Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 45
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جاتا ہے اللہ وَحْدَهُ : ایک۔ واحد اشْمَاَزَّتْ : متنفر ہوجاتے ہیں قُلُوْبُ : دل الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ ۚ : آخرت پر وَاِذَا : اور جب ذُكِرَ : ذکر کیا جاتا ہے الَّذِيْنَ : ان کا جو مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِذَا : تو فورا هُمْ : وہ يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوش ہوجاتے ہیں
اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں۔ اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں
واذا ذکر اللہ وحدہ اشمازت قلوب الذین لا یومنون بالاخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذاھم یستبشرون اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ‘ بھچ جاتے ہیں (نفرت کرتے ہیں ‘ سکڑ جاتے ہیں) اور جب اللہ کے سوا اوروں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ کھل جاتے ہیں (خوش ہوجاتے ہیں) یعنی بتوں کے تذکرے سے بڑے خوش ہوتے ہیں۔ بغوی نے حسب بیان مجاہد و مقاتل لکھا ہے اور ابن المنذر نے بھی اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف کی ہے کہ یہ خوشی کافروں کو اس وقت ہوئی جب رسول اللہ ﷺ نے سوۂ النجم پڑھی اور شیطان نے آپ کی قرأت کے اندر ومناۃ الثالثہ الاخرٰی کے آگے یہ الفاظ ملا دئیے تِلْکَ الْغَرَ انِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتْھُنَّ لَتُرْجٰی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اشْمَاَزَّتْ اور یَسْتَبْشِرُوْنَ دونوں لفظ انتہائی کیفیت پر دلالت کرتے ہیں۔ استبشار (چہرہ کا کھل جانا) اس وقت ہوتا ہے جب دل خوشی اور مسرت سے اتنا پُر ہوجائے کہ اس کے آثار چہرہ پر نمودار ہوجائیں (اور چہرہ شگفتہ ہوجائے) اور اشمئزاز (بھچ جانا ‘ منقبض ہوجانا) اس وقت ہوتا ہے جب دل غم و غصہ سے اتنا بھر جائے کہ چہرہ کی کھال سکڑ جائے ‘ بل پڑجائیں۔
Top