Tafseer-e-Mazhari - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے۔ (نہیں) بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے
فاذا مس الانسان ضر دعانا ثم اذا خولنہ نعمۃ منا قال انما اوتیتہ علی علم بلھی فتنۃ ولکن اکثرھم لا یعلمون پھر جب (کافر) انسان کو کوئی تکلیف چھو جاتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے (لیکن) جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کردیتے ہیں تو کہتا ہے : یہ تو مجھے میری تقدیر سے ملی ہے (یہ نعمت یونہی نہیں ملتی) بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔ اَلْاِنْسَانَ (میں لام عہدی ہے ‘ اس) سے مراد ہے کافر انسان۔ بعض نے کہا : الف لام جنسی ہے ‘ لیکن کافروں کی کثرت ہے ‘ اسلئے جنس انسان سے کافر انسان مراد ہیں۔ ضُرٌّ کوئی سخت تکلیف۔ اس جملہ کا عطف وَاِذَا ذُکِرَ اللہ وَحْدَہٗ پر ہے ‘ اس سے مقصود ہے کافروں کا عملی تناقض بیان کرنا۔ مطلب اس طرح ہوگا کہ صرف اللہ کا ذکر کرنے کے وقت تو کافروں کے چہر سکڑ جاتے ہیں اور بتوں کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے چہرے کھل جاتے ہیں۔ لیکن جب کوئی دکھ پڑتا ہے تو اس وقت اللہ کو پکارتے ہیں ‘ پھر جب دکھ دور ہوجاتا ہے اور اللہ کی طرف سے کوئی سکھ مل جاتا ہے تو کہتے ہیں : یہ تو ہم کو اپنی تدبیر اور کا ردانی سے ملا ہے۔ خَوَّلْنٰہُ ہم اپنی مہربانی سے کوئی نعمت عطا کردیتے ہیں۔ تخویل مہربانی سے کسی کو کچھ دینا۔ تخویل کا لفظ عطا بمہربانی کیلئے مخصوص ہے۔ عَلٰی عِلْمٍ یعنی کمائی کے ڈھنگ مجھے معلوم تھے ‘ اسلئے مجھے یہ نعمت ملی ‘ یا یہ مطلب ہے کہ مجھے استحقاق تھا ‘ اسلئے مجھے یہ نعمت ملی ‘ میں اس بات کو جانتا ہوں ‘ یا یہ مطلب ہے کہ میں جانتا تھا کہ مجھے یہ نعمت دینا خدا پر لازم تھا۔ بَلْ ھِیَ فِتْنَۃٌ بلکہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ یہ شخص نعمت کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔ یا اللہ کی طرف سے یہ ایک ڈھیل ہے تاکہ اس کافر کے عذاب کا سبب بن جائے۔ بعض نے کہا : ھِیَ کی ضمیر کافر انسان کے اس قول کی طرف راجع ہے کہ نعمت مجھے اپنی تدبیر سے حاصل ہوئی ہے ‘ یعنی اسکے یہ الفاظ ایک ایسی آزمائش ہے جو اسکے عذاب کی موجب ہے۔ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ بیضاوی نے لکھا ہے : یہ جملہ دلالت کر رہا ہے کہ الانسان سے مراد جنس انسان ہے (کیونکہ لٰکن حرف استدراک ہے جو دلالت کر رہا ہے کہ نادانی کا حکم سب انسانوں کیلئے نہیں بلکہ اکثرکیلئے ہے) ۔ میں کہتا ہوں کہ الانسان سے اگر جنس مراد نہ بھی ہو اور کافر انسان ہی مراد ہو (تب بھی مطلب صحیح ہوسکتا ہے) تو اکثر کافروں سے مراد کل کافر ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض کافروں کو خود یقین تھا کہ ہم باطل پر ہیں ‘ لیکن محض ضد اور عناد کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے تھے (پس اکثر کافر بےعلمی کی وجہ سے کافر رہے اور بعض کافر باوجود جاننے اور سمجھنے کے محض بغض وعناد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے) ۔
Top