Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
فلا وربک لا یومنون . پس قسم ہے آپ کے رب کی وہ ایماندار نہیں ہوں گے۔ صحاح ستہ (صحیح بخاری و مسلم و سنن ابی داؤد و جامع ترمذی و نسائی و سنن ابن ماجہ) میں مذکور ہے کہ حرہ کے کسی پہاڑی نالے سے کھیتوں کو پانی دینے کے متعلق حضرت زبیر بن عوام کا کسی انصاری سے جھگڑا تھا دونوں خدمت گرامی میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے حکم دیا زبیر تم (پہلے) سینچ لو پھر اپنے ہمسایہ کی طرف پانی چھوڑ دو ۔ انصاری اس فیصلہ سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس فیصلہ کی وجہ یہ ہے کہ زبیر آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے یہ سن کر حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا اور فرمایا زبیر ! سینچنے کے بعد پانی کو اتنا روکے رکھو کہ پانی مینڈھوں تک پہنچ جائے۔ شروع میں حضور ﷺ نے ایسا مشورہ دیا تھا کہ حضرت زبیر اور انصاری دونوں کا کام ہوجائے اور بعد کو حضرت زبیر ؓ : کو اپنا پورا حق وصول کرنے کا حکم دے دیا (اگرچہ انصاری کا اس سے نقصان ہوگیا یعنی پہلا حکم استحبابی تھا اور دوسرا حکم استحقاقی) حضرت زبیر ؓ : کا بیان ہے کہ انصاری نے جب رسول اللہ ﷺ : کو ناراض کردیا اور آپ ﷺ نے صراحت کے ساتھ میرا پورا حق ملنے کا حکم صادر فرما دیا تو خدا کی قسم میرا خیال ہے کہ اسی معاملہ کے کسی سلسلہ میں آیت بالا کا نزول ہوا۔ طبرانی نے کبیر میں اور حمیدی نے مسند میں حضرت ام سلمہ ؓ : کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت زبیر کا ایک شخص سے جھگڑا ہوگیا۔ دونوں معاملہ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے آپ ﷺ نے زبیر ؓ کے حق میں فیصلہ کردیا۔ وہ شخص بولا زبیر ؓ : کو اس لئے ڈگری دی گئی کہ وہ ان کی پھوپھی کا بیٹا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری کا حضرت زبیر سے جھگڑا ہوگیا۔ انصاری کا نام حاطب بن ابی بلتعہ تھا۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت زبیر بن عوام اور حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق ہوا ایک پانی کے معاملہ میں دونوں کا باہم جھگڑا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا تھا کہ پہلے بالائی زمین کو پانی دیا جائے پھر نشیبی حصّہ کو۔ میں کہتا ہوں اس قصہ میں حاطب بن ابی بلتعہ کا نام لینا سراسر وہم ہے کیونکہ حاطب مہاجر تھے انصاری نہ تھے۔ بدر کے جہاد میں شریک تھے بلکہ یہ کوئی منافق تھا اوس یا خزرج سے نسبی اشتراک رکھنے کی وجہ سے اس کو انصاری کہہ دیا گیا۔ بغوی نے لکھا ہے فیصلہ کے بعد جب دونوں باہر آئے اور مقداد ؓ کی طرف سے گزرے اور حضرت مقداد ؓ نے پوچھا کس کے حق میں فیصلہ ہوا تو انصاری نے منہ بگاڑ کر کہا ان کی پھوپھی کے بیٹے کے حق میں۔ حضرت مقداد ؓ کے پاس ایک یہودی موجود تھا اس نے انصاری کی حرکت محسوس کرلی اور بولا ان کو خدا کی مار شہادت بھی دیتے ہیں کہ (محمد) اللہ کے رسول ﷺ ہیں پھر جو فیصلہ وہ کردیتے ہیں اس پر (جانب داری کی) تہمت بھی لگاتے ہیں خدا کی قسم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی زندگی میں ہم سے ایک گناہ ہوگیا تھا اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے ہم کو توبہ کی طرف بلایا اور حکم دیا کہ خود آپس میں ایک دوسرے کو قتل کر دو ۔ ہم نے حکم کی تعمیل کی کہ مقتولوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی آخر ہمارا رب ہم سے راضی ہوگیا۔ حضرت ثابت ؓ بن شماس بن قیس نے فرمایا سنو اللہ میری سچائی کا گواہ ہے۔ خدا کی قسم اگر محمد ﷺ مجھے خودکشی کا حکم دے دیں تو میں ضرور حکم کی تعمیل کروں گا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مجاہد (رح) اور شعبی (رح) کے قول پر اس آیت کا نزول بشر منافق اور ایک یہودی کے حق میں ہوا تھا جو ( رسول اللہ ﷺ سے فیصلہ کرانے اور یہودی کو ڈگری ملنے کے بعد) حضرت عمر ؓ کے پاس گئے تھے۔ پورا قصہ اوپر لکھا جا چکا ہے۔ کلام کی رفتار کا تقاضا بھی یہی ہے (کہ ان ہی دونوں کے متعلق آیت کا نزول مانا جائے) آیت میں اگر لا کو نافیہ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ واقعہ ایسا نہیں جیسا یہ جھوٹے مدعیان ایمان دعویٰ کرتے ہیں کہ اقرار ایمان کے بعد بھی آپ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوتے۔ قسم ہے آپ کے رب کی یہ ایماندار نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ۔۔ الخ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلا وربک میں لازائد (تاکید قسم کے لئے) ہو (یعنی آپ کے رب کی قسم یہ امر یقینی ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ۔۔ ) حتی یحکموک فیما شجر بینہم تاوقتیکہ اپنے اندرونی اختلافات اور گڑبڑ کا (فیصلہ کن) حاکم آپ کو نہ قرار دیں۔ شجر سے مراد ہے اختلاف اور آپس کی گڑبڑ۔ درخت کو شجر اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی شاخیں باہم گتھی ہوئی اور گڑبڑ ہوتی ہیں۔ ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت پھر اپنے دلوں میں آپ کے کئے ہوئے فیصلہ سے تنگی بھی محسوس نہ کریں۔ مجاہد نے کہا حرجا سے مراد ہے شک کیونکہ شک کرنے و الا ہمیشہ اپنے معاملہ میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ ویسلموا تسلیما اور آپ کے حکم کو بلاکراہت بخوشی نہ مان لیں۔
Top