Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں
الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یومنون بالجبت الطاغوت . کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کو اللہ کی کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ بتوں پر اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں۔ بیہقی نے دلائل میں اور طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کے حوالہ سے لکھا ہے اور جبت وطاغوت کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ جبت وطاغوتدو بت تھے مشرک ان کی پوجا کرتے تھے اس کی تائید مذکورۂ بالا قصہ سے ہوتی ہے۔ عکرمہ کا ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ حبشی زبان میں جبت کا معنی ہے شیطان۔ میں کہتا ہوں شاید بت کا نام اسی کے نام پر رکھ دیا گیا ہو۔ ابو عبیدہ ؓ : کا بیان ہے کہ جبت وطاغوت اللہ کے علاوہ ہر باطل معبود کو کہتے ہیں۔ مگر طاغوتکا جبت پر عطف چاہتا ہے کہ دونوں الگ الگ ہوں (کیونکہ عطف میں اصل یہ ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ مغایر ہوں) تحقیق (مؤلف کے نزدیک) یہ ہے کہ جبت اصل میں جبس تھا جبس اس شخص کو کہتے ہیں جس میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو سین کو تاء سے بدل دیا گیا۔ اور طاغوت بروزن فعلوت طغیان سے مشتق ہے طغیان کا معنی ہے کفر اور عصیان میں حد سے آگے بڑھ جانا۔ طاغوت کی اصل طغو وت تھی (قاموس و صحاح) اسی لئے حی بن اخطب کو جبت اور کعب بن اشرف کو طاغوت کہا گیا ہے کذا قال الضحاک۔ عمر ‘ شعبی اور مجاہد کا قول ہے کہ جبت کا معنی ہے جادو اور طاغوت کا معنی شیطان۔ محمد بن سیرین نے کہا جبت کاہن اور طاغوت جادوگر۔ سعید بن جبیر اور ابوالعالیہ نے اس کے برعکس کہا ہے۔ بغوی نے اپنی سند سے حضرت قبیصہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیافت (پرندوں کے نام ‘ آواز اور گزرنے سے شگون حاصل کرنا) اور طرق (پتھریاں مارنا اور اس کو شگون جاننا) اور پرندوں کے دائیں بائیں سے اڑ کر جانے کو اپنے مقصد کے لئے اچھا برا اور مضر مفید سمجھنا (یا عام بدشگونی) جبت میں سے ہے جس کے اندر کوئی خیر نہیں۔ (1) [ عیافۃ پرندوں کے ناموں آوازوں اور اڑنے کے راستوں سے اچھا برا شگون لینا عافَ یَعِیْفُ عَیْفًا (باب ضرب) بدشگونی لی۔ گمان کیا ظن کیا (نہایہ) طَرْفٌپتھریاں اور کنکریاں پھینکنا (اور اس کو شگون قرار دینا) جیسے عورتیں کرتی ہیں (نہایہ) طیرۃ بدشگونی لینا اصل میں اسی لفظ کا معنی ہے دائیں بائیں سے پرندوں یا ہر نوں کے گزرنے سے اچھا یا برا شگون لینا (عرف عام میں عام بدشگونی پر اطلاق ہونے لگا) نہایۃ خبلجنون تباہی۔ اصل میں اس کا معنی ہے نقصان خرابی ‘ پھر ہر تباہی کو خبال کہنے لگے۔ (نہایہ)] میں کہتا ہوں بظاہر اس جگہ جبت سے مراد ہیں بت جن کے اندر کوئی خیر نہیں ہوتی اور طاغوت سے مراد ہیں بتوں کے شیطان۔ ہر بت کا ایک شیطان ہوتا تھا جو بت کے اندر سے بولتا تھا اور اس سے لوگوں کو دھوکہ ہوجاتا تھا (ممکن ہے کوئی پجاری پس پردہ بیٹھا ہو اور بت تک اس نے کوئی تار پوشیدہ لگا رکھا ہو اور تار کے ذریعہ سے وہ بولتا ہو جس سے لوگ سمجھتے ہوں کہ بت بول رہا ہے۔ بیہقی نے حضرت ابوالطفیل کی روایت سے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید ؓ : کو عزیٰ کو ڈھا دینے کے لئے بھیجا۔ خالد ؓ نے جا کر ببول کے درخت کاٹ دیئے اور واپس آکر رسول اللہ ﷺ : کو اطلاع دے دی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تجھے کوئی چیز بھی دکھائی دی ‘ خالد ؓ نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا تو تو نے عزیٰ کو ڈھایا ہی نہیں خالد دوبارہ لوٹ کر گئے۔ پجاریوں نے جب خالد ؓ : کو دیکھا تو پہاڑ پر چلے گئے اور بھاگتے میں یہ کہتے جا رہے تھے۔ عزیٰ اس کو پٹ کر دے ورنہ ذلت کے ساتھ مرجا ! اتنے میں ایک کالی ننگی عورت برآمد ہوئی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ اپنے سر اور چہرہ پر خاک اڑا رہی تھی۔ خالد ؓ نے یہ کہتے ہوئے تلوار سونتی۔ عزیٰ اب میں تیرا منکر ہوں۔ تیری پاکی کا اقرار نہیں کرسکتا۔ میں دیکھ چکا ہوں کہ اللہ نے تجھے ذلیل کردیا۔ پھر تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کردیئے اور واپس آکر رسول اللہ : ﷺ کو اطلاع دے دی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں وہ عزیٰ تھی اب ہمیشہ کے لئے تمہارے ملک میں اپنی پوجا کی جانے سے ناامید ہوگئی۔ کذا فی سبیل الرشاد۔ امام احمد اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب کعب بن اشرف (یہودی) مکہ میں پہنچا تو قریش نے اس سے کہا دیکھو یہ ناٹھانگوڑا اپنی قوم سے کٹا ہوا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے حالانکہ ہم حج کے متولی ہیں کعبہ کے دربان ہیں اور حاجیوں کو پانی پلانے والے ہیں کعب نے کہا تم اس سے بہتر ہو اس پر آیت : اِنَّ شَاءِنَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُنازل ہوئی اور مندرجۂ ذیل آیت بھی اتری۔ ویقولون للذین کفروا . اور وہ (کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی) مکہ کے کافروں سے (جیسے ابوسفیان وغیرہ) کہتے ہیں۔ ہولآء اہدی من الذین امنوا سبیلا . وہ (یعنی مکہ کے کافر) محمد ﷺ پر ایمان لانے والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں یعنی دین کے لحاظ سے۔ محمد بن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ قریش بنی غطفان اور بنی قریظہ کی جماعتوں کو مسلمانوں پر جو لوگ چڑھا کر لائے تھے۔ وہ حی بن اخطب سلام بن ابی الحقیق ‘ ابو رافع ‘ ربیع بن ابی الحقیق ‘ ابو عمارہ اور ہودہ بن قیس تھے اور یہ سب بنی نضیر کے قبیلے سے تھے جب یہ لوگ قریش کے پاس پہنچے تو قریش نے کہا یہ علماء یہود ہیں پہلی کتابوں کا علم رکھتے ہیں ان سے دریافت کرو کہ ہمارا مذہب بہتر ہے یا محمد ﷺ کا (جب یہودیوں سے قریش نے یہ سوال کیا تو) یہودیوں نے کہا تمہارا مذہب اس کے مذہب سے بہتر ہے اور تم اس سے اور اس کے ساتھیوں سے زیادہ صحیح راستہ پر ہو اس پر اللہ نے یہ آیت ملکاً عظیماً تک نازل فرمائی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ابوسفیان نے جب کعب سے مذکورۂ بالا سوال کیا تو کعب نے کہا میرے سامنے اپنا مذہب پیش کرو۔ ابوسفیان نے کہا۔ ہم حاجیوں کے لئے کوہان والی اونٹنیاں ذبح کرتے ہیں۔ ان کو پانی پلاتے ہیں مہمانوں کو ٹھہراتے ہیں ‘ قیدیوں کو رہا کراتے ہیں۔ رشتہ داری کو جوڑ رکھتے ہیں۔ اپنے رب کے گھر کو آباد رکھتے ہیں اور اس کا طواف کرتے ہیں اور ہم اہل حرم ہیں اور محمد ﷺ نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ رشتہ داریاں کاٹ دیں۔ حرم کو چھوڑ گیا۔ ہمارا مذہب قدیم ہے۔ محمد ﷺ کا مذہب نیا ہے یہ سن کر کعب بولا خدا کی قسم تم محمد ﷺ کے راستے سے زیادہ صحیح راستہ پر ہو۔
Top