میں نہیں ہوں گے) لیکن جب بغاوتیں ہوئیں اور مسلمانوں کے آپس میں فساد ہونے لگے ‘ اس وقت ظاہر ہوا کہ خصومت اور جھگڑا مسلمانوں کے آپس میں بھی ہوگا۔ تیئیسواں پارہ ختم ہوا ‘ اللہ کی مدد سے چوبیسواں پارہ شروع کیا جاتا ہے۔
Top