Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 12
وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ١ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ۙ غَیْرَ مُضَآرٍّ١ۚ وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌؕ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے نِصْفُ : آدھا مَا تَرَكَ : جو چھوڑ مریں اَزْوَاجُكُمْ : تمہاری بیبیاں اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّھُنَّ : ان کی وَلَدٌ : کچھ اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو لَھُنَّ وَلَدٌ : ان کی اولاد فَلَكُمُ : تو تمہارے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا تَرَكْنَ : اس میں سے جو وہ چھوڑیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْنَ : وہ وصیت کرجائیں بِھَآ : اس کی اَوْ دَيْنٍ : یا قرض وَلَھُنَّ : اور ان کے لیے الرُّبُعُ : چوتھائی مِمَّا : اس میں سے جو تَرَكْتُمْ : تم چھوڑ جاؤ اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّكُمْ وَلَدٌ : تمہاری اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَكُمْ : ہو تمہاری وَلَدٌ : اولاد فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے الثُّمُنُ : آٹھواں مِمَّا تَرَكْتُمْ : اس سے جو تم چھوڑ جاؤ مِّنْۢ بَعْدِ : بعد وَصِيَّةٍ : وصیت تُوْصُوْنَ : تم وصیت کرو بِھَآ : اس کی اَوْ : یا دَيْنٍ : قرض وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو رَجُلٌ : ایسا مرد يُّوْرَثُ : میراث ہو كَلٰلَةً : جس کا باپ بیٹا نہ ہو اَوِ امْرَاَةٌ : یا عورت وَّلَهٗٓ : اور اس اَخٌ : بھائی اَوْ اُخْتٌ : یا بہن فَلِكُلِّ : تو تمام کے لیے وَاحِدٍ مِّنْهُمَا : ان میں سے ہر ایک السُّدُسُ : چھٹا فَاِنْ : پرھ اگر كَانُوْٓا : ہوں اَكْثَرَ : زیادہ مِنْ ذٰلِكَ : اس سے (ایک سے) فَھُمْ : تو وہ سب شُرَكَآءُ : شریک فِي الثُّلُثِ : تہائی میں (1/3) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصٰى بِھَآ : جس کی وصیت کی جائے اَوْ دَيْنٍ : یا قرض غَيْرَ مُضَآرٍّ : نقصان نہ پہنچانا وَصِيَّةً : حکم مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَلِيْمٌ : حلم والا
اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے
ولکم نصف ما ترک ازواجکم ازواج سے مراد ہیں بیویاں۔ ان لکم یکن لھن ولدہ تمہارا موروثی حصہ اپنی بیویوں کے ترکہ میں سے (کل ترکہ کا) نصف ہے بشرطیکہ ان کی (بطنی) اولاد (صاحب فرض اور عصبہ موجود) نہ ہو (یعنی اولاد یا اولاد کی اولاد غرض نسل میں سے کوئی موجود نہ ہو) فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن اور اگر ان کی (نسلی ذوی الفرضی یا عصبہ) اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارا چہارم ہے۔ من بعد وصیۃ یوصین بھا او دین ان کی وصیت (تہائی مال سے) پوری کرنے اور (کل مال سے) قرض ادا کرنے کے بعد۔ و لھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولدہ اور (بیویاں چند ہوں یا ایک ان سب کیلئے تمہارے ترکہ کا چہارم ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو یعنی صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد نہ ہو) فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم اور اگر تمہاری اولاد موجود ہو تو تمہاری بیویوں کے لیے تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ہے۔ من بعد وصیۃ توصون بھا او دین تمہاری وصیت (تہائی مال سے) پوری کرنے اور (کل مال سے) قرض ادا کرنے کے بعد۔ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اور شوہر نے صحیح طلاق دی ہو تو وہ وارث ہوتی ہے اگر طلاق بائن کی عدت میں ہو تو وارث نہیں ہوتی۔ شوہر نے اگر مرض موت میں طلاق رجعی دی تو ایسی مطلقہ بالاجماع وارث ہوتی ہے لیکن یہ مسئلہ ذرا تفصیل طلب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : ایسی عورت اس وقت وارث ہوگی جب شوہر کے مرنے کے وقت عدت میں ہو امام احمد نے فرمایا : عدت گذر جانے کے بعد بھی وارث ہوگی بشرطیکہ شوہر کی موت سے پہلے اس نے نکاح جدید نہ کرلیا ہو امام مالک نے فرمایا : اگر شوہر کے مرنے سے پہلے اقتضائے عدت کے بعد اس نے کسی سے نکاح بھی کرلیا ہو تب بھی وارث ہوگی۔ امام شافعی کے تین مختلف قول منقول ہیں ہر قول ایک امام کے موافق ہے اگر مرض موت میں شوہر نے طلاق بائن دی ہو تب بھی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا یہی قول ہے مگر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس صورت میں وارث ہونے کی یہ شرط ہے کہ عورت نے خود طلاق کی درخواست نہ کی ہو ورنہ سمجھا جائے گا کہ وہ خود اپنے حق کے سوخت ہونے پر راضی ہے (اس لیے اس کو میراث نہیں دی جائے گی) امام شافعی کے دو قول آئے ہیں قوی قول یہ ہے کہ طلاق بائن والی عورت وارث نہ ہوگی۔ امام احمد نے معمر کی روایت سے لکھا ہے کہ غیلان بن سلمہ کی مسلمان ہونے کے وقت دس بیویاں تھیں رسول اللہ نے فرمایا : ان میں سے چار کا انتخاب کرلو (باقی کو چھوڑ دو ) جب حضرت عمر ؓ کا دور آیا تو غیلان نے بیویوں کو (رجعی) طلاقی دیدی اور اپنا مال اپنے لڑکوں کو تقسیم کردیا۔ حضرت عمر کو اس کی اطلاع پہنچی تو فرمایا : میرا خیال ہے کہ جو شیطان (فرشتوں کی گفتگو) چوری سن لیتا ہے اسی نے تیری موت کی خبر سن کر تیرے دل میں ڈال دی ہے اور تجھے بتادیا ہے کہ تو زیادہ مدت زندہ نہیں رہے گا خدا کی قسم یا تو تو اپنی عورتوں سے مراجعت کرلے اور (لڑکوں سے) مال واپس لے لے ورنہ میں ان عورتوں کو تیرا وارث بنا دوں گا اور حکم دیدوں گا کہ جس طرح ابو رغال (دور جاہلیت میں ایک قومی غدار تھا) کی قبر پر سنگ باری کی جاتی ہے اس طرح تیری قبر کو سنگسار کیا جائے۔ یہ حدیث جمہور سلف کے اس مسلک کی تائید کر رہی ہے کہ طلاق رجعی کے بعد (عدت کے اندر) عورت اپنے شوہر کی وارث ہوتی ہے۔ رہا طلاق بائن کے بعد عورت کا وارث ہونا تو جمہور کے اس قول کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنی بیوی کو (جس کا نام تماظر بنت اصبغ بن زیاد تھا اور یہ خاندان کلب میں سے تھی یا بنت عمرو بن الشرید کو جو قبیلہ سلم کی تھی) جب قطعی طلاق دیدی اور عدت پوری ہونے نہ پائی تھی کہ آپ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عثمان نے مطلقہ بیوی کو حضرت عبد الرحمن کا وارث قرار دیا یہ فیصلہ تمام صحابہ کی موجودگی میں صادر کیا اور کس نے بھی اس کا انکار نہیں کیا تو گویا اجماع ہوگیا اور یہ بھی فرمایا : کہ میں عبد الرحمن پر بد گمانی نہیں کرتا میرا مقصد صرف سنت پر عمل کرنا ہے۔ ہمارے مسلک کی تائید حضرت عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عثمان حضرت ابن مسعود اور حضرت مغیرہ ؓ کے اقوال سے ہوتی ہے ابوبکر رازی نے حضرت علی، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن عوف حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زید بن ثابت کے اقوال بھی اسی کی موافقت میں نقل کئے ہیں بلکہ کسی صحابی کا قول اس کے خلاف منقول نہیں نخعی، شعبی، سعید بن مسیب، ابن سیرین، عروہ، شریح، ربیعہ بن عبد الرحمن، طاؤس بن شبرمہ، ثوری، حارث اور حماد بن ابی سلیمان کا بھی یہی مسلک ہے۔۔ ون کان رجل اور اگر کوئی آدمی یعنی میت یا وارث۔ یورث جس کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو یا جس کو وارث بنا یا جا رہا ہو اگر رجل سے مراد میت ہو تو اوّل ترجمہ ہوگا اور اگر وارث مردد ہو تو دوسرا ترجمہ کیا جائے گا۔ کلالۃ ناٹھا نگوڑا ہو۔ کلالہ ا صل لغت میں کلال کی طرح مصدر ہے اور کلال کا معنی ہے تھکناعاجز ہوجانا کَلَّ الرَّجُلُ فِیْ مَشْیِہٖ کَلَالاً فلاں شخص اپنی رفتار میں سست ہوگیا، تھک گیا۔ وکَلَّ السَّیْفُ عَن صربتہ کَلُوْلًا وَ کَلَالَۃً اور تلوار مارنے سے کند ہو گئیکَلَّ اللِّسَنُ عَن الکَلَام زبان بات سے عاجز ہوگئی۔ تیز نہ رہی۔ مجازاً کلالہ سے مراد وہ قرابت دار ہوتے ہیں جن کا آپس میں رشتہ تو الد نہ ہو یعنی باپ دادا اور بیٹے پوتے کا ان کے آپس میں رشتہ نہ ہو۔ یہ بھی ایک قسم کی عاجزی درماندگی ہوتی ہے پھر کلالہ کو ذی کلالہ کے معنی میں استعمال کرلیا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کی نہ اصل ہو نہ نسل کہ اسکی وارث ہو یا یہ اس کا وارث ہو۔ (کذا قال البیضاوی) بغوی نے لکھا ہے کہ کلالہ وہ شخض ہے جس کی نہ اولاد ہو۔ نہ والد۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے یہی فرمایا : گویا دونوں طرف اس کے نسبی ستون کمزور ہیں سعید بن جبیر نے کہا کلالہ وہ وارث ہے جو میت کا نہ والد (باپ دادا پر دادا وغیرہ) ہو نہ اولاد۔ ایسے وارث میت کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں لیکن بیچ میں کوئی نسبی ستون نہیں ہوتا جیسے سر پر بندھی ہوئی شاہی پٹی کہ سر کو چاروں طرف سے محیط ہوتی ہے مگر سر کا درمیانی حصہ خالی ہوتا ہے حضرت جابر والی حدیث میں کلالہ کا یہی مطلب ہے آپ ﷺ نے کہا تھا کہ میرے وارث کلالہ ہیں یعنی نہ میری نرینہ اولاد ہے نہ والد۔ حضرت ابوبکر سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا گیا۔ فرمایا : میں اپنی رائے سے کہتا ہوں اگر صحیح ہوگا تو اللہ کی طرف سے اور غلط ہوگا تو میری طرف سے ہوگا اور شیطان کی طرف سے، میرے خیال میں کلالہ وہ ہے جو نہ (کسی کا) والد ہو اور نہ اولاد جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو فرمایا : ابوبکر ؓ نے جو کچھ کہا مجھے ان کی تردید کرنے سے جھجک آتی ہے (یعنی ٹھیک ہے) (رواہ البیہقی عن الشعبی) ابن ابی حاتم نے بھی اپنی تفسیر میں اس کو نقل کیا ہے اور حاکم نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت عمر کے اس قول کو حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے حضرت ابوہریرہ کی مرفوع حدیث ہے کہ کلالہ کی تشریح میں آپ نے فرمایا : وہ ایسا شخص ہے جو نہ (میت کا) والد ہو نہ مولود۔ (رواہ الحاکم) ابو الشیخ نے حضرت براء کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ سے کلالہ کے متعلق دریافت کیا فرمایا : (میت کے) والد اور اولاد کے سوا (جو وارث ہو وہ) کلالہ ہے۔ ابو داؤد نے مراسیل میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جو والد کو چھوڑے نہ اولاد کو اس کے وارث کلالہ ہوتے ہیں میں کہتا ہوں کہ کلالہ کی تشریح میں والد اور ولد سے مراد ہیں مذکر اصول و فرع پس اگر میت کی ماں یا بیٹی موجود ہو اور باپ اور بیٹا نہ ہو تو وہ کلالہ ہے اس قول کا ثبوت حضرت جابر کی حدیث سے ملتا ہے کیونکہ نزول آیت کے وقت حضرت جابر کی ایک لڑکی موجود تھی، والد نہ تھے آپ کے والد عبد اللہ بن حرام کا انتقال احد کے دن ہوچکا تھا اور بہن بھائی، ماں اور بیٹی کی موجودگی میں بالاتفاق وارث ہوتے ہیں ولد کا لفظ بھی عام ہے پوتا ہے اس میں داخل ہے۔ یہاں تک کہ پوتے کے ساتھ بھائی بھی بالاجماع وارث ہوتے ہیں اسی طرح والد سے مراد بھی عام ہے حقیقی والد ہو یاد ادا کیونکہ کلالہ کی تشریح میں جو ولد کا مفہوم ہے وہی والد کا دونوں میں کوئی فرق نہیں (یعنی جس طرح لفظ ولد پوتے کو شامل ہے اسی طرح دادا بھی لفظ والد کے تحت داخل ہے۔ او امراۃ یا عورت ہو اس کا عطف رَجُلٌ پر ہے یعنی یا کلالہ عورت ہو۔ و لہ ہٗ ضمیر مذکر رَجُلٌ کی طرف راجع ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا ہے یا احدھما کی طرف راجع ہے مرد ہو یا عورت۔ اخ او اخت اور اس میت کا کوئی بھائی یا بہن ہو۔ باجماع اہل تفسیر اس جگہ بھائی بہن سے مراد ہیں اخیافی بھائی بہن۔ حضرت ابی ابن کعب اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی قراءت میں تو یہ صراحۃً آیا ہے۔ بیہقی کا بیان ہے کہ سعد (راوی کے گمان کے مطابق سعد سے مراد ہیں سعد بن ابی وقاص) پڑھتے تھے : وَلَہُ اخٌ اَوْ اُخْتٌ لِاُمِّ ابوبکر بن منذر نے بھی حضرت سعد کی طرف اس قراءت کی نسبت کی ہے۔ زمخشری نے حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب دونوں کی یہی قراءت بیان کی ہے بعض علماء نے حضرت ابن مسعود کی قراءت بھی اسی طرح نقل کی ہے لیکن ابن حجر نے لکھا ہے میں نے ابن مسعود سے کوئی روایت ایسی نہیں دیکھی۔ یہاں سے یہ بات بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ غیر متواتر قراءت پر بھی عمل کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کی اسناد صحیح ہو امام ابوحنیفہ (رح) کا یہی مسلک ہے شافعی نے اس کی مخالفت کی ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا۔ سنو ! اللہ تعالیٰ نے جو آیت سورة نساء کے شروع میں بیان میراث کے سلسلہ میں نازل فرمائی وہ والد اور ولد کے متعلق ہے اور دوسری آیت شوہر بیوی اور اخیافی بھائی اور بہن کے متعلق ہے اور جس آیت پر سورت کو ختم کیا وہ حقیقی بھائیوں اور بہنوں کے متعلق ہے اور جس آیت پر سورة انفال کو ختم کیا وہ ان رشتہ داروں کے متعلق ہے جو اصحاب فرائض نہیں ہیں اللہ کی کتاب میں جن کا تعلق بعض کے ساتھ بعض کا زیادہ ہے۔ فلکل واحد منھما السدس اگر ایک اخیافی بھائی یا بہن ہو تو دونوں میں سے کوئی ایک ہو ہر ایک کے لیے ترکہ کا چھٹا حصہ ہے۔ فان کانوا اکثر من ذالک فھم شرکاء فی الثلث اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں (برابر کے) شریک ہوں گے یعنی اخیافی بھائی بہن اگر دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کا کل حصہ ترکہ کا ایک تہائی ہے اس ایک تہائی میں مرد عورت سب برابر کے شریک ہوں گے استحقاق اور حصہ میں سب مساوی ہیں۔ مسئلہ حماریہ شوہر، ماں، دو اخیافی بھائی، ایک حقیقی بھائی۔ تصحیح مسئلہ 6 سے ہوگی نصف یعنی 3 شوہر کے چھٹا حصہ یعنی 6/1 ماں کا ایک تہائی یعنی 2 اخیافی بھائیوں کے ہونگے حقیقی بھائی چونکہ عصبہ ہے اور اصحاب فرائض سے کچھ نہیں بچا اسلئے حقیقی بھائی کو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک کچھ نہیں ملیگا خواہ حقیقی بھائی ایک ہو یا متعدد۔ امام مالک اور امام شافعی حقیقی بھائی کو اخیافی بھائیوں کے ساتھ تہائی میں شریک کردیتے ہیں۔ طحاوی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر حقیقی بھائی کو اخیافی بھائیوں کے ساتھ میراث میں شریک نہیں کرتے تھے آخر ایک سوال سے لا جواب ہوگئے ایک حقیقی بھائی نے کہا امیر المؤمنین فرض کرلیجئے کہ ہمارا باپ گدھا تھا تو کیا کم سے کم ہم سب ایک ماں کی اولاد نہیں ہیں اس سوال کے بعد حضرت عمر ؓ نے حقیقی بھائیوں کو بھی اخیافیوں کے ساتھ شریک کردیا اسی وجہ سے اس مسئلہ کو حماریہ کہتے ہیں اس مسئلہ کو حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے سنن میں حضرت زید بن ثابت کی طرف بھی نسبت کرکے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس روایت کو صحیح بھی کہا ہے مگر اس کی اسناد میں ایک شخص ابو امیہ بن یعلی ثقفی ہے جو ضعیف ہے حاکم نے بطریق شعبی حضرت علی اور حضرت عمر اور حضرت زید بن ثابت کا بھی یہ قول نقل کیا ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ باپ نے حقیقی بھائیوں کے قرب کو میت سے اور بڑھا دیا (یعنی اخیافی بھائیوں کو میت سے صرف قرب بطنی حاصل ہوتا ہے اور حقیقی بھائیوں کو قرب بطنی بھی اور شرکت صلبی بھی۔ دار قطنی نے بطریق وہب بن منبہ مسعودبن حکم ثقفی کی روایت سے لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی عورت مرجائے اور شوہر ماں چند اخیافی بھائی اور چند حقیقی بھائی چھوڑ جائے تو کیا کیا جائے ؟ حضرت عمر نے حقیقی بھائیوں کو اخیافی بھائیوں کے ساتھ (تہائی میں) شریک کردیا ایک شخص نے عرض کیا آپ نے فلاں سال تو حقیقی بھائیوں کو اخیافیوں کی میراث میں شریک نہیں کیا تھا فرمایا : وہ ویسا ہی رہے گا جو ہم نے کردیا تھا اور یہ ویسا ہی ہوگا جیسا ہم نے فیصلہ کردیا۔ عبد الرزاق نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور بیہقی نے بطریق ابن مبارک معمر کی روایت سے بھی لکھا ہے لیکن اس روایت میں مسعود بن حکم کا نام نہیں ہے بلکہ حکم از ابن مسعود کی روایت ہے نسائی نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر نے سب (اخیافی اور حقیقی) بھائیوں کو شریک کیا تھا اور حضرت علی ؓ نے (حقیقی بھائیوں کو اخیافیوں کے حصہ) میں شریک نہیں کیا۔ مسئلہ اگر میت کا بیٹا یا پوتا یا باپ یا داد اموجود ہو تو اخیافی بھائی بہن باتفاق آراء ساقط ہوجاتے ہیں اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ اگر دادا موجود ہو تو علاقی اور حقیقی بھائی بہن ساقط ہوجاتے ہیں یا نہیں قیاس کا تقاضا ہے کہ ماں موجود ہو تو اخیافی بھائی بہن ساقط ہوجائیں کیونکہ جس شخص کا رشتہ میت سے کسی ذریعہ سے ہو جب وہ ذریعہ خود موجود ہو تو وہ شخص ساقط ہی ہوجاتا ہے لیکن اجماع سلف اس کے خلاف ہے۔ اجماع کے خلاف ہم نے قیاس کو ترک کردیا۔ ترک کی ایک قیاسی وجہ یہ بھی ہے کہ ماں پورے ترکہ کی وارث نہیں ہوتی (لہٰذا اخیافی بھائی بہن کے محروم ہونے کی کوئی وجہ نہیں) ۔ من بعد وصیۃ یوصی بہا جو وصیت کی جائے اس کو پوری کرنے کے بعد۔ او دین غیر مضار اور اداء قرض کے بعد بغیر اس کے کہ ضرر پہنچائے یعنی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرکے یا کسی کے قرض کا جھوٹا اقرار کرکے وارثوں کو ضرر نہ پہنچائے نہ وارثوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہو کہ اللہ کا قرب حاصل کرنا تو مقصود نہ ہو صرف وارثوں کو دکھ پہنچانے کی غرض ہو۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : بعض مرد اور عورتیں ساٹھ برس اللہ کی اطاعت کے کام کرتے ہیں پھر موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (وارثوں کو) ضرر پہنچاتے ہیں اسی وجہ سے دوزخ ان کے لیے واجب ہوجاتی ہے۔ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ نے آیت : مِنْ بعَْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصٰی بِھَآ اَوْ دَیْنٍ غَیْر مُضَارٍّ ۔۔ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم تک تلاوت کی۔ (رواہ احمد والترمذی وابو داؤد وابن ماجہ) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو وارثوں کی میراث کا ٹے گا اللہ قیامت کے دن اس کا جنت کا حصہ کاٹ دے گا۔ (رواہ ابن ماجہ) بیہقی نے شعب الایمان میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کی ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : اگر میں پانچویں حصہ کی وصیت کروں تو چوتھائی مال کی وصیت کرنے سے میرے نزدیک زیادہ اچھا ہے اور تہائی مال کی وصیت کروں تو چوتھائی مال کی وصیت کرنے سے میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔ (رواہ البیہقی) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : 5/1 مال کی وصیت کرنے والا چہارم مال کی وصیت کرنے والے سے افضل ہے۔ (الحدیث رواہ البیہقی) نکتہ اس آیت میں اللہ نے وصیت اور قرض کو عدم ضرر کے ساتھ مشروط کیا اور پہلی آیت میں یہ قید نہیں لگائی حالانکہ وہاں بھی یہ قید ضرروری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرابت توالد یا علاقہ زوجیت کا خود تقاضا ہے کہ وصیت یا اقرار دین سے اس کو ضرر نہ پہنچایا جائے ہاں اخیافی رشتہ دار چونکہ قریبی قرابت نہیں رکھتے اس لیے ان کے معاملہ میں احتمال ہوسکتا تھا کہ کہیں وصیت کرنے اور اقرار کرنے میں ان کو ضرر پہچانے کا جذبہ کار فرما ہو اس لیے اس جگہ قید لگادی۔ فصل وصیت کی مختلف قسمیں ہیں واجب، مستحب، مباح، حرام اور مکروہ۔ اگر میت قرضدار ہو یا اس پر زکوٰۃ یا منت یا حج فرض یا فوت شدہ نماز یاروزہ واجب الادا ہو تو اس وقت قرض اور زکوٰۃ وغیرہ کو ادا کرنے اور نماز روزہ وغیرہ کا فدیہ دینے کی وصیت کرنا واجب ہے پس اس کے کل ترکہ سے قرض ادا کیا جائے اور قرض میں بھی اس قرض کی ادائیگی مقدم ہے جس کا سبب متعین معلوم ہو یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے امام شافعی کے نزدیک ہر قسم کا قرض برابر ہے معلوم السبب ہو یا مجہول السبب۔ قرض کے علاوہ ہر قسم کی وصیت تہائی ترکہ سے پوری کی جائے گی۔ (زیادہ کی وصیت ناقابل تعمیل ہے) اس قسم کی (واجب) وصیت کی طرف سے غفلت کرنا جائز نہیں۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس مسلمان آدمی پر کوئی حق ہو جس کی اس کو وصیت کرنا ہے اسکے لیے درست نہیں کہ دو راتیں بھی بغیر تحریر وصیت کے گذارے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) مسلم کی روایت میں دو راتوں کی جگہ تین راتوں کا لفظ بھی آیا ہے۔ جس پر کوئی حق واجب نہ ہو اس کے لیے 10/1 سے 3/1 ترکہ تک خیرات کرنے کی وصیت کرنا مستحب ہے بشرطیکہ اس کے وارث غنی ہوں اس کا ثبوت گذشتہ احادیث سے ملتا ہے اور اگر وارث نادار ہوں تو ایسی حالت میں وصیت اور خیرات کرنا مکروہ تنزیہی ہے ترک وصیت اولیٰ ہے ترک وصیت میں اقارب کے لیے اس کا مال میراث ہوگا اور خیرات بھی۔ رسول اللہ نے فرمایا : کسی (غیر) مسکین کو خیرات دینا خیرات ہے اور کسی قرابت دار کو خیرات دینا خیرات بھی ہے اور صلہ رحم بھی۔ (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ والدارمی) جس وصیت سے وارثوں کو ضرر پہنچانا مقصود ہو یا ضرر پہنچ رہا ہو ایسی وصیت حرام ہے۔ وصیت من اللہ یہ یوصیکم کا مفعول مطلق تاکیدی ہے یا مضار کا مفعول بہٖ ہے یعنی اللہ نے جو حکم دے دیا ہے کہ تہائی ترکہ سے زائد وصیت نہ ہو یا اولاد اور زوجین و اقارب (قریبہ) کے لیے وصیت نہ ہو اس حکم کو ضرر نہ پہنچایا جائے نہ وصیت کی شرعی حدود سے تجاوز کرکے نہ جھوٹے قرض کا اقرار کرکے۔ وا اللہ علیم اور اللہ ضرر پہنچانے والے کو خوب جانتا ہے۔ حلیم (مگر وہ) حلیم بھی ہے اس لیے عذاب میں جلدی نہیں کرتا۔
Top