Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 70
ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ الْفَضْلُ : فضل مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا
یہ خدا کا فضل ہے اور خدا جاننے والا کافی ہے
ذلک الفضل من اللہ . یہ مہربانی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ یعنی انعام یافتہ لوگوں کے جیسے اعمال نہ ہونے کے باوجوداُن کی رفاقت میسر آجانا اللہ کی مہربانی ہے۔ وکفی باللہ علیما . اور اللہ پورا پورا جاننے والا ہے۔ یعنی اللہ اس رفاقت کے سبب اور انعام یافتہ گروہ کے ساتھ شمول کی وجہ کو خوب جانتا ہے ‘ رفاقت کا اصل سبب محبت ہے محب کے اعمال اگرچہ محبوب کے اعمال کی طرح نہ ہوں مگر محبوب کی محبت محبوب کے ساتھ رفاقت کا سبب ہے اور محبت ایک ایسی چیز ہے جس کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ اعمال لکھنے والے فرشتے بھی واقف نہیں ہوتے۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص کو ایک قوم سے محبت ہے مگر (اُس کے ساتھ اس شخص کا شمول نہیں ہوسکتا کیونکہ) وہ (عمل میں) اس قوم کو نہ پہنچ سکا۔ فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہوگی۔ احمد۔ بخاری۔ مسلم۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث آئی ہے۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ قیامت کی گھڑی کب ہوگی۔ فرمایا ارے تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے اس نے عرض کیا میں نے تیاری تو کچھ نہیں کی صرف اللہ اور اللہ کے رسول سے مجھے محبت ہے فرمایا تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہوگی۔ راوی کا بیان ہے ‘ مسلمانوں کو جتنی خوشی یہ الفاظ سن کر ہوئی اتنا خوش اسلام کے بعد میں نے مسلمانوں کو ہوتے نہیں دیکھا۔ صحیح بخاری و مسلم۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذلک : سے اشارہ انعام یافتہ لوگوں کے مرتبہ کی طرف ہوگا یعنی انعام یافتہ لوگوں کے مرتبہ پر ان کا فائز ہونا محض اللہ کی مہربانی سے ہے ان کے عمل کو اس میں دخل نہیں ہے کیونکہ ان مراتب تک پہنچنا عموماً اللہ کے انتخاب سے ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اعمال درست رکھو (مگر) یہ بھی سمجھے رہو کہ کسی کو عمل کی وجہ سے نجات نہیں ملے گی۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ کو بھی ‘ فرمایا نہ مجھے۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت و فضل سے ڈھانک لے۔ صحیحین۔
Top