Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
من یشفع شفاعۃ حسنۃ جو اچھی شفاعت (سفارش) کرے جس میں مسلمانوں کے حق کی رعایت کرے ‘ مسلمان پر سے ضرر کو دفع کرے اور اس کے فائدہ کی تدبیر کرے اور یہ سب کوشش محض اللہ واسطے ہو۔ یکن لہ نصیب منہا تو شفاعت کرنے والے کے لئے شفاعت (کے ثواب) کا کچھ حصہ ہوگا۔ مجاہد نے کہا اس سے باہمی سفارش مراد ہے سفارشی کی سفارش اگر قبول نہ بھی کی جائے گی۔ تب بھی سفارشی کو اس کی سفارش کا ثواب ملے گا۔ (رواہ ابن ابی حاتم وغیرہ الحسن) حضرت ابوموسیٰ ؓ اشعری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں جب کوئی شخص کچھ مانگنے یا کسی اور کام کے لئے حاضر ہوتا تو آپ ہماری طرف متوجہ ہو کر فرماتے۔ سفارش کرو۔ تم کو ثواب ملے گا اور اللہ اپنی نبی کی زبان پر جو (الفاظ) چاہے گا جاری فرما دے گا۔ مسلم و بخاری۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خیر کا راستہ بتانے والا بھی بھلائی کرنے والے کی طرح ہے۔ رواہ البزار عن ابن مسعود۔ یہ روایت طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت سہل بن سعد کے حوالہ سے نقل کی ہے۔ فائدہ : مسلمان کے لئے دعا کرنے کا شمار بھی شفاعت حسنہ میں ہے۔ حضرت ابودرداء ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی کے لئے اس کے پس پشت (یعنی سامنے نہ ہونے کے وقت) دعا کرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ ایسا ہی کر دے اور تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا لوگوں میں باہم صلح کرانا شفاعت حسنہ ہے۔ بعض علماء نے کہا لوگوں کے درمیان اچھی بات کہنا شفاعت حسنہ ہے جس سے خیر اور ثواب کا حصول ہوتا ہے۔ ومن یشفع شفاعۃ سیءۃ اور جو بری شفاعت کرے۔ جس سے مسلمان اپنے حق سے محروم ہوتا ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ بری شفاعت چغلی کھاتے پھرنا ہے۔ بعض علماء نے کہا غیبت کرنی اور لوگوں میں بری بات کہنی جس سے شر اور برائی پیدا ہوتی ہو بری شفاعت ہے۔ یکن لہ کفل منہا اس کے لئے بری سفارش کے گناہ کا ایک حصہ ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مؤمن کو قتل کرنے کی اعانت میں آدھا لفظ بھی زبان سے نکالا جب اللہ کے سامنے جائے گا تو اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔ رواہ ابن ماجہ۔ وکان اللہ علی کل شئی مقتیا اور اللہ ہر چیز پر قابو رکھتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مقیت کا ترجمہ کیا مقتد (قابو والا) یہ لفظ اقات علی الشی : سے ماخوذ ہے اقات علی الشیکا معنی ہے اس چیز پر قابو پا لیا۔ اصل مادہ قوت (روزی غذا) ہے قوت سے بھی بدن کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ مجاہد (رح) نے مقیت کا ترجمہ شاہد (حاضر ناظر) کیا اور قتادہ نے نگراں۔ بعض علماء نے کہا ہر جان دار کو روزی دینے والا مقیت ہے۔
Top