Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 42
اَوْ نُرِیَنَّكَ الَّذِیْ وَعَدْنٰهُمْ فَاِنَّا عَلَیْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ
اَوْ نُرِيَنَّكَ : یا ہم دکھائیں آپ کو الَّذِيْ : وہ چیز وَعَدْنٰهُمْ : وعدہ کیا ہم نے ان سے فَاِنَّا : تو بیشک ہم عَلَيْهِمْ : ان پر مُقْتَدِرُوْنَ : قدرت رکھنے والے
یا (تمہاری زندگی ہی میں) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں گے جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم ان پر قابو رکھتے ہیں
او نرینک الذی وعدنھم فانا علیھم مقتدرون یا جس عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے (آپ کی زندگی ہی میں) ہم آپ کو دکھا دیں (تو کچھ بعید نہیں) ہم کو ان پر ہر طرح سے قدرت حاصل ہے۔ فَاِمَّا (اصل میں فَاِنْ مَا تھا ‘ اس) میں ان شرطیہ ہے اور مَا زائد برائے تاکید ‘ اسلئے نذھِبنّ میں نون تاکید ثقلیہ لانا ضروری ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کو عذاب دینے سے پہلے اگر ہم آپ کو وفات دے دیں تو آپ کے بعد بلاشبہ ہم ان کو دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا کریں گے اور آخرت میں بھی ‘ یعنی آپ کچھ فکر نہ کریں ‘ ہم تو ان سے انتقام لینے والے ہی ہیں۔ اور آپ کی زندگی میں ہی ان پر عذاب موعود آجائے تو آپ کو تعجب نہ کرنا چاہئے ‘ ہم ان کو عذاب دینے پر بہرحال قدرت رکھتے ہیں ‘ یہ ہمارے قبضہ سے باہر نہیں ہیں۔ ہم جب چاہیں گے ‘ ان کو عذاب دے سکتے ہیں۔ آیت مندرجہ میں مشرکین مکہ مراد ہیں ‘ بدر کی لڑائی میں اللہ نے ان سے انتقام لے لیا۔ اکثر اہل تفسیر کا یہی قول ہے۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ امت اسلامیہ مراد ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تو امت مسلمہ کے درمیان آپس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو حضور ﷺ کیلئے تکلیف دہ اور رنج کا باعث ہوتی ‘ لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد امت محمدیہ شدید عذاب (باہمی جدال و قتال اور نفاق و شقاق) میں مبتلا ہوگئی۔ روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں وہ حوادث دکھا دئیے گئے جو امت کو آپ کے بعد پیش آنے والے تھے ‘ اس خواب کے بعد وقت وفات تک آپ کو کبھی خنداں وفرحاں نہیں دیکھا گیا۔ میں کہتا ہوں : شاید امام حسین کا شہید ہونا اور بنی امیہ کے آئندہ کرتوت حضور ﷺ کو خواب میں دکھا دئیے گئے تھے۔ عبدالرحمن بن مسعود عبدی کا بیان ہے کہ حضرت علی نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا : اللہ کے نبی تو چلے گئے اور اللہ کا عذاب اس کے بعد دشمنوں کیلئے باقی رہ گیا۔
Top