Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 107
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ
وَلَا تُجَادِلْ : اور نہ جھگڑیں عَنِ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ِاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ كَانَ : جو ہو خَوَّانًا : خائن (دغا باز) اَثِيْمًا : گنہ گار
اور لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا
ولا تجادل عن الذین یختانون انفسہم . اور تم کوئی جواب دہی نہ کرو ان لوگوں کی طرف سے جو کہ اپنا خود ہی نقصان کر رہے ہیں چونکہ ان کو اپنی خیانت کاری کا نتیجہ ‘ بدخود ان ہی کی طرف لوٹتا ہے اس لئے دوسروں کے ساتھ خیانت کرنے کو خود اپنے ساتھ خیانت کرنا قرار دیا۔ یختانون کی ضمیر ابن ابیرق اور اوس جیسے لوگوں کی طرف راجع ہے یا یوں کہا جائے کہ ابن ابیرق اور اس کی قوم والے مراد ہیں کیونکہ ابن ابیرق کی قوم والے بھی مددگار جرم تھے انہوں نے ہی رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ حضور ﷺ ابن ابیرق کی طرف سے وکالت کریں۔ ان اللہ لا یحب بیشک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا یعنی مبغوض جانتا ہے۔ من کان خوانا اس کو جو بڑا خائن ہو یعنی خیانت پر جم جانے والا ہو۔ اثیما گناہگار ہو یعنی جھوٹ بول کر حق کا انکار کر کے اور بےقصور پر تہمت لگا کر جو گناہگار ہوتا ہے اللہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ آیت میں خطاب اگرچہ رسول اللہ ﷺ : کو ہے۔ مگر مراد خطاب دوسرے لوگ ہیں (کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں تو یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ﷺ خیانت کاروں کے طرفدار ہوں گے) جیسے آیت فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِمَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ (میں اگرچہ مخاطب رسول اللہ ﷺ ہیں مگر مراد دوسرے لوگ ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ : کو تو قرآن کی صداقت میں شک ہونا ممکن ہی نہ تھا) استغفار سے مراد ہے حکم شرع کو ماننا اور اطاعت کرنا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ انبیاء کی استغفار کی تین صورتیں ہیں (1) نبوت سے پہلے کے گناہ کے لئے استغفار۔ (2) اپنی امت اور اہل قرابت کے گناہوں کے لئے استغفار (3) اس مباح فعل کے لئے استغفار جس کی شرعی ممانعت آنے پر اس کو چھوڑ دیا۔
Top