Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پھر جب تم نماز تمام کرچکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں) خدا کو یاد کرو پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بےشک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے
فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبکم پھر جب تم اس نماز کو ادا کر چکو تو اللہ کی یاد میں لگ جاؤ کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور پہلو کے بل لیٹے بھی۔ یعنی ہر وقت تسبیح ‘ تحمید ‘ تہلیل اور تکبیر میں مشغول رہ کر اللہ کی یاد کرو۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تمام اوقات میں اللہ کی یاد کرتے تھے۔ رواہ ابو داؤد۔ ظاہر یہ ہے کہ آیت اور حدیث میں دوام ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے زبان سے ہر وقت ذکر تو ممکن ہی نہیں ہے۔ بعض علماء نے آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جب تم صلوٰۃ خوف سے فارغ ہوجاؤ تو پھر اللہ کا ذکر کرو یعنی نماز پڑھو ‘ صحت کی حالت میں کھڑے ہو کر اور بیماری کی حالت میں یا اپاہج ہونے کی وجہ سے یا زخمی ہونے کے سبب یا کمزوری کے باعث حسب تفاوت عذر بیٹھ کر یا لیٹ کر۔ یا یہ مراد ہے کہ جب حالت خوف میں تم نماز کا ارادہ کرو تو اگر قدرت ہو تو کھڑے ہو کر نماز پڑھو نہ ہو سکے تو بیٹھ کر پڑھو یہ بھی ممکن نہ ہو تو لیٹ کر پڑھو۔ فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوۃ پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ تو نماز کو قاعدہ کے مطابق پڑھنے لگو۔ یعنی جب خوف دور ہوجائے اور تمہارے دلوں کو سکون ہوجائے تو ٹھیک ٹھیک تمام ارکان اور شرائط کی پابندی کے ساتھ نماز پڑھو امن کی حالت میں وہ بات جائز نہیں جو خوف کی حالت میں جائز ہے۔ ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا بیشک نماز مسلمانوں پر وقتی تعیین کے ساتھ فرض ہے۔ یعنی جہاں تک ممکن ہو نماز کو اس کے وقت سے نہ ٹالا جائے یہ آیت گویا گذشتہ بیان کی علت ہے کہ خوف کی نماز اور کھڑے بیٹھے عذر کے وقت نماز اس لئے ضروری ہے کہ نماز مسلمانوں پر فرض لازم ہے اور اس کا وقت معین ہے۔ امام شافعی عین جنگ کی حالت میں اور مسابقت کی صورت میں نماز کو جائز قرار دیتے ہیں اور بیضاوی نے اس قول پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے لیکن یہ استدلال غلط ہے کیونکہ اگر حالت مسابقت میں نماز کا جواز ہوتا تو جس طرح لیٹنے اور بیٹھنے کی حالت میں نماز کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اسی طرح حالت مسابقت میں نماز کا ذکر بھی ہوتا اور اصل عدم جواز ہے۔ آیت میں اوقات صلوٰۃ کی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔ احادیث میں اس کا بیان آیا ہے۔ مسئلہ : بالاتفاق ظہر کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہو کر عصر تک رہتا ہے اور عصر کا وقت غروب آفتاب تک مگر سورج میں زردی آنے پر بالاجماع مکروہ تحریمی ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک جب ہر شے کا سایہ (اصلی سایہ کو چھوڑ کر) دو چند ہوجائے تو عصر کے لئے یہ وقت سب سے اعلیٰ ہے مغرب کا وقت غروب آفتاب کے بعد اور عشاء کا وقت غروب شفق کے بعد سے شروع ہو کر فجر چمکنے تک رہتا ہے لیکن بالاجماع آدھی رات سے زیادہ تاخیر نہ کرنا مستحب ہے۔ فجر کا وقت صبح کی پَو پھیلنے سے طلوع آفتاب تک ہے۔ ظہر اور مغرب کا آخر وقت کہاں تک ہے اس میں ائمہ کا اختلاف ہے جمہور کے نزدیک ظہر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب ہر چیز کا سایۂ زوال کو چھوڑ کر ایک مثل ہوجائے اور مغرب کا وقت غروب شفق تک رہتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ظہر کا وقت رہتا ہے۔ امام مالک (رح) اور شافعی (رح) کے ایک قول میں مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد فوراً پڑھ لی جائے تاخیر نہ کی جائے۔ اوقات کی تعیین میں اصل ضابطہ وہ ہے جو حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعبہ کے پاس دو بار جبرئیل ( علیہ السلام) نے میری امامت کی۔ پہلی بار ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سایہ تسمہ کی طرح تھا پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز اپنے سایہ کی مثل ہوگئی تھی (یعنی سایۂ اصلی کو چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوچکا تھا) پھر مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب چکتا ہے اور روزہ دار روزہ کھولتا ہے پھر عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہوچکی تھی۔ پھر فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب روشنی کی پو پھٹتی ہے اور روزہ رکھنے والے کے لئے کھانا ممنوع ہوجاتا ہے۔ پھر دوبارہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جس وقت گزشتہ دن کے عصر کے وقت کی طرح ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوگیا تھا پھر مغرب اوّل وقت کی طرح پڑھائی اور عشا ایک تہائی رات گئے پڑھائی پھر فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب زمین زرد ہوگئی تھی۔ پھر میری طرف رخ کر کے جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا محمد ﷺ آپ سے پہلے انبیاء کا یہی وقت ہے اور ان دونوں (وقتوں) کے درمیان نماز کا وقت ہے۔ رواہ ابو داؤد و ابن حبان فی صحیحہ۔ ترمذی نے اس کو حسن صحیح اور حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن حارث ہے جس کو امام احمد اور نسائی اور ابن معین اور ابو حاتم نے ضعیف کہا ہے۔ مگر ابن سعد اور ابن حبان نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ اسی راویت کا متابع (مؤید) عبدالرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان بھی نقل کیا ہے۔ ابن دقیق العید نے اس کو اچھی متابعت قرار دیا ہے اور ابوبکر ابن العربی اور ابن عبدالبر نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کی امامت والی حدیث چند صحابہ ؓ کی روایت سے آئی ہے حضرت جابر ؓ کی روایت میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں۔ پھر دوسرے دن عشاء کی نماز اس وقت پڑھی جب آدھی رات یا (فرمایا) ایک تہائی رات جا چکی تھی۔ بخاری نے لکھا ہے اوقاتِ (نماز) کے متعلق سب سے زیادہ صحیح حدیث وہ ہے جو حضرت جابر ؓ کی روایت سے آئی ہے۔ حضرت بریدہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کا وقت دریافت کیا۔ ان دونوں یعنی دونوں دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھنا۔ چناچہ زوال آفتاب کے بعد حضور ﷺ نے بلال کو حکم دیا۔ بلال نے اذان دی پھر ان کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حسب الحکم انہوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر جس وقت سورج اونچا سفید اور صاف تھا اس وقت آپ نے بلال ؓ کو حکم دیا اور بلال ؓ نے عصر کی اقامت کہی پھر حسب الحکم مغرب کی اقامت اس وقت کہی جب سورج چھپ گیا تھا پھر حکم کے مطابق عشاء کی اقامت شفق چھپنے کے بعد کہی پھر بتعمیل حکم فجر کی اقامت پو چمکنے پر کہی پھر دوسرا دن ہوا تو حضور ﷺ کے حکم کے موافق ٹھنڈک پڑے۔ ظہر کی تکبیر کہی اور حضور نے خوب ٹھنڈک پڑے ظہر کی نماز پڑھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج اونچا تھا مگر پہلے دن سے تاخیر کی تھی اور مغرب کی نماز شفق چھپنے سے (کچھ) پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز ایک تہائی رات گئے پڑھی اور فجر کی نماز اجالا کر کے پڑھی پھر فرمایا وہ سائل کہاں گیا۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں فرمایا جو (میری نمازیں) تم نے دیکھیں ان کے درمیان تمہارے نماز کے اوقات ہیں۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ کی روایت بھی حضرت بریدہ ؓ کی روایت کی طرح ہے اس روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ حضور ﷺ نے مغرب کو اس وقت تک مؤخر کیا کہ شفق غائب ہونے کے قریب ہوگئی یعنی دوسرے روز۔ رواہ مسلم۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظہر کا وقت (شروع ہوتا ہے) زوال آفتاب سے (اور) اس وقت تک رہتا ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کی لمبائی تک ہوجائے جب تک عصرنہ آجائے اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے کہ دھوپ زرد نہ ہوجائے اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے کہ شفق نہ چھپ جائے اور عشاء کا وقت آدھی رات یعنی وسط رات تک ہے اور فجر کا وقت پو چمکنے سے اس وقت تک ہے کہ سورج برآمد نہ ہوجائے۔ رواہ مسلم۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ مغرب کا شروع وقت سورج غروب ہونے پر ہے اور آخری وقت شفق چھپنے پر اور عشاء کا شروع وقت شفق چھپنے پر ہے اور آخری وقت آدھی رات ہوجانے پر اور فجر کا شروع وقت طلوع فجر سے ہے اور آخری وقت سورج نکلنے تک ہے۔ ترمذی نے یہ حدیث محمد ﷺ بن فضیل کی روایت سے بوساطت اعمش از ابو صالح حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف منسوب کی ہے بخاری نے اس کو غلطی سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ ان تمام احادیث سے جمہور کے قول کی تائید امام مالک (رح) و امام شافعی (رح) کے قول کے خلاف ہو رہی ہے کہ مغرب کا آخری وقت شفق چھپنے تک ہے۔ سورج ڈوبنے تک عصر کا آخری وقت رہنا آیت : اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بالْعَشِیِّ الصّٰفِءَاتُ الْجِیَادُ فَقَالَ اِنِّیْ اَجْبَتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ حَتّٰی تَوَرَاَتْ بالْحِجَابٍسے مستفاد ہے اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ جس نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی (نماز کی) ایک رکعت پا لی اس نے فجر (کی نماز) پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی (نماز کی) ایک رکعت پا لی اس نے عصر کی (نماز) پا لی۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ عشاء کا آخری وقت طلوع فجر تک رہنا کسی حدیث میں نہیں آیا۔ نہ صحیح میں نہ ضعیف میں۔ عشاء کے آخری وقت کی تعیین کے متعلق احادیث میں (لفظی) اختلاف ہے حضرت ابن عباس ؓ حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری اور حضرت ابو سعید خدری کی روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک تہائی رات تک عشاء کو مؤخر کیا اور حضرت ابوہریرہ ؓ و حضرت انس ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ آدھی رات ہونے تک عشاء میں تاخیر کی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ عشاء میں اتنی تاخیر کی کہ دو تہائی رات چلی گئی۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ عشاء کی نماز حضور ﷺ نے اس وقت پڑھی کہ بیشتر رات گزر چکی تھی۔ یہ تمام احادیث صحاح میں موجود ہیں۔ طحاوی نے لکھا ہے ان احادیث کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پوری رات عشاء کی نماز کا وقت ہے لیکن مراتب کا فرق ہے۔ ایک تہائی رات تک افضل ہے اس کے بعد نصف رات تک فضیلت کم ہے اور نصف کے بعد سب سے کم درجہ ہے۔ طحاوی نے اپنی سند سے نافع بن جبیر کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کو لکھا تھا ‘ عشاء کی نماز رات کے جس حصہ میں چاہو پڑھو مگر اس سے غفلت نہ کرنا۔ مسلم نے لیلۃ التعریس کے قصہ میں حضرت ابو قتادہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نیند میں کوئی قصور نہیں (یعنی نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہوجائے تو یہ قصور نہیں) بلکہ قصور اس میں ہے کہ کسی (وقت کی) نماز میں اتنی تاخیر کی جائے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔ اس حدیث کے آخری جملہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہے۔ اس کے علاوہ علماء کا اجماع ہے کہ اگر رات کا کچھ حصہ باقی ہو اور اس وقت کوئی کافر مسلمان ہوجائے یا حیض والی عورت پاک ہوجائے یا لڑکا بالغ ہوجائے تو عشاء کی نماز اس پر واجب ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کی امامت والی حدیث اور رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا سائل کو اوقات کی تعلیم میں جو عشاء کا وقت ثلث شب یا نصف شب تک بیان کیا گیا ہے تو اس سے مراد غیر مکروہ مستحب وقت ہے۔ اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا اوّل وقت سے مغرب کی نماز میں تاخیر مکروہ ہے۔ مگر تنزیہی مکروہ تحریمی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سقوط شفق تک مغرب میں تاخیر کی تھی۔ مگر عشاء کی نماز میں اس وقت سے تاخیر کرنا جس وقت حضور ﷺ نے (دوسرے دن) نماز پڑھی تھی اور آفتاب میں زردی آنے تک عصر کی نماز میں تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے ( رسول اللہ ﷺ سے اس کا ثبوت نہیں ہے) اور آفتاب کے زرد ہونے تک عصر میں تاخیر کرنا تو سخت ترین مکروہ ہے کیونکہ اس وقت نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے اور اس کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ رہی امامت جبرئیل ( علیہ السلام) کی وہ حدیث جس میں عصر کا وقت (صرف) اس وقت تک بیان کیا گیا ہے کہ ہر شے کا سایہ دو مثل ہوجائے تو یہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے منسوخ ہے کہ وقت عصر اس وقت تک ہے جبکہ سورج زرد نہ ہوجائے۔ ظہر کا آخری وقت دو مثل سایہ تک رہنا کسی حدیث میں نہیں آیا۔ نہ صحیح میں نہ ضعیف میں اسی لئے اس مسئلہ میں امام صاحب کے دونوں شاگردوں ‘ امام ابو یوسف اور امام محمد (رح) : کا قول بھی امام کے خلاف اور جمہور کے موافق ہے لیکن امام اعظم (رح) نے اپنے مسلک کی تائید میں حضرت بریدہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ دوسرے روز رسول اللہ ﷺ کے موافق حضرت بلال ؓ نے ظہر کی اقامت ٹھنڈک پڑے کہی اور حضور ﷺ نے ظہر کی نماز خوب ٹھنڈک ہوئے پڑھی۔ نیز رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جب سخت گرمی ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہوتی ہے۔ رواہ السنۃ۔ امام اعظم (رح) نے فرمایا ان کے ملک (یعنی مدینہ) میں ایسے وقت جب کہ ہر چیز کا سایہ (صرف) ایک مثل ہوتا تھا سخت گرمی ہوتی تھی اس لئے ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھنے والی حدیث۔ امامت جبرئیل ( علیہ السلام) والی حدیث کی ناسخ ہے کیونکہ امامت جبرئیل ( علیہ السلام) والی حدیث تو اوقات صلوٰۃ کی تعیین میں سب سے پہلی حدیث ہے لہٰذا ابراد ظہر والی حدیث سے حدیث امامت جبرئیل منسوخ ہے اور جب حدیث امامت جبرئیل کا منسوخ ہونا ثابت ہوگیا تو اوّل وقت عصر جس میں جبرئیل نے امامت کی تھی وہ بھی منسوخ ہوگیا کیونکہ آیت اِنَّ الصَّلٰوَۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا کا تقاضا ہے کہ ہر نماز کا جدا وقت ہو اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ نماز کو اتنا موخر کرنا کہ دوسری نماز کا وقت آجائے تفریط ہے لیکن دوسرے دن جو دو مثل سایہ ہونے پر حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے عصر کی امامت کی تھی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا اور یہ منسوخ نہیں ہوا لہٰذا یہ حکم باقی رہے گا اور عصر کے اس مقررہ وقت کے شروع ہونے تک ظہر کا وقت ہوگا۔ امام صاحب (رح) : کا یہ استدلال ضعیف ہے۔ حدیث ابراد اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ ایک مثل سایہ ہونے کے بعد بھی ظہر کا وقت باقی رہتا ہے بلکہ وقت کی خنکی ایک اضافی امر ہے اصل شدت حرارت تو زوال کے وقت ہوتی ہے ‘ وقت زوال کی گرمی کے مقابلہ میں ایک مثل سایہ ہونے سے کچھ پہلے قدرے خنکی تو ہو ہی جاتی ہے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کے ملک میں ایک مثل سایہ ہونے کے وقت گزشتہ وقت سے زیادہ گرمی ہوتی تھی تو پھر ابراد کے امر کا تقاضا ہے کہ شروع وقت میں نماز پڑھی لی جائے (تاکہ ایک مثل سایہ ہونے کے وقت جو گرمی کی تیزی ہوتی ہے اس سے پہلے ہی نماز ہوجائے) واللہ اعلم۔ مسئلہ : جمہور کے نزدیک شفق (سے مراد) افق کی سرخی ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول بھی (ایک ضعیف) روایت میں یہ ہی آیا ہے لیکن آپ کا مشہور مسلک یہ ہے کہ شفق وہ سفیدی ہے جو سرخی کے بعد آتی ہے۔ لفظ شفق دونوں معنی میں مشترک ہے اور (شفق سے کون سا معنی مراد ہے بہرحال یہ امر غیر یقینی ہے اور) شک کی صورت میں نہ مغرب کا وقت ختم ہوگا نہ عشاء کا وقت شروع ہوگا ‘ پھر احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ (شفق سے سفیدی مراد لی جائے) کیونکہ وقت کے بعد نماز جائز ہے (زیادہ سے زیادہ یہ کہ قضاء ہوگی) اور وقت سے پہلے جائز ہی نہیں ہے۔ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ شفق سرخی ہے جب شفق چھپ گئی (عشاء کی) نماز واجب ہوگئی۔ ابن عساکر نے یہ حدیث غرائب مالک میں دو طرح سے روایت کی ہے۔ (1) عتیق بن یعقوب از مالک از نافع از ابن عمر ؓ مرفوعاً ۔ (2) ابو حذافہ از مالک۔ اوّل روایت کو سنداً ابن عساکر نے ترجیح دی ہے۔ بیہقی نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو صحیح کہا ہے۔ حاکم نے المدخل میں ابو حذافہ (رح) کی روایت نقل کی ہے اور ان موقوف احادیث کی مثال میں پیش کیا جن کو اصحاب تخریج نے مرفوع کہا ہے۔ ابن خزیمہ نے بروایت محمد بن یزید واسطی از شعبہ از قتادہ از ابو ایوب از ابن عمر ؓ ۔ ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو مرفوعاً بیان کیا ہے کہ مغرب کا وقت شفق کی سرخی جانے تک ہے۔ ابن خزیمہ نے لکھا ہے اگر ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث پایۂ صحت کو پہنچ جائے تو پھر باقی روایات کی ضرورت نہیں رہتی مگر یہ الفاظ صرف محمد بن یزید نے بیان کئے ہیں اور اصحاب شعبہ نے حمرۃ الشفق کی جگہ ثور الشفق کا لفظ نقل کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ محمد بن یزید صدوق (بہت ہی سچا) ہے۔ بیہقی نے یہ حدیث حضرت عمر ؓ ‘ حضرت علی ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ ‘ حضرت عبادہ ؓ بن صامت ‘ حضرت شداد بن اوس اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات سے نقل کی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھی جب احد کے دن واپس لوٹ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے ایک جماعت کو بھیجا مگر انہوں نے اپنے زخموں کی شکایت کی اس پر اللہ نے آیات مندرجۂ ذیل نازل فرمائیں۔
Top