Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کردے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ہاں اگر وہ معاف کردیں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لئے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا اور بڑی حکمت والا ہے
وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا . اور کسی مؤمن کو زیبا نہیں کہ کسی ایماندار کو (ناحق) قتل کر دے۔ مجاہد اور سدی کی روایت سے بھی مذکورۂ بالا واقعہ مروی ہے۔ ابن اسحاق اور ابویعلیٰ اور حارث بن ابی اسامہ اور ابو مسلم کحی نے قاسم بن محمد کی روایت سے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے حوالہ سے حضرت ابن عباس ؓ کا بیان بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن کے ایمان کی شان یہ نہیں یعنی نہ اس سے یہ فعل سرزد ہوا نہ سرزد ہوتا ہے نہ اس کے ہاتھوں سے کسی مؤمن کا قصداً ) ناحق قتل ہوتا ہے۔ قتل مؤمن دینی ممنوعات میں سرفہرست ہے اور ایمان کا تقاضا ایسی حرکت سے روکتا ہے۔ کلام ظاہری اعتبار سے اخباری (اور منفی) ہے لیکن اس سے پُر زور ممانعت مقصود ہے گویا مؤمن کو ناحق قصداً قتل کرنے والے کے ایمان کو عدم ایمان کی طرح قرار دے دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بخاری نے جو رسول اللہ ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے کہ ولا یقتل حین یقتل وہو مؤمن اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ حالت ایمان میں رہتے ہوئے مؤمن کا کوئی قاتل قتل نہیں کرتا (یعنی قتل کرنا تقاضائے ایمان کے خلاف ہے) صحاح میں ہے کہ اگر ایک چیز دوسری چیز کی صفت لازمہ ہو اور عموماً اس سے جدا نہ ہوتی ہو تو عربی میں ایسے موقع پر لفظ کان بولتے ہیں جیسے کان الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا۔ کَانَ الْاِنْسَانُ فَتُوْرًا میں کہتا ہوں کہ صاحب صحاح کے بیان کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی چیز کسی دوسری چیز سے اکثر الگ اور خالی رہتی ہو خواہ کبھی ساتھ نہ پائی جاتی ہو یا عموماً ساتھ نہ رہتی ہو ‘ اتفاقاً کبھی پائی بھی جاتی ہو تو ایسے موقع پر ماکانَبولا جاتا ہے جیسے : وَمَاکَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْباوجودیکہ اللہ نے احد کے دن بھاگ پڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو قتل و شکست کی سزا دی تھی ‘ لیکن یہ سزا اتفاقی تھی اللہ کا عمومی عمل رسول اللہ ﷺ : کی موجودگی میں ایسا نہ تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ آیت میں اگرچہ نفی کا صیغہ ہے لیکن مقصود نہی ہے جیسے آیت ماکانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْدُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلاَ اَنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ (میں نفی بمعنی ممانعت ہے) یعنی تمہارے لئے جائز نہیں کہ رسول اللہ : ﷺ کو دکھ دو اور ان کی وفات کے بعد ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی حرکت مت کرو۔ الا خطاء لیکن غلطی سے یعنی غلطی کی حالت میں یا غلطی کی وجہ سے یا غلط طور پر (اول ترجمہ کی صورت میں خطا حال ہوگا اور دوسرے ترجمہ پر مفعول لہٗ اور تیسرے ترجمہ پر مفعول مطلق) اس صورت میں استثناء مفرغ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لمؤمن سے استثناء ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ استثناء کو منقطع قرار دیا جائے کیونکہ ان یقتلکا لفظ قتل عمد پر دلالت کر رہا ہے۔ افعال اختیاریہ قصداً ہی ہوتے ہیں اور قتل خطا (قتل عمد میں داخل ہی نہیں ہے۔ اس وقت مطلب اس طرح ہوگا لیکن اگر غلطی سے مار ڈالے (آیت کا شروع ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے) ومن قتل مؤمنا خطا اور جس نے مؤمن کو بلا قصد قتل کردیا۔ قتل دو طرح کا ہوتا ہے۔ قتل عمد (قصداً ) قتل اور قتل خطا۔ قتل عمد کی تشریح میں اختلافی اقوال ‘ قصاص کا حکم اور کیفیت اور وجوب مال کا حکم ہم نے سورة بقرہ کی آیت کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُکی تفسیر کے ذیل میں بیان کردیا ہے۔ اس جگہ صرف یہ بتانا ہے کہ کیا قتل عمد کا کفارہ (جس سے آخرت کا گناہ معاف ہوجائے گا) واجب ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک واجب نہیں۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک واجب ہے امام احمد کے دونوں قول روایت میں آئے ہیں۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ قتل خطا میں جب کفارہ واجب ہے تو قتل عمد میں بدرجۂ اولی واجب ہونا چاہئے پھر حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت بھی ہے کہ ہم اپنے ایک ساتھی کا جو قتل کی وجہ سے دوزخ کا مستحق ہوگیا تھا حکم دریافت کرنے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا اس کی طرف سے ایک بردہ آزاد کردو بردہ کے ہر عضو کی آزادی کی وجہ سے اس کا ہر عضو دوزخ سے آزاد ہوجائے گا کذا ذکرہ الرافعی (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل عمد کا کفارہ دوزخ سے آزاد ہونے کے لئے واجب ہے اور ایک بردہ آزاد کرنا چاہئے) ہم کہتے ہیں یہ حدیث امام احمد ‘ ابوداؤد و نسائی ‘ ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کی ہے لیکن اس روایت میں صرف اتنا ہے کہ ہمارا ساتھی مستحق ہوگیا تھا (قصاص کا یا دیت کا یا دوزخ کا اس کی کوئی تفصیل نہیں کی گئی) دوزخ کا لفظ اس روایت میں نہیں ہے لہٰذا دعوے کی دلیل حدیث سے نہیں نکلتی۔ رہا دلالت النص سے قیاس کرنا (اور یہ کہنا کہ جب قتل خطا میں کفارہ واجب ہے تو قتل عمد میں بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہئے) تو قیاس قابل تسلیم نہیں کیونکہ قتل عمد خالص گناہ کبیرہ ہے کفارہ دے کر اس سے طہارت نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسا حکم دے دیا جائے گا تو قتل عمد کا دروازہ کھل جائے گا۔ قتل خطا کی حالت اس سے جدا ہے۔ اس کے دو رخ ہیں ایک اباحت کا (کیونکہ خطا اور چوک قابل مواخذہ نہیں) اور دوسرا گناہ ہونے کا کہ استنباط کیوں نہ کی لہٰذا اس سے طہارت کی تو ایک شکل ہے جو عبادت اور عذاب کے درمیان دائر ہے (یعنی بردہ کی آزادی کہ فی الجملہ عبادت بھی ہے اور آزاد کرنے والے کے لئے سزا بھی) ہمارے نزدیک یہی فرق یمین غموس (کسی بات کو دانستہ قسم کھا کر غلط بیان کرنا) اور یمین منعقدہ (آئندہ کے متعلق کوئی قسم کھانا) کے درمیان ہے کہ اوّل کا کوئی کفارہ نہیں اور دوسری قسم کا کفارہ ہے۔ قتل خطا کئی طرح کا ہوتا ہے۔ (1) [ یمین غموس اور قتل عمد کا کفارہ نہ ہونے کی دلیل ایک حدیث بھی ہے جس کو ابن ابی شیبہ ‘ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے سامنے ایسی حالت میں مرجائے گا کہ (مرتے وقت) وہ مشرک نہ ہو اور اپنے مال کی زکوٰۃ محض ثواب کی امید پر بخوشی خاطر اس نے دی ہو اور اللہ کے احکام سنے اور مانے ہوں تو اس کے لئے جنت ہوگی اور پانچ چیزیں ہیں جن کا کوئی کفارہ نہیں۔ ناحق کسی کا قتل کرنا ‘ مؤمن پر بہتان لگانا ‘ جہاد سے بھاگنا ‘ کسی کا مال مارنے کے لئے بغیر حق کے جھوٹی قسم کھانا۔ (از مؤلف) (پانچویں چیز کا ذکر نہیں فرمایا۔ مترجم)] شبہ عمد اس کی تشریح میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا قتل شبہ عمد۔ وہی قتل عمد ہے بشرطیکہ ایسے آلہ سے ہو جو قتل کرنے کے لئے موضوع نہ ہو (جیسے بڑا پتھر یا بڑی لکڑی) امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا قصداً ایسی چیز سے قتل کرنا۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا ایسی چیز سے قصداً مارنا کہ اکثر اس سے موت واقع نہیں ہوتی پس اگر ایک یا دو کوڑے سے مارے اور موت واقع ہوگئی تو سب کے نزدیک یہ قتل شبۂ عمد ہے اور اگر چھوٹے کوڑے سے پیہم اتنا مارا کہ مرگیا تو شافعی (رح) کے نزدیک قتل عمد ہوگا اور امام اعظم (رح) کے نزدیک صاحبین کے نزدیک شبہ عمد اور اگر کسی بڑے پتھر یا بڑے تختہ سے قتل کردیا (جو پھسلواں ہو) اکثر ٹھہرتا نہ ہو تو امام صاحب کے نزدیک شبہ عمد ہے اور باقی کے نزدیک قتل عمد۔ امام صاحب نے فرمایا اگر پہاڑ بھی پھینک کر مار دیا اور مرگیا تو قصاص نہ ہوگا۔ جو ضرب قتل کے معاملہ میں شبہ عمد ہے وہ قتل سے کم باقی جسمانی نقصان رسانی میں عمداً قرار دی جائے گی۔ یہ فیصلہ باتفاق ائمہ ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سن لو قتل خطا شبہ عمد کوڑے اور لاٹھی سے قتل کرنا ہے۔ عنقریب آئندہ بیان کیا جائے گا کہ کوڑے اور لاٹھی کا لفظ عام ہے چھوٹی ہو یا بڑی سب کو شامل ہے۔ جمہور کا قول ہے کہ لاٹھی کا اطلاق صرف چھوٹے پر ہوتا ہے (جو لوگ عموماً ہاتھ میں لیتے ہیں کسی بڑے لکڑ یا بلی کو لاٹھی نہیں کہا جاتا) (2) دوسرا قتل خطا یہ ہے کہ نشانہ چوک جائے مار رہا ہو شکار سمجھ کر اور ہو وہ آدمی یا مار رہا ہو کسی کو کافر حربی سمجھ کر اور نکلے وہ مسلمان۔ (3) فعل میں چوک جائے مار رہا ہو نشانہ پر اور لگ جائے کسی مسلمان کے۔ (4) قائم مقام خطا (یعنی غلطی بھی نہیں ہے بلکہ غلطی جیسی حرکت ہے) جیسے کوئی شخص سو رہا ہو۔ سوتے میں کروٹ لے اور کسی مسلمان کے اوپر گرپڑے اور وہ مرجائے (5) قتل سببی جیسے کسی نے اپنے ملک سے باہر کسی جگہ کنواں کھدوایا (اور کوئی اس میں گر کر مرگیا) یا پتھر نصب کردیا (اور کوئی اس سے ٹھوکر کھا کر یا ٹکرا کر مرگیا) ۔ ان تمام اقسام کا حکم یہ ہے کہ عاقلہ پر بالاتفا ق دیت (خون بہا) واجب ہے کیونکہ قصاص تو بہرحال نہیں ہے۔ اگر دیت بھی نہ ہوگی تو ناحق خون ہوگا اور معصوم خون رائیگاں جائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سب کے نزدیک قاتل پر کفارہ واجب ہے اور قاتل میراث سے بھی بالاجماع محروم ہوجائے گا۔ صرف پانچویں قسم میں امام ابوحنیفہ (رح) کی رائے الگ ہے۔ امام صاحب کے نزدیک یہ حقیقت میں قتل ہی نہیں ہے۔ قتل نام ہے مقتول کے جسم پر خاص تصرف کرنے کا اور پانچویں قسم میں مقتول کے جسم پر قاتل کوئی تصرف نہیں کرتا بلکہ اس کا محل فعل زمین یا کنواں یا کوئی اور چیز ہے۔ جمہور کے قوتل کی دلیل یہ ہے کہ (یہ حقیقت میں قتل ہو یا نہ ہو) شریعت نے اس کو قتل قرار دیا ہے یہاں تک کہ بالاجماع دیت واجب ہے پس مذکورہ آیت کے حکم کا عموم چاہتا ہے کہ کفارہ بھی واجب ہو بلکہ آیت کا قتضا تو یہ ہے کہ دیت کبھی واجب ہوتی ہے اور کبھی واجب نہیں ہوتی مگر کفارہ تو بہرحال واجب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کفارہ کا وجوب تو گناہ کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور سوتا ہوا آدمی اگر کروٹ لے کر کسی پر گرجائے اور وہ مرجائے تو گرنے والے کا کیا قصور ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا (یعنی ان کا گناہ نہیں لکھا جاتا گویا وہ گناہ ہی نہیں ہوتا اگر گناہ ہوتا تو ضرور اعمالنامہ میں لکھا جاتا ایک سوتا ہوا آدمی بیدار ہونے تک) الخ۔ لہٰذا جس نے دوسرے کی زمین میں ظلماً کنواں کھدوایا اور اس میں کوئی مؤمن گر کر مرگیا ضرور موجب کفارہ ہے اس صورت میں کفارہ نہ ہونا (جب کہ مجرمانہ اور غاصبانہ فعل کرنے کی وجہ سے مؤمن کی ہلاکت ہوئی ہے) ناپسندیدہ حکم ہے۔ فتحریر رقبۃ مؤمنۃ . پس اس کا کفارہ کسی مسلمان بردہ کو آزاد کرنا ہے۔ مسئلہ : ایک روایت میں امام اعظم (رح) کا قول آیا ہے کہ شبہ عمد میں کفارہ واجب نہیں۔ کفایہ شرح ہدایہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ جرجانی نے کہا ہمارے علماء کا ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ شبہ عمد میں کفارہ واجب نہیں۔ میں کہتا ہوں یہی فتویٰ زیادہ مناسب بھی ہے کہ آلۂ (قاتلہ) نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے شبہ کی وجہ سے شبہ عمد میں قصاص تو ساقط ہوجاتا ہے لیکن معصیت کاملہ تو ہوتی ہے کیونکہ معصیت کے کامل ہونے کا مدار نیت اور ارادہ پر ہے (آلہ پر نہیں) آلہ کوئی ہو یہاں تک کہ گھونسے مارتے مارتے اگر قصد کے ساتھ مار ڈآلے تو معصیت کامل ہوجاتی ہے لہٰذا شبہ عمدخالص گناہ کبیرہ ہے بلکہ تلوار سے قتل کرنے سے بھی زیادہ برا ہے۔ دیکھو واجب القتل قاتل سے قصاص صرف تلوار سے لیا جاتا ہے (تاکہ مرنے والے کو سہولت ہو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر کام کو خوبی سے کرنا اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے لہٰذا اگر تم (قصاص میں) قتل کرو تو خوبی سے قتل کرو۔ (زیادہ ایذا رساں طریقے سے نہ کرو) اور ذبح کرو تو خوبی کے ساتھ کرو۔ چھری تیز کرلی جائے اور ذبیحہ کو زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ رواہ احمد و مسلم واصحاب السنن الاربعہ من حدیث شداد بن اوس ؓ ۔ فتحریر رقبۃ خبر ہے مبتدا محذوف ہے یعنی اس کے عوض ایک بردہ کو آزاد کرنا واجب ہے۔ فتحریرکا معنی ہے آزاد کرنا۔ ہر عمدہ اعلیٰ چیز کو خر کہا جاتا ہے۔ قاموس میں ہر بہتر چیز کو خر کہتے ہیں۔ آزاد کو حر کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ حر میں شرافت اور خیر ہوتی ہے۔ رقبۃ (گردن) سے مراد جان ہے جیسے راس (سر) بول کر جان مراد لی جاتی ہے۔ بردہ کی آزادی کا یہ مطلب ہے کہ جو باندی غلام کامل طور پر مملوک ہو اس کو آزاد کیا جائے لہٰذا جس باندی کے بطن سے مالک کا بچہ ہوجائے وہ یونہی آزاد ہوجاتی ہے۔ قتل کے عوض اس کو آزاد کرنا درست نہیں۔ نہ اس کو بیچنا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ام ولد کو اس کے بچہ نے آزاد کرا دیا۔ اسی طرح امام صاحب کے نزدیک مُدَبَّرْغلام کو بھی آزاد کرنا جائز نہیں (کیونکہ آقا کے مرنے کے بعد وہ خود ہی آزاد ہوجائے گا گویا اس کی مملوکیت ناقص ہے) امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے۔ یہی اختلاف مدبر کو بیچنے کے متعلق ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک ناجائز اور امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے۔ مکاتب غلام نے اگر بدل کتابت (زر قیمت) میں سے کچھ ادا نہ کیا ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس کو آزاد کرنا جائز ہے کیونکہ عقد کتابت تراضی باہمی سے فسخ ہوسکتا ہے امام شافعی کے نزدیک ناجائز ہے جیسے اس مکاتب کو آزاد کرنا بالاتفاق ناجائز ہے جس نے بدل کتابت میں سے کوئی حصہ ادا کردیا ہو۔ پاگل ‘ نابینا ‘ گونگے اور نپٹ بہرے کو آزاد کرنا جائز نہیں۔ جس کے دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کٹے ہوں یا ایک ہی طرف کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کٹا ہو اس کو بھی آزاد کرنا جائز نہیں ایسے لوگ حقیقت میں مردہ کی طرح ہیں اور بالکل بیکار ہیں۔ اگر ایک جانب کا ہاتھ اور دوسری جانب کا پاؤں کٹا ہو یا کانا یا چوندھا یا مبروص یا شب کور ہو تو اس کو آزاد کرنا جائز ہے کیونکہ ایسے لوگ بالکل ناکارہ نہیں ہیں اگرچہ کامل طور پر کارآمد بھی نہیں ہیں۔ پیدائشی نامرد۔ خصی اور نس کٹے کو آزاد کرنا درست ہے کیونکہ اگرچہ مردیت سے یہ محروم ہوتے ہیں اور نسل آفریں نہیں ہوتے مگر غلاموں سے جو خدمت مقصود ہوتی ہے اس میں نسل آفرینی کا کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح اس باندی کو آزاد کرنا جائز ہے جو نپٹ ہو کیونکہ وہ خدمت کے کام کی بہرحال ہوتی ہے (اگرچہ صنفی قربت کی اہل نہیں ہوتی) ۔ مسئلہ : قاتل کا عاقل بالغ مسلمان ہونا ضروری ہے کیونکہ کفارہ عبادت ہے اس لئے عبادت کی شرطیں اس میں ہونی ضروری ہیں۔ امام شافعی (رح) کفارہ کو مالی ضمان (جیسے دیت وغیرہ) پر قیاس کرتے ہیں اور دیت ادا کرنے کے لئے نہ بالغ ہونا شرط ہے نہ عاقل ہونا نہ مسلمان ہونا (اس لئے) کفارہ میں بھی ان کے نزدیک کوئی شرط نہیں۔ مسئلہ : امام شافعی کے نزدیک کفارۂ قتل کے لئے اپنے اختیار سے آزاد کرنا شرط ہے اس لئے بہ نیت کفارہ اگر کسی نے اپنے باپ کو خریدا تو جائز نہیں (کیونکہ باپ تو خریدتے ہی بغیر خریدنے والے کے اختیار کے خود ہی آزاد ہوجائے گا) امام صاحب کے نزدیک باپ یا کسی اور قریبی رشتہ دار کو ( جو خریدتے ہی خود آزاد ہوجائے) بہ نیت کفارہ خرید ناکافی ہے کیونکہ آپ کے نزدیک سبب اختیاری کے ساتھ نیت کا اقتران موجب آزادی ہے (خریدنا سبب آزادی ہے اور خریدنا مشتری کا اختیاری فعل ہے۔ پس خریدتے وقت کفارہ کی نیت ہونا ضروری ہے) اسی طرح اگر (کسی کا باپ زید کا غلام ہو اور زید) عمرو کو اس کا باپ بطور ہبہ دے دے یا باپ کی ملکیت بطور وصیت مل جائے دونوں صورتوں میں امام شافعی کے نزدیک کفارۂ قتل کے لئے اس کی آزادی جائز نہ ہوگی اور امام صاحب (رح) کے نزدیک کافی ہوجائے گی ہاں اگر باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو میراث میں مل جائے (اور آزاد ہوجائے) تو یہ آزادی کفارۂ قتل کے لئے بالاجماع کافی نہ ہوگی خواہ کفارہ کی نیت کرلی ہو۔ آیت میں چونکہ مؤمنہ کا لفظ آیا ہے اس لئے بالاجماع کفارۂ قتل کے لئے باندی غلام کا مسلمان ہونا ضروری ہے ‘ کفارۂ قسم ‘ کفارۂ ظہار اور کفارۂ صوم کے لئے مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ (شرعاً ) اس کو مسلمان مان لیا گیا ہو مثلاً کسی مسلمان باپ یا مسلمان ماں نے اپنے چھوٹے بچہ کو ( خرید کر کفارۂ قتل میں) آزاد کردیا تو جائز ہے (کیونکہ بچہ مذہب کے اعتبار سے شرعاً اشرف کے تابع مانا گیا ہے اور اس بچہ کے ماں باپ میں سے کوئی ایک مسلمان ہے لہٰذا اس بچہ کو مسلمان قرار دیا جائے گا) ابن منذر اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس قول کی نسبت کی ہے کہ مؤمنہ سے مراد وہ بردہ ہے جس کو ایمان کا شعور ہو اور نماز روزہ کرتا ہو لیکن قرآں میں جہاں رقبہ کے ساتھ مؤمنہ کی قید نہیں لگائی ہے۔ وہاں نوزائیدہ بچہ یا اس سے بڑا جو قابل شعور نہیں وہ بھی جائز ہے ‘ کذا فی اخرج عبدالرزاق عن قتادہ۔ حضرت ابی کی قراءت میں لا یجزی فیہا صبیبھی زیادہ آیا ہے۔ ودیۃ . اور خون بہا بھی (خون کا مالی عوض) اس کا عطف فتحریر رقبۃ پر ہے۔ قاموس میں ہے دیت بکسر دال مقتول کا (مالی) حق۔ دیت کی مقدار مجمل ہے اور کس پر دیت واجب ہے اس کا بیان بھی آیت میں نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بیان فرما دیا ہے۔ مسئلہ : دیت عاقلہ (قاتل کے عصبی رشتہ دار) پر واجب ہے اور جتنا چندہ ادا کرنا ایک ایک شخص پر لازم ہوگا اتنا ہی قاتل پر بھی ہوگا یہ قول امام اعظم (رح) کا ہے امام شافعی (رح) کے نزدیک قاتل پر کچھ واجب نہ ہوگا۔ عاقلہ پر دیت واجب ہونا اگرچہ قرآن سے مستنبط نہیں ہے لیکن احادیث مشہورہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور اس پر اجماع بھی ہے ‘ یہ احادیث اگرچہ آحاد ہیں لیکن اجماع سے ان کی تائید ہونے کے بعد قرآن جیسی قوت ان میں پیدا ہوجاتی ہے (گویا عاقلہ پر دیت کا وجوب قطعی ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ بنی ہذیل کی دو عورتوں میں لڑائی ہوگئی ‘ ایک نے دوسری کے پتھر مارا اور وہ حاملہ تھی مضروب مرگئی اور پیٹ کا بچہ بھی مرگیا رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ بچہ کی دیت ایک بردہ ہے ‘ غلام ہو یا باندی اور مقتول کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر ہوگی۔ حدیث کے دوسرے الفاظ اس طرح آئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر مقرر کردی اور ایک بردہ کی آزاد پیٹ کے بچہ کے عوض۔ بیہقی نے امام شافعی (رح) کے طریق سے نقل کیا ہے کہ ہم نے تمام علماء میں یہ اجماعی مسئلہ پایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حر مسلمان کی دیت جب غلطی سے اس کو کسی حر نے قتل کیا ہو سو اونٹ قرار دی ہے اور یہ دیت مجرم کے عاقلہ پر ہوگی اور یہ بات بھی ہم نے علماء کے اجماع میں پائی کہ کل دیت تین سال میں وصول کی جائے گی ہر سال ایک تہائی ادا کرنی ہوگی۔ بیہقی نے باسناد ابن لہیعہ سعید بن مسیب کا قول نقل کیا ہے کہ قسط وار تین سال میں دیت وصول کرنا سنت ہے۔ امام شافعی (رح) کے مذکورۂ بالا قول سے قسط وار دیت وصول ہونے پر علماء کا اجماع ثابت ہوتا ہے۔ ترمذی نے جامع میں اور ابن منذر نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق اور بیہقی نے باسناد شعبی منقطعاً نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے پوری دیت کے لئے تین سال اور آدھی دیت کے لئے دو سال اور آدھی سے کم کے لئے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے۔ بیہقی نے یزید بن ابی حبیب کی روایت سے منقطعاً حضرت علی ؓ کا بھی یہی فیصلہ نقل کیا ہے۔ مسئلہ : قتل عمد میں اگر کچھ مال پر صلح ہوجائے یا بعض وارثوں کے معاف کردینے سے قصاص ساقط ہوجائے اور مال ادا کرنا لازم ہوجائے یا کسی اور وجہ سے قتل عمد میں قصاص کی جگہ مال دینا پڑے تو یہ ادائیگی قاتل کے مال سے ہوگی۔ عاقلہ پر دیت کا وجوب نہ ہوگا۔ اسی طرح قاتل کے اقرار سے اگر دیت کا وجوب ہوتا ہو تو عاقلہ پر اس کی ادائیگی واجب نہیں اور غلام مقتول ہو یا قاتل بہرحال اس سلسلہ میں بھی عاقلہ پر دیت نہیں۔ مجرم کے مال سے وصول کی جائے گی۔ دارقطنی اور طبرانی نے مسند الشامیین میں حضرت عبادہ ؓ بن صامت کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عاقلہ پر (واجب) نہ قرار دو ۔ اقرار کرنے والے (کے اقرار) کی دیت میں سے کچھ بھی۔ اس حدیث کی اسناد بہت ضعیف ہے اس کی اسناد میں محمد بن سعید کذاب اور حارث بن نبہان منکر الحدیث ہے۔ دارقطنی اور بیہقی نے موقوفاً حضرت عمر ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ غلام کے سلسلہ میں (خواہ غلام قاتل ہو یا مقتول) اور قتل عمد میں (اگر قصاص ساقط ہوگیا ہو) اور مصالحت میں اور (قاتل کے) اقرار میں (جو دیت لازم ہوتی ہو وہ) عاقلہ ادا نہیں کرے گا۔ اس حدیث کی سند منقطع ہے پھر اس میں عبدالملک بن حسین راوی بھی آیا ہے جو ضعیف ہے۔ بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ قتل عمد میں یا مصالحت یا اقرار کی صورت میں اور غلام کے جرم کی صورت میں عاقلہ کچھ برداشت نہیں کرے گا۔ موطا (رح) میں زہری کا قول منقول ہے سنت (صحابہ ؓ یا سنت رسول ﷺ اس بات پر گزری ہے کہ عاقلہ ان صورتوں میں کچھ برداشت نہیں کرے گا۔ بیہقی نے ابوالزناد کی وساطت سے فقہاء اہل مدینہ کی رائے بھی یہی نقل کی ہے۔ مسئلہ : امام شافعی کے نزدیک کسی شخص کے عاقلہ اس کے قبیلہ والے اور عصبات ہوتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس کی پنچائیت والے اور وہ نہ ہوں تو پھر قبیلہ والے حسب تفاوت قرابت عاقلہ شمار ہوں گے اور آزاد کردہ غلام کے عاقلہ وہ ہوں گے جو آزاد کرنے والے کے عاقلہ ہیں اور مولیٰ الموٰلات (یعنی وہ دو شخص جنہوں نے باہم طے کرلیا ہو کہ ہم دونوں کا جان مال ایک ہی ہے جو ایک کا ہے وہی دوسرے کا) کے عاقلہ دوسرے کے عاقلہ ہوں گے اور اگر وہ خود موجود ہو تو وہ مع اپنے عاقلہ کے قاتل کے عاقلہ ہوں گے۔ مسئلہ : عاقلہ میں سے ایک شخص پر ہر سال چار درہم سے زائدہ چندہ امام صاحب کے نزدیک نہیں ہوسکتا ہے۔ دوسری روایت میں ہر سال کی جگہ تین سال کا لفظ آیا ہے امام شافعی (رح) کے نزدیک آدھے دینار سے زائد ایک شخص پر (تاوان) نہ ہوگا۔ مسئلہ : جس کا عاقلہ نہ ہو اس کے مقتول کی دیت بیت المال میں داخل ہوجائے گی (صحیح ترجمہ اس جگہ کی عبارت کا یہی ہے لیکن اس فقیر کی نظر میں اس جگہ مسئلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس کے عاقلہ نہ ہوں تو مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی مگر مفسر کی عبارت اس مطلب کو ادا کرنے سے قاصر ہے) فصل : مقدار دیت مسئلہ : علماء کا اجماع ہے کہ شبہ عمد میں دیت مغلظہ ہے اور یہی دیت مغلظہ اس قتل عمد میں بھی ہے جس میں کسی وجہ سے قصاص ساقط ہوگیا ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شبہ عمد کی دیت مغلظہ ایسی ہی ہے جیسے قتل عمد کی مگر شبہ عمد کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اس کی صورت یہ ہے کہ لوگوں میں شیطان کود پڑے اور اندھا دھند سنگ باری کی گئی ہو مگر فتنہ نہ ہو اور ہتھیار کا استعمال نہ ہو۔ رواہ احمد۔ قتل خطا کی دوسری قسموں میں دیت خفیفہ ہے اور دیت مغلظہ صرف اونٹوں میں ہوگی (چاندی سونے وغیرہ میں نہ ہوگی) امام ابو حنفیہ اور امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک دیت مغلظہ میں سو اونٹ اس طرح دیئے جائیں گے کہ 25 بنت مخاض 25 بنت لبون 25 حقہ اور 25 جذعہ۔ امام محمد اور امام شافعی (رح) کے نزدیک 30 جذعہ 30 حقہ اور 40 ثنیہ ادا کرنے ہوں گے۔ ثنیہ سب کے سب اونٹنیاں ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔ کیونکہ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سنو قتل شبہ عمد یعنی کوڑے اور لاٹھی کے قتل میں سو ہیں جن میں سے 40 ایسی ہوں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔ رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی ابن حبان نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو کی روایت سے لکھا ہے کہ ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) جس نے قصداً قتل کیا اس کو مقتول کے وارثوں کے سپرد کردیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اس کو (قصاص میں) قتل کردیں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔ 30 حقہ 30 جذعہ اور چالیس یا کھرجن کے پیٹ میں بچے ہوں۔ حضرت عبادہ بن صامت کی روایت میں (فرمان نبوی) آیا ہے۔ سنو سب سے بڑی دیت میں سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس باکھر ہوں جن کے پیٹ کے اندر بچے ہوں۔ رواہ الدارقطنی والبیہقی۔ اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے۔ امام ابو حنفیہ (رح) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن کے قتل میں سو اونٹ ہیں۔ لیکن اونٹنی کے پیٹ کے اندر بچہ کی موجودگی یقین کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکتی اور معلوم بھی ہوجائے تو حمل بعض اعتبار سے خود ایک ایسا جانور ہے جو عنقریب پیٹ سے الگ ہو کر مستقل طور پر باہر جائے گا اس لئے اگر اونٹنی کے گابھن ہونے کی شرط لگائی جائے گی تو اونٹوں کی تعداد سو سے زائد ہوجائے گی۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کی یہ عقلی دلیل نص شرعی کے مقابل ہے (جو قابل قبول نہیں) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پیٹ میں بچہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اونٹنی حاملہ ہونے کے قابل ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ : اونٹوں میں دیت خفیفہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس طرح ہے 20 جذعہ ‘ 20 حقہ ‘ 20 بنت لبون ‘ 20 بنت مخاض اور 20 ابن مخاض۔ امام احمد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی اور امام مالک کا بھی اس سے اتفاق ہے مگر ان کے نزدیک ابن مخاض کی جگہ ابن لبون ہونا چاہئے۔ (2) [ بنت مخاص ایک سال عمر کی اونٹنی جو دوسرے سال میں شروع ہوگئی ہو اگر نر ہو تو ابن مخاض کہا جائے گا۔ بنت لبون (مادہ) ابن لبون (نر) دو سالہ اونٹنی اور اونٹ جو تیسرے سال میں لگ گیا ہو۔ حقہ نر اور مادہ اونٹ جو چوتھے سال میں لگ گیا ہو جذعہ وہ نر یا مادہ اونٹ جو چار چھوڑ کر پانچویں سال میں لگ گیا ہو ] امام ابوحنیفہ (رح) : کی دلیل وہ حدیث ہے جو امام احمد اور بزار اور دارقطنی اور بیہقی اور اصحاب السنن نے حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود کی روایت سے بیان کی ہے کہ قتل خطا کی دیت میں رسول اللہ ﷺ نے (سو اونٹوں کی) ڈگری دی۔ 20 بنت مخاض 20 ابن مخاض 30 بنت لبون 20 حقہ اور 20 جذعہ۔ اس حدیث کے سلسلۂ روایت میں حجاج بن ارطاۃ پھر زید بن جبیر پھر حشف بن مالک پھر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ آتے ہیں۔ اور امام شافعی (رح) نے دارقطنی کی بیان کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے جس کے راوی ابو عبیدہ ہیں ابوعبیدہ ؓ نے کہا کہ میرے باپ عبداللہ ؓ بن مسعود نے فرمایا قتل خطا کی دیت (سو اونٹ) پانچ حصے کر کے ہیں۔ (20 حقہ 20 جذعہ 20 بنت فخاض 20 بنت لبون 20 ابن لبون نر۔ دارقطنی نے لکھا ہے یہ سند حسن ہے اس کے راوی ثقہ ہیں اور مندرجہ فوق حدیث کے راویوں میں سے حشف بن مالک ضعیف راوی ہے۔ اہل علم کے نزدیک قابل ثبوت نہیں کیونکہ اوّل تو حشف بن مالک کی روایت ابو عبیدہ ؓ کی راویت کے خلاف ہے۔ ابو عبیدہ ؓ نے براہ راست اپنے باپ کا قول نقل کیا ہے جس کی سند صحیح ہے۔ حشف بن مالک سے زیادہ ابو عبیدہ ؓ اپنے باپ کے قول اور مسلک سے واقف تھے۔ پھر یہ بھی حضرت عبداللہ ؓ کی دینداری اور تقویٰ سے بعید ہے کہ کسی مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ معلوم ہونے اور اس کو خود نقل کرنے کے بعد اپنا فتویٰ اس کے خلاف دیں۔ اس کے علاوہ حشف مجہول شخص ہے اس سے روایت کرنے والا صرف زید بن جبیر ہے اور زید بن جبیر کا قول صرف حجاج بن ارطاۃ نے بیان کیا ہے اور حجاج مدلس ہے پھر حجاج کی روایت اس کے بعد والے لوگوں نے مختلف طور پر نقل کی ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ دارقطنی نے تو کہا تھا کہ ابو عبیدہ نے کسی حدیث کی سماعت اپنے باپ سے نہیں کی لیکن اس حدیث میں خود کہتے ہیں کہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ سے سنا یہ کلام کا تضاد ہے پھر ثقہ راوی کی حدیث کو مجہول کہنا (صرف اس وجہ سے کہ اس سے سننے والا صرف ایک شخص ہے) غلط ہے علماء حدیث کی یہ شرط ہے کہ ہر راوی سے سننے والے اور نقل کرنے والے (کم سے کم) دو شخص ہوں بجائے خود بےدلیل بات ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ بیہقی نے دارقطنی کی گرفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دارقطنی کو وہم ہوگیا اور اسپ تازی کو کبھی ٹھوکر لگ ہی جاتی ہے۔ حافظ نے کہا میں نے خود جامع سفیان ثوری میں اوّل الذکر حدیث تین سلسلوں سے منقول دیکھی ہے ایک منصور از ابراہیم از عبداللہ بن مسعود۔ دوسرے ابواسحاق از علقمہ از ابن مسعود۔ تیسرے عبدالرحمن بن یزید بن ہارون از سلیمان تیمی از ابو مجلذ از ابو عبیدہ از ابن مسعود اور ان سب سلسلہ میں ابن مخاض (نر) کا ذکر آیا ہے۔ مسئلہ : اگر نقد کی شکل میں دیت دی جائے تو ہزار دینار طلائی یا بارہ ہزار درہم نقرئی امام احمد کے نزدیک اور دس ہزار درہم نقرئی امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر ہونا چاہئے۔ امام شافعی (رح) نے کہا اصل تو اونٹ ہیں اگر اونٹ نہ ہوں تو پھر دو قول ہیں (1) ہزار دینار طلائی یا 12 ہزار درہم نقرئی۔ (2) قبضہ کے وقت اونٹوں کی قیمت کا اندازہ اور اندازہ کے مطابق روپیہ کی ادائیگی خواہ ہزار دینار اور بارہ ہزار درہم سے زائد ہو یا کم۔ ہزار دینار طلائی کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے جو ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے بیان کی ہے۔ ہم آئندہ اس کو بیان کریں گے۔ نقرئی دیت کی مقدار حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت کے بارہ ہزار مقرر کئے۔ یہ حدیث عکرمہ ؓ کی روایت سے اصحاب السنن نے بیان کی ہے۔ البتہ عکرمہ ؓ سے نیچے عمرو بن دینار پر راویوں کا اختلاف ہوگیا۔ محمد بن مسلمہ طائفی نے عمرو بن دینار کی روایت سے اس کو مرفوعاً ذکر کیا ہے اور سفیان بن عیینہ نے عکرمہ ؓ کی روایت سے مرسلاً ۔ رواہ عبدالرزاق فی مصنفہ۔ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ کا قول نقل کیا ہے کہ اس کو مرسل کہنا زیادہ صحیح ہے۔ ابن حزم نے لکھا ہے کہ سفیان بن عیینہ کے مشہور شاگردوں نے اس کو مرسلاً ہی ذکر کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک درہم کا وزن چھ (دانگ) تھا اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ سے سات ہوگیا اس لئے چھ (دانگ) کے حساب کے بارہ ہزار سات کے حساب کے تقریباً دس ہزار ہوجاتے ہیں۔ امام شافعی (رح) کے (دوسرے) قول کی وجہ یہ ہے کہ عمرو بن شعیب کی حدیث میں آیا ہے کہ بستیوں والوں پر حضور ﷺ قیمت مقرر کرتے تھے۔ اگر اونٹ گراں ہوئے تو قیمت اونچی کردیتے تھے اور ارزاں ہوئے تو قیمت گھٹا دیتے تھے۔ یہ حدیث امام شافعی نے بحوالۂ مسلم بروایت ابن جریج بیان کی ہے اور ابو داؤد و نسائی نے بسلسلۂ محمد بن راشد از سلیمان بن موسیٰ از عمرو بن شعیب۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top