Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 255
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ١ؕ وَ كَفٰى بِجَهَنَّمَ سَعِیْرًا
فَمِنْھُمْ : پھر ان میں سے مَّنْ اٰمَنَ : کوئی ایمان لایا بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : کوئی صَدَّ : رکا رہا عَنْهُ : اس سے وَكَفٰى : اور کافی بِجَهَنَّمَ : جہنم سَعِيْرًا : بھڑکتی ہوئی آگ
پھر لوگوں میں سے کسی نے تو اس کتاب کو مانا اور کوئی اس سے رکا (اور ہٹا) رہا تو نہ ماننے والوں (کے جلانے) کو دوزخ کی جلتی ہوئی آگ کافی ہے
فمنہم من امن بہ . پس کچھ یہودی تو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے جیسے عبداللہ بن سلام ؓ اور ان کے ساتھی۔ یا یہ مراد ہے کہ نسل ابراہیمی کو نبوت حکمت اور سلطنت عطا کرنے کا جو ذکر کیا گیا کچھ یہودیوں نے تو اس کی تصدیق کی۔ ومنہم من صد عنہ . اور کچھ یہودیوں نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا نہ مانا۔ سدی نے لکھا ہے کہ بہ اور عنہ کی ضمیریں ابراہیم ( علیہ السلام) کی طرف راجع ہیں (یعنی کچھ لوگ ابراہیم ( علیہ السلام) پر ایمان لائے اور کچھ نہ لائے) بات یہ ہوئی کہ ایک بار حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کھیتی بوئی اور دوسرے لوگوں نے بھی بوئی (اوروں کی کھیتیاں تو تباہ ہوگئیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کھیتی خوب پیدا ہوئی لوگ محتاج ہو کر آپ کے پاس آئے آپ نے فرمایا جو میری نبوت کو مانے گا میں اس کو دوں گا۔ یہ سن کر کچھ لوگ ایمان لے آئے ان کو آپ نے غلہ دیا کچھ ایمان نہ لائے آپ نے ان کو نہیں دیا۔ اس وقت آیت کی مراد یہ ہوگی کہ جس طرح بعض لوگوں کا ابراہیم ( علیہ السلام) پر ایمان نہ لانا ابراہیم کے معاملہ کو کمزور نہ کرسکا اسی طرح ان بدبختوں کا کفر آپ کے کام کو کمزور نہ کرسکے گا۔ ومنہم بجہنم سعیرا . اور جہنم کی بھڑکتی دہکتی آگ ہی (ان کے عذاب کے لئے) کافی ہے آخرت سے پہلے دنیا میں بالفعل عذاب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
Top