Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 125
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا
وَمَنْ : اور کون۔ کس اَحْسَنُ : زیادہ بہتر دِيْنًا : دین مِّمَّنْ : سے۔ جس اَسْلَمَ : جھکا دیا وَجْهَهٗ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَھُوَ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکو کار وَّاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَاتَّخَذَ : اور بنایا اللّٰهُ : اللہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم خَلِيْلًا : دوست
اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا اور وہ نیکوکار بھی ہے۔ اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے جو یکسوں (مسلمان) تھے اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا
ومن احسن دینا ممن اسلم وجہہ للہ . اور ایسے شخص سے اچھا دین کس کا ہوگا جو اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے یعنی جس نے اپنی ذات کو اللہ کے لئے خالص کردیا کہ اس کے قلب کی کوئی علمی یا میلانی وابستگی اور آوپختگی غیر خدا سے نہیں رہی۔ دل اور سارا بدن اللہ کے اوامرو نواہی کا پابند ہوگیا یہاں تک کہ عالم امکان میں اپنا یا کسی اور کا کوئی وجود اصلی حقیقی اس کو نظر ہی نہیں آتا کسی کے مستقل وجود یا کسی کو معبود و محبوب ماننے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ انکار کو بصورت استفہام ذکر کرنے سے کمال انکار کی طرف اشارہ ہے۔ وہو محسن . ایسی حالت میں کہ وہ اچھے کام کرنے والا بھی ہے یعنی نیک اعمال کرتا اور برے کام چھوڑ دیتا اور ہمیشہ حضور قلبی اور اخلاص رکھتا ہے۔ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ احسان (اعمال کی خوبی) کیا ہے تو آپ نے فرمایا (عبادت کی خوبی یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے اللہ کو (اس وقت اپنی نظر سے) دیکھ رہے ہو پس اگر تم اس کو نہیں دیکھ پاتے تو وہ تو یقیناً تم کو دیکھتا ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت عمر ؓ ہیں۔ متفق علیہ۔ واتبع ملۃ ابراہیم . اور چلا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر۔ یوں تو تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے۔ اپنی ذات اور اعضاء بدن اور اندرونی بیرونی قوتوں کو اللہ کی رضامندی میں لگا دینا ہی دین انبیاء ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیم کے دین کا تذکرہ صرف اس وجہ سے کیا کہ آپ کی نبوت پر تمام اقوام کا اتفاق ہے اور ہر دین میں آپ کی حقانیت مسلم ہے پھر دین اسلام بکثرت فروعی مسائل میں شریعت ابراہیمی کے موافق ہے مثلاً کعبہ کی طرف نماز ‘ کعبہ کا طواف ‘ مناسک حج ‘ ختنہ ‘ مہمان نوازی اور وہ محاسن فطریہ جن کی تکمیل کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا اور وہ اس امتحان میں پورے اترے اور یہ تمام احکام شریعت اسلامیہ میں باقی رکھے گئے۔ حنیفا . یعنی ابراہیم یا ان کی ملت ابراہیم پر حنیف ہو کر چلنے والا مراد ہے۔ حنیف سے مراد ہے تمام باطل راستوں سے منہ موڑ کر راہ حق پر چلنے والا۔ حضرت ابراہیم نے بت پرستی سے منہ موڑ لیا تھا باوجودیکہ آپ کے باپ کے خاندان اور قوم والے سب کے سب بت پرست تھے مگر آپ نے سب کو چھوڑ کر راہ مستقیم اختیار کی۔ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا . اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا خالص دوست بنایا تھا۔ خلیل سچا دوست خالص محبت والا۔ لفظ خُلّۃٌ کا اشتقاق یا خلال سے ہے (خلال کا معنی ہے گھس جانا مخلوط ہوجانا) خُلَّت (اور باطنی محبت) بھی دل کے اندر گھس جاتی اور نفس میں مخلوط ہوجاتی ہے۔ یا خلل سے مشتق ہے (خلل کا معنی ہے رخنہ شگاف) دو گہرے دوستوں میں سے ہر ایک دوسرے کی حاجت روائی کرتا اور اس کی حالت کے بگاڑ کو درست کرتا ہے اس لئے دونوں کو خلیل کہا جاتا ہے۔ زجاج نے کہا خلیل وہ ہے جس کی محبت میں کوئی رخنہ نہ ہو یا خل سے مشتق ہے۔ خل اس راستہ کو کہتے ہیں جو ریت کے اندر ہو۔ دو خلیل بھی دوستی کے راستہ پر برابر گامزن اور ہم طریق ہوتے ہیں یا خلت سے ماخوذ ہے خلتکا معنی ہے خصلت دونوں دوستوں کی خصلت ایک ہی ہوتی ہے اس لئے ان کو خلیل کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل کہنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ صرف اللہ کے محتاج تھے مخلوق کے سامنے اپنی حاجت نہیں پیش کرتے تھے۔ (1) [ آپ دیتے تھے لیتے نہ تھے اور اللہ کے سوا کسی کی طرف اپنا رخ نہیں کرتے تھے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے دریافت کیا جبرئیل اللہ ( علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل کس وجہ سے بنایا حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا (مخلوق کو) کھانا کھلانے کی وجہ سے۔ ابن المنذر نے ابن ابزی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ملک الموت سے پوچھا میرے رب نے مجھے خلیل کس وجہ سے بنایا ملک الموت نے جواب دیا اس لئے کہ آپ (مخلوق کو) دینا پسند کرتے تھے لینا پسند نہیں کرتے۔ دیلمی نے حضرت ابوہریرہ ؓ وغیرہ کی روایت سے اس قول کو رسول اللہ ﷺ کا بیان قرار دیا ہے۔ مگر اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ زبیر بن بکار کا قول ہے کہ اللہ نے ابراہیم کے پاس وحی بھیجی کیا تم واقف ہو کہ میں نے تم کو خلیل کیوں بنایا ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھے نہیں معلوم ‘ اللہ نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے تیرے دل کو دیکھا تو میں نے پایا کہ تو دینا پسند کرتا ہے اور یہ پسند نہیں کرتا کہ تجھے دیاجائے۔] روایت میں آیا ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا اس وقت آپ کے پاس جبرئیل ( علیہ السلام) آئے اور پوچھا کیا آپ کو مدد کی ضرورت ہے فرمایا آپ کی مدد کی ضرورت نہیں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے کہا تو اپنے رب سے ہی دعا کیجئے۔ فرمایا وہ میرے حال کو جانتا ہے اس کو میرے سوال کی ضرورت نہیں۔ ایک سوال اگر خلیل کو خلت بمعنی حاجت سے مشتق مانا جائے تو آیت کا معنی درست نہ ہوگا کیونکہ اس وقت احتیاج دونوں طرف سے ہونی چاہئے حالانکہ اللہ کا محتاج ہونا قابل تصور بھی نہیں ہے۔ جواب : ہم شروع کتاب میں بیان کرچکے ہیں کہ اللہ پر اسماء وصفی کا اطلاق حقیقی نہیں مجازی ہے اور نتائج کے لحاظ سے ہوتا ہے (جو افعال ہیں) مبادی کے اعتبار سے نہیں ہوتا (جو تاثرات و انفعالات ہیں) مثلاً رحمن و رحیم اللہ کے دو صفی نام ہیں دونوں کا اشتقاق رحمت سے ہے اور رحمت کا معنی ہے رقت قلب جو حسن سلوک اور مہربانی کی مقتضی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کا قلب نہیں نہ اس کے اندر رقب قلب پیدا ہوتی ہے (رقب قلب تو ایک قسم کا تاثر ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور خدا ہر اثر پذیری سے پاک ہے اثر پذیری عجز کی علامت ہے) بلکہ رقت قلب کا جو لازمی تقاضا ہے یعنی دوسرے پر مہربانی کرنا اور حسن سلوک کرنا اس کے اعتبار سے اللہ پر رحمن و رحیم کا اطلاق ہوتا ہے (پس رحمن و رحیم کا ترجمہ ہوا مہربان۔ رقیق القلب۔ ترجمہ درست نہیں) اسی طرح اللہ پر خلت کا اطلاق مجازی ہے یعنی خالص محبت۔ حاجت کا مفہوم مراد نہیں ہے۔ (اگرچہ محبت نتیجہ ہوتا ہے حاجت کا پس نتیجۂ حاجت یعنی خالص محبت مراد ہے مبدء محبت یعنی حاجت مراد نہیں ہے) وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً جملۂ معترضہ ہے وسط کلام میں اس کا ذکر اتباع ملت ابراہیمی کے وجوب کو مؤکد طور پر ظاہر کرنے کے لئے کیا گیا ہے کیونکہ جو شخص اتنے اونچے مرتبہ پر فائز ہوجائے کہ اللہ اس کو اپنا خلیل بنا لے یقیناً اس کا اتباع لازم ہے۔ مجدد الف (رح) ثانی نے فرمایا خلیل وہ ندیم اور ہم نشین ہوتا ہے جس کے سامنے آدمی اپنے محب اور حبیب کے راز ظاہر کرتا ہے۔ عبدالرزاق اور ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیروں میں زید بن اسلم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ زمین پر سب سے اوّل جبار نمرود تھا لوگ اس سے آکر کھانے کے لئے اناج مانگتے اور وہ دیتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک بار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس سے غلہ لینے گئے جب لوگ اس کے پاس پہنچے تو اس نے پوچھا تمہارا پالنہار کون ہے لوگوں نے کہا آپ (اس نے غلہ دے دیا) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی باری آئی اور آپ پہنچے تو نمرود نے پوچھا تیرا رب کون ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میرا مالک وہ ہے جس کے قبضہ میں موت و زندگی ہے نمرود نے کہا میں بھی موت و زندگی دیتا ہوں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے (اگر تجھے رب ہونے کا دعویٰ ہے تو) تُو اس کو مغرب کی طرف سے لے آ۔ یہ بات سن کر وہ منکر خدا لاجواب ہوگیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بغیر اناج دیئے واپس کردیا ‘ واپسی میں آپ کا گزر خاکستری رنگ کے ایک ریت ٹیلے کی طرف سے ہوا آپ نے سوچا کہ گھر والوں کو بہلانے کے لئے مجھے یہی ریت کچھ لے لینا چاہئے تاکہ میرے پہنچتے ہی ان کو مایوسی نہ ہو (رات گزرنے کے بعد صبح ہوگی تو دیکھا جائے گا) یہ سوچ کر آپ نے کچھ ریت لے لی اور گھر پہنچ کر سامان اتار کر رکھ دیا اور سو گئے (رات میں) بیوی نے اٹھ کر سامان کھولا تو اندر سے اعلیٰ قسم کا غلہ نکلا ‘ اس نے فوراً اس میں سے کچھ لے کر کھانا تیار کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے لے آئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جس وقت گئے تو گھر میں کچھ کھانا نہیں تھا اب کھانا سامنے آیا تو پوچھا یہ کہاں سے تیار کیا گیا بیوی نے کہا اسی غلہ سے تیار کیا گیا ہے جو آپ لے کر آئے تھے اس وقت آپ سمجھ گئے کہ یہ اللہ نے عطا فرمایا ہے اس پر اللہ کا شکر کیا۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابو صالح کی روایت سے لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) غلہ لینے گئے اور کچھ ہاتھ نہ آیا اور واپسی میں ایک سرخ ٹیلہ کی طرف سے گزرے تو اس سے کچھ (مٹی ریت) لے لیا اور گھر لوٹ آئے۔ گھر والوں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا سرخ گیہوں۔ گھر والوں نے کھول کر دیکھا تو سرخ گیہوں برآمد ہوئے (یہ عجیب گیہوں تھے) جب ان میں سے کچھ بیج لے کر بویا گیا تو جڑ سے پھنگچی تک تہ بر تہ گیہوں کی بالیاں برآمد ہوئیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے آپ کا مکان سر راہ تھا جو ادھر سے گزرتا آپ اس کی میزبانی کرتے تھے۔ ایک بار کال پڑا لوگ کھانا طلب کرنے حضرت کے دروازے پر جمع ہوگئے آپ کے لئے غلہ کی رسد ہر سال مصر سے ایک کے پاس سے آیا کرتی تھی اس سال بھی آپ نے اپنے غلاموں کو اونٹ دے کر اس مصری دوست کے پاس بھیجا تاکہ غلہ کی رسد لے آئیں دوست نے غلاموں سے کہا اگر ابراہیم اپنے لئے طلب کرتے تو ہم ان کی خاطر اس بار کو اٹھا بھی لیتے کیونکہ جو مصیبت لوگوں پر آئی ہے ہم پر بھی آئی ہے قاصد (ناکام) لوٹ پڑے اثناء راہ میں ایک وادی کی طرف سے گزر ہوا آپس میں کہنے لگے اونٹ خالی لے جاتے ہوئے تو ہم کو شرم آتی ہے مناسب یہ ہے کہ اس وادی کی کچھ مٹی لے کر ہم بوریوں میں بھر لیں تاکہ لوگ دیکھ کر خیال کریں کہ ہم غلہ لے کر آئے ہیں یہ کہہ کر بوریاں بآسانی بھر لیں اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ کی اطلاع دے دی۔ اس وقت حضرت سارہ ( علیہ السلام) سو رہی تھیں۔ لوگ دروازہ پر تھے حضرت کو یہ بات سن کر بڑا رنج ہوا اسی دوران میں نیند سے مغلوب ہو کر سو گئے سارہ ( علیہ السلام) بیدار ہوئیں تو دن چڑھ گیا تھا کہنے لگیں تعجب ہے غلام نہیں آئے۔ غلاموں نے آواز دی کیوں نہیں ( آ تو گئے) حضرت سارہ ( علیہ السلام) نے کہا تو پھر کچھ لائے نہیں۔ غلاموں نے کہا لائے کیوں نہیں۔ سارہ ( علیہ السلام) اٹھ کر بوروں کے پاس گئیں اور ان کو کھولا تو بڑا کھرا آٹا نکلا۔ آپ نے روٹی پکانے والوں کو حکم دیا۔ حسب الحکم انہوں نے روٹیاں پکائیں اور لوگوں کو کھانا کھلایا اتنے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیدار ہوگئے اور آپ کو کھانے کی خوشبو آئی فرمایا سارہ یہ کہاں سے آیا۔ سارہ نے کہا آپ کے مصری دوست کے پاس سے فرمایا ( نہیں) یہ میرے خلیل کے پاس سے آیا جو اللہ ہے۔ اسی روز اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔ فائدہ : حضور سید الانبیاء ﷺ کا درجہ خلت کے درجہ سے بہت اونچا تھا آپ کا مقام خالص محبوبیت کا مقام تھا۔ مقام خلت کو تو آپ راستہ میں چھوڑ گئے تھے اسی عبور اور تقدم کی وجہ سے آپ ﷺ نے اپنے کو خلیل فرمایا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ اگر (اپنے رب کے علاوہ) میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ لیکن ابوبکر ؓ میرے بھائی اور رفیق ہیں اور اللہ نے تمہارے ساتھی کو خلیل بنا لیا ہے۔ رواہ مسلم من حدیث ابن مسعود۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا اگر اپنے رب کے علاوہ میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ رواہ البخاری و مسلم من حدیث ابی سعید الخدری۔ یہ بھی فرمایا سن لو تمہارا ساتھی اللہ کا خلیل ہے۔ رواہ الترمذی عن ابی ہریرۃ۔ حضرت جندب ؓ کا بیان ہے میں نے خود سنا حضور ﷺ وفات سے پہلے فرما رہے تھے اللہ نے مجھے خلیل بنایا ہے جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا تھا اخرجہ الحاکم وصححہ۔ طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنا لیا تھا اور تمہارا ساتھی بھی اللہ کا خلیل ہے اور قیامت کے دن محمد ﷺ بنی آدم کا سردار ہوگا پھر آپ نے آیت عَسٰی اَنْ یَّبْعُثْکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحَمْوًدًاتلاوت فرمائی۔ (2) [ ترمذی اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ تھے اور واقع میں وہ ایسے ہی تھے (لیکن) سن لو کہ میں اللہ کا حبیب ہوں اور (یہ) فخر نہیں ہے (اظہار واقعہ ہے) سب سے پہلے میں ہی شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی اور (یہ) فخر نہیں ہے اور سب سے پہلے میں ہی جنت کی زنجیر ہلاؤں گا اور اللہ اس کو کھول کر مجسم کو اندر داخل فرمائے گا اس وقت میرے ساتھ فقراء مؤمنین بھی ہوں گے اور (یہ) فخر نہیں ہے اور میں قیامت کے دن تمام اگلوں پچھلوں سے زیادہ معزز ہوں گا اور (یہ) فخر نہیں ہے۔ ابن جریر اور طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے ابراہیم کو خلت کے لئے اور موسیٰ کو کلام کے لئے اور محمد ﷺ کو دیدار کے لئے چن لیا۔ از مؤلف (رح) ۔] حضور ﷺ کا استقرار مقام خلت میں نہ تھا۔ آپ کا مقام اس سے اونچا تھا مقام محبوبیت کا یہی اقتضاء تھا مگر امت کے بعض افراد کے لئے آپ مقام خلت کے خواستگار تھے تاکہ ان افراد کے تفصیلی کمال کا شمار آپ کے کمال میں ہوجائے کیونکہ متعبین کے کمالات مقتدا کے کمال کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ علماء اہل سنت کا اجماعی فیصلہ اصول دین کی کتابوں میں موجود ہے کہ اولیاء کی کرامتیں پیغمبر ﷺ کے معجزات ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کوئی اچھا طریقہ جاری کرے گا اس کو اس طریقہ پر چلنے کا ثواب بھی ہوگا اور ان لوگوں کے عمل کا بھی ثواب ہوگا