Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaafir : 85
فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
فَلَمْ يَكُ : تو نہ ہوا يَنْفَعُهُمْ : ان کو نفع دیتا اِيْمَانُهُمْ : ان کا ایمان لَمَّا : جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھ لیا بَاْسَنَا ۭ : ہمارا عذاب سُنَّتَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ : وہ جو گزرچکا ہے فِيْ عِبَادِهٖ ۚ : اس کے بندوں میں وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہے هُنَالِكَ : اس وقت الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے ان کو کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ (یہ) خدا کی عادت (ہے) جو اس کے بندوں (کے بارے) میں چلی آتی ہے۔ اور وہاں کافر گھاٹے میں پڑ گئے
فلم یک ینفعھم ایمانھم لما راوا باسنا سو ان کو ان کا ایمان لانا نفع بخش نہیں ہوا ‘ جبکہ انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا جب انہوں نے عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ایمان لانا بےسود تھا ‘ کیونکہ اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی ‘ اسلئے لَمْ یَکُ فرمایا ‘ یعنی ایسے وقت میں ایمان لانا درست اور ٹھیک نہیں تھا۔ سنت اللہ التی قدخلت فی عبادہ وخسرھنا لک الکفرون اللہ نے اپنا یہی معمول مقرر کیا ہے جو اس کے بندوں میں پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے اور اس وقت کافر (دونوں جہان کے) خسارے میں رہ گئے۔ سُنَّتَ اللہ یعنی (ہمیشہ سے) گذشتہ زمانہ میں۔ اللہ نے بندوں کے معاملہ میں یہ طریقہ بنا دیا ہے کہ نزول عذاب کے وقت ایمان لانا بےسود ہے اور عذاب انہی لوگوں پر آتا ہے جو پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں۔ ھُنَالِکَ یعنی عذاب کو دیکھ لینے کے وقت۔ زجاج نے کہا : کافر تو ہر وقت ہی خسارے میں رہتا ہے ‘ لیکن اس خسارے کا ان کیلئے ظہور اس وقت ہوتا ہے جب عذاب انکی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ الحمد اللہ 28/ذی الحجہ 1207 ھ ؁ کو تفسیر المؤمن ختم ہوئی اس کے بعد انشاء اللہ سورة فصّلت (السجدہ) کی تفسیر آئے گی والحمد اللہ ربّ العٰلمین وصلّی اللہ تعالیٰ عَلٰی خیر خلقہ محمد واٰلہٖ و اصحابہ اجمعین
Top