Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 31
مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ
مِثْلَ دَاْبِ : جیسے ۔ حال قَوْمِ نُوْحٍ : قوم نوح وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ : اور عاد اور ثمود وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ۭ : ان کے بعد وَمَا اللّٰهُ يُرِيْدُ : اور اللہ نہیں چاہتا ظُلْمًا : کوئی ظلم لِّلْعِبَادِ : اپنے بندوں کیلئے
یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوئے ہیں ان کے حال کی طرح (تمہارا حال نہ ہوجائے) اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا
مثل داب قوم نوح وعاد وثمود والذین من بعدھم وما اللہ یرید ظلما للعباد جیسا قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والوں کا حال ہوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ بندوں کیلئے کسی ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یعنی موسیٰ کی جو تم تکذیب کر رہے ہو اور اس کو قتل کرنا چاہتے ہو ‘ اس سے مجھے تمہارے متعلق اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آیا جیسا ان گذشتہ امتوں پر آیا تھا جنہوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی تھی ‘ جیسے قوم نوح پر اور عاد پر اور ثمود پر اور ان کے بعد والوں پر (مثلاً قوم لوط اور نمرود وغیرہ پر) عذاب آیا تھا ‘ ویسا ہی تم پر عذاب آنے کا مجھے ڈر ہے۔ ظُلْمًا لِّلْعِبَاد ۔ للعباد میں لام زائد ہے اور العباد مفعول ہے ‘ لام کی زیادتی مصدر (ظلماً ) کے عمل کو قوت پہنچانے کیلئے کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی بندہ پر کسی طرح کا ظلم نہیں کرنا چاہتا کہ کسی کو بلاقصور سزا دے ‘ یا ظالم کو بغیر انتقام کے چھوڑ دے ‘ یا کسی کی نیکی کے ثواب میں کمی کر دے ‘ یا کسی مجرم کی سزا اس کے جرم کی مقدار سے زائد کر دے۔
Top