جو اس طریقہ پر چلیں گے مگر ان چلنے والوں کے ثواب میں اس سے کوئی کمی نہیں آئے گی۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ نیکی کا راستہ بتانے والا بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امت کے اعمال اور کمالات کا شمار رسول اللہ ﷺ کے اعمال اور کمالات میں ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے ان تفصیلی کمالات کو طلب کرنے کے لئے ہی دعا کی تھی اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علٰی ابراہیم وعلی ال ابراہیم اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور ہزار برس کے بعد یہ مقام حضرت مجدد الف ثانی (رح) کو عنایت فرمایا حضرت والا کا مقام مقام خلت قرار پایا اور تفصیلی خلت سے آپ موصوف ہوئے اور یہ تفصیلی خلت آپ ﷺ سے پہلے کسی کو میسر نہ ہوئی اس کی وجہ خواہ یہ ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے اتباع خصوصی کی وجہ سے بعض جلیل القدر صحابہ ؓ اور ائمہ اہل بیت مقام خلت سے اونچے ہو کر درجۂ محبوبیت پر پہنچ گئے تھے (کیونکہ اللہ نے اپنے رسول کی زبان سے کہلوا دیا تھا کہ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہِیا یوں کہا جائے کہ (بعض لوگوں کو خصوصی عنایت سے سرفراز کرنا) اللہ کا سراسر فضل ہے اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے سرفراز فرماتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا میری امت کی حالت بارش کی طرح ہے کہ معلوم نہیں اس کا اوّل حصہ بہتر ہے یا آخر حصہ یا باغ کی طرح ہے جس سے ایک سال ایک جماعت کو اور دوسرے سال دوسری جماعت کو کھانے کو ملتا ہے ہوسکتا ہے کہ دوسرے سال والی جماعت پہلی جماعت سے زیادہ فراخ اور وسیع رزق والی اور اس سے زیادہ خوش حال ہو۔ رواہ رزین من حدیث جعفر بن محمد ؓ ۔ یہ مسئلہ صحیح کشف سے ثابت ہے اگر کوئی اس کو نہیں مانتا تو نہ مانے ‘ ہماری گفتگو ان لوگوں سے ہے جو بات سنتے اور اچھی بات پر چلتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرما دی ہے اور یہی گروہ اہل دانش کا ہے۔ میں نے یہ بات اس لئے کہی کہ بعض کوتاہ فہم لوگ حضرت مجدد (رح) کے کلام پر طعن کرتے بلکہ اس مقام پر جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اس کو کفر قرار دیتے ہیں۔ مجدد صاحب (رح) نے اس جگہ جو کچھ فرمایا وہ کسی ناممکن امر کا دعویٰ نہیں ہے بزرگوں سے حسن ظن رکھنے کا تقاضا ہے کہ اس کو تسلیم کرلیا جائے یا کم از کم سکوت ہی اختیار کیا جائے۔ ( رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں) بعض لوگ کہتے تھے کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اتارا گیا ؟ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کیا یہ لوگ اللہ کی رحمت خود تقسیم کر رہے ہیں (کہ جس کو چاہا پیغمبر بنا دیا) کچھ لوگ کہتے تھے کیا ہم میں سے اس شخص پر قرآن اتارا گیا (ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا) یہ بڑا جھوٹا ہے اللہ نے جواب میں فرمایا کل کو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ بڑا جھوٹا اترانے والا کون ہے اگر بعض جلیل القدر صحابہ ؓ اور ائمہ اہل بیت مقام محبوبیت پر فائز تھے تو اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ان بزرگوں کی برتری لازم نہیں آتی کیونکہ ان کو جو کچھ ملا وہ دوسروں کا اتباع کرنے سے اور وراثت کے طور پر ملا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جو کچھ ملا وہ بالذات اور بلاوسیلہ تھا اور دونوں میں بڑا فرق ہے۔ حضرت مجدد (رح) مقام خلت پر فائز تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کی ترقی ختم ہوگئی یہ تو وقفۂ راہ ہے منزل نہیں ہے مقام خلت سے آگے بڑھ کر آپ کی رفتار مقام محبوبیت کی جانب تھی اگرچہ بالتبع اور بالواسطہ تھی۔
Top