Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا
ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں ‘ وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ یعنی اے محمد ﷺ ! حدیبیہ میں آپ کے ہاتھ پر یہ بیعت (معاہدہ) کر رہے ہیں کہ میدان جنگ سے فرار نہیں کریں گے ‘ اور اس وقت تک لڑتے رہیں گے کہ فتح یاب ہوں یا مارے جائیں۔ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کا اصل مقصد اللہ ہی سے معاہدہ کرنا ہے۔ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ یہ جملہ استینا فیہ ہے اور کلام کی بناء استعارۂ تخییلیہ پر ہے۔ اوپر کی آیت میں جب رسول اللہ ﷺ کی بیعت کو ‘ اللہ کی بیعت قرار دیا اور بیعت کا مشہور معنی ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا ہی تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے بھی لوگوں سے اسی طرح بیعت لی تھی تو گویا اللہ کے ہاتھ کا (بوقت بیعت) ان کے ہاتھ پر ہونے کا تخیل پیدا ہوگیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ نے جو ان سے خیر کا وعدہ کیا تھا ‘ اس کو پورا کرنے والا اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ میں کہتا ہوں : جب ید اللہ سے (بقول ابن عباس) ایفائے وعدہ کا ہاتھ مراد ہوگا تو اس وقت ید اللہ ‘ 1 اللہ کی ایک خاص صفت قرار پائے گی ‘ جس کی کیفیت ناقابل تصور ہے۔ کلبی نے کہا : ید اللہ یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت کی نعمت۔ فوق ایدیھم یعنی انہوں نے جو بیعت کی تھی ‘ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جو رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی ‘ اس سے بالاتر اللہ نے ہدایت کی نعمت ان کو عطا کی۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے بروایت مجاہد و قتادہ اور بیہقی نے صرف مجاہد کی روایت اور ابن جریر نے ابن یزید اور محمد بن عمرو کے حوالہ سے بیان کیا کہ حدیبیہ کو روانگی سے پہلے مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ امن کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ہیں ‘ کچھ لوگوں کے سر منڈے ہوئے ہیں اور کچھ نے بال کتروا لئے ہیں ‘ اسی حالت میں آپ کے کعبہ کی کنجی لے لی اور بیت اللہ میں داخل ہوگئے ‘ کذا قال البغوی و محمد بن یوسف الصنابحی فی سبیل الرشاد۔ بعض اقوال میں بروایت مجاہد آیا ہے کہ حضور ﷺ نے یہ خواب اس وقت دیکھا تھا جب آپ حدیبیہ میں تھے۔ اول روایت صحیح ہے۔ ابن سعد اور محمد بن عمر وغیرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آس پاس کے صحرا نشین لوگوں کو اور (دوسرے) عربوں کو اپنے ساتھ نکل چلنے کی ترغیب دی ‘ لیکن آپ کو اندیشہ لگا ہوا تھا کہ قریش ضرور تعرض کریں گے اور کعبہ تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالیں گے (آپ کی طلب کے باوجود) بکثرت بادیہ نشین لوگ نہیں آئے۔ امام احمد ‘ بخاری ‘ عبد بن حمید ‘ ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے بروایت زہری بیان کیا اور محمد بن اسحاق نے بروایت زہری اور از عروہ از مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم بیان کیا کہ (حدیبیہ کو روانہ ہونے سے پہلے) رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کے اندر جا کر غسل کیا ‘ پھر صحابہ کے بنے ہوئے دو کپڑے (چادر اور لنگی) پہنے ‘ پھر دروازے کے پاس سے ہی قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوئے۔ حضرت ام سلمہ کو ساتھ لیا ‘ حضرت ام منیع ‘ حضرت اسماء بنت عمرو اور حضرت ام عمارہ اشہیلہ بھی آپ کے ساتھ تھیں۔ مہاجرین ‘ انصار اور دوسرے عرب بھی آپ کے ساتھ آکر مل گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے خواب کی وجہ سے کسی کو فتح میں شک بھی نہیں تھا۔ ان حضرات کے پاس تلواروں کے علاوہ اور اسلحہ بھی نہیں تھے اور تلواریں بھی نیاموں کے اندر تھیں۔ حضور ﷺ نے قربانی کے جانور پہلے سے بجھوا دئیے تھے۔ یکم ذیقعدہ 6 ھ ؁ بروز دو شنبہ مدینہ سے روانہ ہوئے ‘ دوپہر کو ذوالحلیفہ میں پہنچ کر کر ظہر کی نماز پڑھی۔ قربانی کیلئے ستر اونٹ تھے ‘ سب کو جھولیں پہنائی گئیں اور ان میں سے چند کو قبلہ رخ کھڑا کر کے دائیں پہلو پر زخم خود لگائے (اشعار کیا) اور باقی اونٹوں کو اشعار کرنے کا حکم ناحبۂ بن جندب کو دیا ‘ اور ایک ایک جوتہ (قربانی کے) ہر اونٹ کی گردن میں ڈال دیا۔ مسلمانوں نے اپنی اپنی قربانی کے اونٹوں کو اشعار کیا اور ان کی گردنوں میں ایک ایک جوتہ لٹکا دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ دو سو گھوڑے بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بسر بن سفیان کو (قریش کی خبریں معلوم کرنے کیلئے) بطور جاسوس پہلے بھیج دیا اور عباد بن بشر کو بیس سواروں کے ساتھ بطور ہر اول آگے روانہ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر اول دستہ کا کمانڈر سعد بن زید اشہلی کو مقرر کیا تھا۔ پھر آپ نے دو رکعت نما زپڑھی اور ذوالحلیفہ کی مسجد کے دروازہ سے اونٹنی پر سوار ہوگئے ‘ اونٹنی قبلہ رخ تھی۔ جب اونٹنی اٹھی تو آپ نے عمرہ کا احرام باندھ لیا تاکہ لوگوں کو یہ خطرہ نہ ہو کہ آپ لڑائی کے ارادہ سے روانہ ہوئے ہیں ‘ بلکہ سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کا ارادہ کعبہ کی زیارت کا ہے۔ حضور ﷺ نے لبیک کہی ‘ آپ کے احرام کے ساتھ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ اور اکثر صحابہ نے بھی احرام باندھ لیا۔ بعض صحابہ نے جحفہ پہنچ کر احرام باندھا۔ آپ بیداء کے راستے سے چلے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان قبائل بنی بکر ‘ مزینہ اور جہینہ کی آبادیاں تھیں ‘ آپ کا گذر ان کی رف سے ہوا تو آپ نے ان کو بھی چلنے کی ترغیب دی ‘ لیکن وہ اپنے مالی مشاغل میں مشغول رہے اور آس میں ایک نے دوسرے سے کہا : محمد ﷺ لوٹ کر آئیں گے ‘ نہ ان کے ساتھی۔ یہ نہتے لوگ ہیں ‘ نہ ان کے پاس اسلحہ ہیں ‘ نہ ان کی کوئی (معقول) تعداد ہے ‘ نہ سروسامان۔ اسی سفر میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ حضرت قتادہ نے جو احرام میں نہ تھے ‘ ایک گورخر شکار کیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کا کچھ حصہ پیش کیا۔ یہ واقعہ مقام ابواء کا ہے ‘ سورة المائدۃ میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب جحفہ میں پہنچے تو ایک درخت کے نیچے پڑاؤ کا حکم دیا اور فروکش ہونے کے بعد لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا : میں تمہارا پیش خیمہ (ہراول) بننے والا ہوں ‘ اور تمہارے لئے دو چیزیں چھوڑ جاؤں گا : اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت ‘ اگر تم ان کو پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے۔ (مکہ کے) مشرکوں کو جب رسول اللہ ﷺ کی روانگی کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے جمع ہو کر باہم مشورہ کیا اور کہا : محمد ﷺ زبردستی عمرہ کرنے کیلئے اپنے لشکر کو لے کر ہم پر آنا چاہتے ہیں۔ عرب سنیں گے کہ محمد ﷺ زبردستی ہم پر چڑھ آئے جبکہ ہمارے اور ان کے درمیان جو لڑائی ہے ‘ وہ سب کو معلوم ہے (تو ہماری کمزوری ظاہر ہوگی) ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اسکے بعد دو سو سواروں کا کمانڈر بنا کر خالد بن ولید کو انہوں نے کراع الغمیم کو بھیجا۔ خالد بن ولید مختلف قبائل کی ٹولیوں کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور بنی ثقیف بھی ان کے ساتھ کھنچ کر آگئے ‘ اس طرح سب لوگ بلدح کے مقام پر پہنچ گئے اور وہاں ڈیرے خیمے نصب کر دئیے ‘ عورتیں اور بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔ بلدح میں فوجی اجتماع ہوگیا۔ سب نے اتفاق کرلیا کہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کریں گے اور مکہ میں ان کو گھسنے نہیں دیں گے۔ دس آدمیوں کو جاسوسی کیلئے پہاڑیوں پر مقرر کردیا۔ پہلا جاسوس دوسرے کو بطور اشارہ آواز سے کہتا کہ محمد ﷺ اب یہ کر رہے ہیں۔ دوسرا ‘ تیسرے سے اور تیسرا ‘ چوتھے سے یہی کہتا تھا ‘ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی ہر نقل و حرکت کی قریش تک اطلاع پہنچ جاتی تھی۔ بشر بن سفیان ‘ جن کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوس مقرر کر کے بھیجا تھا ‘ مکہ سے لوٹ آئے اور عسفان کے عقب میں غدیر الاشطاط کے مقام پر رسول اللہ ﷺ سے ملے اور عرض کیا : قریش کو آپ کی روانگی کی اطلاع مل گئی ‘ وہ مکہ سے نکل آئے ہیں ‘ ان کے ساتھ نوزائیدہ بچے بھی ہیں۔ (اس وقت) وہ مقام ذی طویٰ میں فروکش ہیں اور سب نے خدا کی قسمیں کھا کر معاہدہ کرلیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی گھسنے نہیں دیں گے۔ خالد بن ولید کو انہوں نے کراع الغمیم کو پہلے بھیج دیا ہے۔ یہ خبر سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : افسوس قریش کے حال پر ‘ ان کو لڑائیاں کھا گئیں۔ مجھے اگر عرب کیلئے یہ لوگ آزاد چھوڑ دیتے (اور میرے اور عرب کے معاملے میں دخل نہ دیتے) تو ان کا کیا نقصان ہوجاتا ؟ اگر عرب مجھ پر غالب آجاتے تو ان کی مراد پوری ہوجاتی اور اگر اللہ مجھے عرب پر غالب کردیتا تو یہ بھی (ہماری جماعت میں) داخل ہوجاتے اور تعداد کو بڑھا دیتے اور اگر وہ ایسا نہ بھی کرتے (مسلمانوں کی جماعت میں داخل نہ ہوتے) تب بھی ان میں طاقت ہوتی اور وہ (دشمنوں سے) لڑ سکتے۔ قریش کا کیا خیال ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں ان سے اس دین کی بنیاد پر برابر جہاد کروں گا جو مجھے اللہ نے عطا فرما کر بھیجا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کردیا یا یہ گردن تنہا رہ جائے۔ اسکے بعد رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں (کے حلقہ) میں کھڑے ہو کر اول اللہ کی حمد و ثنا کی ‘ پھر فرمایا : اما بعد ! اے گروہ اہل اسلام ! مجھے مشورہ دو تمہاری کیا رائے ہے ‘ کیا میں ان لوگوں کے بال بچوں کی طرف اپنا رخ موڑ دوں اور ہم ان کو پکڑ لیں ‘ اس پر اگر (چپ ہو کر) یہ لوگ بیٹھ رہے تو بغیر انتقام لئے بیٹھ رہیں گے اور اگر ہمارے مقابلہ پر آئیں گے تو اللہ ان میں سے کچھ لوگوں کی گردن کاٹ دے گا ‘ یعنی ان میں کی ایک جماعت ماری جائے گی ‘ اور یا تمہاری یہ رائے ہے کہ ہم کعبہ (کی زیارت) کے ارادے سے چلیں ‘ پھر جو لوگ ہم کو کعبہ سے روکیں ‘ ہم ان سے لڑیں۔ حضرت ابوبکر نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کعبہ کے ارادہ سے چلے ہیں ‘ آپ کا ارادہ نہ کسی سے قتال کرنے کا تھا ‘ نہ لڑنے کا ‘ لہٰذا آپ کعبہ کا رخ کیجئے۔ اگر کسی نے ہم کو راستہ میں روکا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ حضرت اسید بن حضیر نے حضرت ابوبکر کے قول کی تائید کی۔ ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر کے کلام کے بعد حضرت مقداد بن اسود نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر سے کہی تھی کہ تم جاؤ اور تمہارا رب جائے اور دونوں جا کر لڑو ‘ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ‘ بلکہ ہم آپ سے یہ کہیں گے کہ آپ (بھی) جائیں ‘ آپ کا رب بھی جائے اور دونوں جا کر (مشرکوں سے) لڑیں ‘ ہم بھی آپ کی معیت میں لڑیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تو پھر بسم اللہ کہہ کر چل پڑو۔ خالد بن ولید اپنے سواروں کے ساتھ اتنے قریب آگئے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ان کو دکھائی دینے لگے ‘ چناچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ اور قبلہ کے درمیان صف بندی کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی عباد بن بشر کو آگے بڑھ کر صف بندی کرنے کا حکم دے دیا ‘ عباد نے بھی آگے بڑھ کر خالد کے مقابل اپنے سواروں کو صف بند کردیا۔ اتنے میں ظہر کا وقت ہوگیا ‘ حضرت بلال نے اذان دی اور اقامت کہی ‘ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ خالد نے کہا : یہ لوگ غفلت کی حالت میں تھے ‘ اگر نماز میں ہم ان پر حملہ کردیتے تو کامیاب ہوجاتے۔ خیر ابھی ان کی دوسری نماز کا وقت آئے گا جو ان کو جان و اولاد سے زیادہ پیاری ہے (اس وقت حملہ کریں گے) حضرت جبرئیل ظہر اور عصر کے درمیان آیت وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْھُمْ الخ لے کر آگئے۔ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا ‘ رسول اللہ صلی نے (حسب مضمون آیت) صلوٰۃ خوف پڑھی۔ اس کی تفصیل سورة النساء میں گذر چکی ہے۔ محمد بن عمر اور بزار نے معتبر ‘ قابل اعتماد راویوں کی سند سے حضرت ابو سعید خدری کا بیان نقل کیا ہے کہ شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دائیں طرف حمص کے سامنے کے راستے پر چلو ‘ کیونکہ خالد بن ولید سواروں سمیت قریش کے ہر اول کے طور پر کراع الغمیم میں موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ پر بڑے مہربان تھے ‘ آپ خالد سے تصادم نہیں چاہتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم میں سے حنظل والی گھاٹی سے کون واقف ہے ؟ بریدہ بن حصیب نے جواب دیا : میں واقف ہوں۔ مسلم نے حضرت جابر کی روایت سے ابو نعیم نے حضرت ابو سعید کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ‘ جب عسفان میں پہنچے تو پچھلی رات میں چل کر حنظل والی گھاٹی کے سامنے پہنچ گئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : آج رات اس گھاٹی کی مثال اس دروازہ کی سی ہے جس میں داخل ہونے کا حکم اللہ نے بنی اسرائیل کو دیا تھا اور فرمایا تھا : اُدْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ الخ آج رات اس گھاٹی کو جو شخص عبور کرے گا ‘ اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول ان ﷺ ! ہم کو اندیشہ ہے کہ قریش ہماری جلائی ہوئی آگ دیکھ لیں گے (یعنی جب گھاٹی میں ہم آگ جلائیں گے تو قریش ہم کو دیکھ لیں گے) فرمایا : وہ تم کو ہرگز نہیں دیکھ سکیں گے ‘ پھر فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! تمام سواروں کو (یا سارے قافلے کو) سوائے اس ایک شخص کے جو سرخ اونٹ پر سوار ہے ‘ بخش دیا گیا۔ (لوگوں نے جستجو کی کہ وہ بدقسمت کون ہے جس کی مغفرت نہیں ہوئی تو معلوم ہوا کہ) وہ بنی ضمرہ کا ایک شخص ہے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ ہم نے اس شخص سے کہا : چل ‘ ہم رسول اللہ ﷺ سے درخواست کریں کہ تیرے لئے حضور ﷺ دعاء مغفرت کردیں۔ کہنے لگا : اگر میری گم شدہ اونٹنی مجھے مل جائے تو آپ لوگوں کے ساتھی کی دعاء سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ اسی اثناء میں جب ہم سرادع کے سامنے پہنچ گئے تو اس کی اونٹنی کا پاؤں پھسلا اور وہ گر کر مرگیا اور کسی کو معلوم بھی نہ ہوا جب تک درندوں نے اس کو کھا نہ لیا۔ حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے قریب پہنچے تو آپ کی اونٹنی کا اگلا پاؤں زمین میں پڑگیا (یعنی بیٹھ گئی) لوگوں نے کہا : حل حل ‘ لیکن اونٹنی نے اٹھنے سے انکار کردیا اور جمی بیٹھی رہی۔ مسلمانوں نے کہا : قصویٰ اڑ گئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : قصویٰ اڑی نہیں ہے اور نہ یہ (اڑ کر بیٹھنا) اس کی عادت ہے ‘ بلکہ اس کو اسی نے روک رکھا ہے جس نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا تھا۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! آج قریش جس بات کا مجھ سے مطالبہ کریں گے بشرطیکہ اس میں حرمات خداوندی کی تعظیم ہو ‘ میں منظور کرلوں گا۔ پھر حضور ﷺ نے اونٹنی کو ڈانٹا ‘ اونٹنی فوراً اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ اسکے بعد حضور ﷺ رخ موڑ کر چلے اور حدیبیہ کے آخری کنارہ پر جہاں تھوڑا سا پانی تھا ‘ پہنچ کر اتر پڑے۔ صحابہ کو خیال ہوا کہ پانی تھوڑا ہے ‘ لوگ اس کو (جلد) ختم کریں گے ‘ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ لوگوں نے تھوڑی ہی دیر میں سارا پانی (اس تالاب یا کنویں کا) کھینچ کر ختم کردیا۔ کچھ لوگوں نے حضور ﷺ سے پانی کی قلت کی شکایت کی ‘ آپ نے فوراً اپنی ترکش میں سے ایک تیر نکال کر حکم دیا کہ اس تیر کو اس جگہ گاڑ دو جہاں گڑھے میں پانی جمع ہو۔ (حکم کی تعمیل کی گئی) پھر تو سیراب ہو ہو کر لوگ اس سے باہر نکلنے لگے۔ حضرت مسور کا بیان ہے کہ (پانی اتنا زیادہ ہوا کہ) لوگ کنارے پر بیٹھے بیٹھے اپنے برتن بھرنے لگے ‘ اور تیر لے کر پانی کے اندر اترنے والے ناحیہ بن جندب تھے جو رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو ہنکانے والے تھے۔ محمد بن عمر کی روایت ہے کہ ابو مروان نے کہا : مجھ سے چودہ صحابیوں نے بیان کیا کہ تیر لے کر پانی میں اترنے والے ناحیہ بن عجم تھے۔ ناحیہ کا بیان ہے کہ لوگوں نے جب پانی کی کمی کی شکایت کی تو حضور ﷺ نے مجھے طلب فرما کر ترکس میں سے ایک تیر کھینچ کر مجھے دیا اور (کم پانی والے اس) کنویں سے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا ‘ میں ڈول بھر کر لایا۔ حضور ﷺ نے وضو کیا اور منہ میں کلی لے کر ڈول میں تھوک دیا۔ سخت گرمی پر رہی تھی اور وہ کنواں ایک ہی تھا۔ مشرک پہلے ہی بلدح میں پہنچ گئے تھے اور وہاں کے تمام پانیوں پر انہوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ڈول کو لے کر نیچے اتر جانا اور کنویں میں اس کو الٹ دینا اور تیر کو اس میں گاڑ دینا۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ قسم ہے اس کی جس نے حضور ﷺ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ! میں نکلنے بھی نہ پایا تھا کہ پانی میرے اوپر آگیا اور ہانڈی کے ابل کی طرح ابلنے لگا ‘ یہاں تک کہ اچھل کر کناروں کے برابر آگیا۔ لوگ اس کے کنارے ہی سے چلو بھر بھر کرلینے لگے۔ امام احمد اور بخاری وغیرہ نے حضرت براء کی روایت سے اور مسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے اور ابونعیم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اور بیہقی نے عروہ وغیرہ کی روایت سے بھی اسی طرح ڈول الٹنے کا واقعہ بیان کیا ہے ‘ لیکن ان روایت میں تیر کا تذکرہ نہیں ہے۔ بخاری نے حضرت جابر کی روایت سے اور مسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے بیان کیا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک چھوٹی سی چھاگل (یا پانی پینے کا چمڑے کا پیالہ ‘ کوئی ایک چیز) رکھی ہوئی تھی۔ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے پاس پانی نہیں کہ وضو کریں ‘ نہ پینے کیلئے پانی ہے ‘ بس اتنا ہی پان ی ہے جو آپ کے کٹورے میں ہے۔ حضور ﷺ کے سامنے ایک بڑا پیالہ رکھا ہوا تھا (حسب الحکم) ہم نے وہ پانی اس پیالے میں الٹ دیا اور حضور ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس میں ڈال دئیے ‘ فوراً آپ کی انگلیوں کے نیچ میں سے پانی جوش مار کر چشموں کی طرح ابلنے لگا۔ ہم نے وہ پانی (خوب) پیا اور وضو بھی کیا۔ حضرت جابر سے دریافت کیا گیا : آپ لوگ اس روز کتنے تھے ؟ حضرت جابر نے فرمایا : ہم تھے تو پندرہ سو ‘ لیکن اگر ایک لاکھ ہوتے تب بھی سب کیلئے کافی ہوجاتا۔ رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ میں مطمئن ہوگئے تو بدیل ابن ورقاء ‘ خزاعہ قبیلہ کے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر آیا (بعد کو بدیل مسلمان ہوگیا) اس کے ساتھیوں میں عمرو بن سالم ‘ حراس بن امیہ ‘ خارجہ بن کرز اور یزید بن امیہ بھی تھے۔ سب لوگوں نے آکر سلام کیا ‘ پھر بدیل نے کہا : ہم آپ کے پاس آپ کی قوم کعب بن لوی اور عامر بن لوی (یعنی قریش) کی طرف سے آئے ہیں ‘ وہ آپ کے مقابلہ کیلئے تمام قبائل کے لوگوں کو اور ان سب لوگوں کو نکال کرلے آئے ہیں جو ان کی بات مانتے ہیں اور حدیبیہ کے پانیوں پر یہ تمام لوگ اترے ہوئے ہیں ‘ ان کے ساتھ نوزائیدہ بچوں کی مائیں بھی ہیں اور چھوٹے بچے بھی ہیں ‘ سب لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھائی ہیں کہ وہ آپ کو کعبہ تک پہنچنے کا راستہ نہیں دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ‘ صرف اس کعبہ کا طواف کرنے آئے ہیں۔ جو کوئی ہم کو اس سے روکے گا ‘ ہم اس سے لڑیں گے۔ قریش کو لڑائی ہی نے انتہائی کمز ور کردیا۔ اگر قریش چاہتے ہوں تو ہم ان سے ایک مقرر مدت کیلئے امن کا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں (شرط یہ ہے کہ) وہ ہمارے اور دوسرے لوگوں کے معاملہ میں دخل نہ دیں ‘ دوسرے لوگوں کی تعداد قریش سے زائد ہے (ان کو ان کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں) اگر وہ لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو قریش کی مراد پوری ہوجائے گی اور اگر میری با غالب آئی تو قریش کو پھر بھی اختیار ہوگا کہ چاہیں تو اسی دین میں داخل ہوجائیں جس میں دوسرے لوگ داخل ہوں اور چاہیں تو (ہم سے) سب اکٹھے ہو کر لڑیں ‘ لیکن اگر یہ لوگ اس پر بھی نہیں مانیں گے تو اللہ کی قسم ! میں اپنے کام کی کوشش میں اس حدتک لگا رہوں گا کہ میری گردن اکیلی رہ جائے یا اللہ اپنے حکم نافذ کر دے (یعنی میں کامیاب ہوجاؤں) ۔ بدیل نے کہا : آپ کی یہ باتیں میں قریش کو پہنچا دوں گا۔ چناچہ بدیل نے قریش سے آکر کہا : ہم محمد ﷺ کے پاس سے آ رہے ہیں اور آپ لوگوں کو ان کی (گفتگو کے متعلق) اطلاع دینا چاہتے ہیں۔ عکرمہ بن ابوجہل اور حکم بن عاص (یہ دونوں آئندہ مسلمان ہوگئے تھے) نے کہا : ہم کو ان کی گفتگو کی اطلاع دینے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ بلکہ ان سے جا کر ہماری بات کہہ دو کہ اس سال جب تک ایک آدمی بھی باقی ہے ‘ وہ مکہ میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے۔ عروہ بن مسعود ثقفی نے مشورہ دیا کہ بات سنو ‘ پھر چاہو تو ماننا ‘ پسند نہ ہو نہ ماننا۔ صفوان بن امیہ اور حارث ابن ہشام (یہ دونوں بھی آئندہ مسلمان ہوگئے تھے) نے کہا : اچھا ! تم نے جو کچھ سنا ہے ‘ بیان کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا تھا ‘ بدیل نے وہ بیان کردیا۔ اس کے بعد عروہ نے کہا : اے میری قوم ! کیا تم (میرے) بچے نہیں ہو ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں۔ عروہ نے کہا : کیا میں تمہارا باپ نہیں ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں (عروہ ابن مسعود خاندان عبدشمس کی سات قریشی شاخوں سے رشتہ رکھتا تھا) عروہ نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ میں اہل عکاظ کو (تمہاری مدد کیلئے) نکال کر لایا تھا ‘ لیکن جب ان کے پاس میں نے کچھ نہیں پایا تو اپنے اہل و اولاد کو اور ان لوگوں کو تمہارے پاس لے آیا ‘ جنہوں نے میرا کہنا مانا ؟ لوگوں نے کہا : بیشک۔ عروہ نے کہا : تو اس شخص نے ایک اچھی بات تمہارے سامنے رکھی ہے ‘ تم یہ بات قبول کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں اسکے پاس جاؤ (اور بات کروں) ۔ رسول اللہ ﷺ نے عروہ سے بھی وہی بات کہی جو بدل سے کہی تھی۔ عروہ نے کہا : محمد ﷺ دیکھو ! اگر تم نے اپنی قوم کی جڑ اکھاڑ پھینکی (تو کیا یہ کوئی اچھی بات ہوگی) کیا تم نے سنا ہے کہ کسی عرب نے تم سے پہلے خود اپنی بیخ کنی کی ہو اور اگر کوئی دوسری بات ہوئی (یعنی تم مغلوب) ہوئے تو بعید نہیں کیونکہ) اللہ کی قسم ! میں (تمہارے گرداگرد) کچھ رذیل لوگوں کے چہرے دیکھ رہا ہوں جو تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : تو لات کی شرمگاہ چوستا رہ ‘ کیا ہم حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عروہ نے کہا : یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوبکر ہیں۔ عروہ نے کہا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تیرا سابق احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کی اطلاع میں نے تجھے بھی نہیں دی تو میں تیری بات کا جواب دیتا۔ عروہ نے ایک بار کسی قتل کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا بار اپنے اوپر اٹھایا تھا ‘ اس کی امداد میں کسی نے ایک حصہ ‘ کسی نے دو حصے ‘ کسی نے تین سہام دئیے تھے اور حضرت ابوبکر نے دس سہام دیئے تھے۔ عروہ پر حضرت ابوبکر کا یہی احسان تھا (جو عروہ کو یاد تھا اور اسی کی طرف عروہ نے اشارہ کیا تھا) اس کے بعد عروہ ‘ رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے لگا اور بات کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک (ہاتھ بڑھا کر) پکڑنے لگا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ تلوار لئے ‘ خود اوڑھے رسول اللہ ﷺ کے سر کے پیچھے کھڑے تھے ‘ جب عروہ ‘ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ‘ آپ تلوار کا پھل اسکے ہاتھ پر مارتے تھے اور فرماتے تھے : رسول اللہ ﷺ کی ریش مبارک سے اپنا ہاتھ الگ رکھ ‘ کسی مشرک کیلئے ریش مبارک کو چھونا مناسب نہیں۔ عروہ نے سر اوپر اٹھا کر پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے کہا : او غدار ! کل ہی تو تو نے اپنے سرینوں کی نجاست عکاعظ میں دھوئی ہے اور ہمیشہ کیلئے تو نے ہی بنی ثقیف کی عداوت ہمارے اندر پیدا کردی ہے۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ حضرت مغیرہ دور جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ تھے ‘ موقع پا کر آپ نے ان کو قتل کردیا اور ان کا مال لوٹ لیا ‘ پھر آکر مسلمان ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام کو تو میں قبول کرتا ہوں ‘ لیکن اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں (میں اس کا ذمہ دار نہیں) ۔ اس کے بعد عروہ اپنی آنکھوں سے صحابہ کرام کی حالت کا مشاہدہ کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ناک کی ریزش جو پھینکتے ہیں ‘ اس کو زمین پر گرنے سے پہلے کوئی صحابی اپنے ہاتھ پر لے کر منہ اور جلد پر مل لیتا ہے۔ جب حضور ﷺ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو صحابی باہم اس کام کو کرنے کی طرف پیش قدم کرتے ہیں اور جب آپ وضو کرتے ہیں تو وضو کا استعمالی پانی لینے کیلئے صحابی ایسی چھینا جھپٹی کرتے ہیں جیسے باہم لڑ پڑیں گے۔ جب آپ کوئی بات کرتے ہیں تو آپ کے بولنے کے وقت سب لوگ اپنی آوازیں پست کرلیتے ہیں اور تعظیم و ادب کی وجہ سے نظر اٹھا کر آپ کی طرف نہیں دیکھتے۔ یہ دیکھ کر عروہ اپنے رفقاء کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا : میری قوم والو ! خدا کی قسم ! میں بادشاہوں کے پاس گیا ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی حاضر ہوا ‘ لیکن بخدا ! کسی کے ساتھیوں کو بادشاہ کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد ﷺ کے ساتھی محمد ﷺ کی کرتے ہیں۔ جب محمد ﷺ ناک کی ریزش پھینکتے ہیں تو وہ (زمین پر پہنچنے سے پہلے) کسی صحابی کے ہاتھ پر پڑتی ہے اور وہ اس کو اپنے چہرے اور جلد پر مل لیتا ہے اور جب وہ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو ان کے ساتھ اس کام کے کرنے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کا استعمالی پانی لینے کیلئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ لڑ پڑیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھی اپنی آوازیں نیچی کرلیتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ انہوں نے اب ایک اچھی بات پیش کی ہے ‘ تم اس کو قبول کرلو۔ قریش نے جواب دیا : نہیں ‘ ہاں اس سال تم ان کو واپس کر دو ‘ آئندہ سال وہ لوٹ کر آجائیں (اور عمرہ کرلیں) عروہ نے کہا : تو مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ تم پر مصیبت آ پڑنے ہی والی ہے۔ یہ کہہ کر عروہ اپنے ساتھیوں کو لے کر طائف کو واپس چلا گیا۔ مختلف قبائل کے متعدد افراد جو قریش کی حمایت کیلئے آئے تھے ‘ ان کی جماعت کا کمانڈر اس روز جلیس بن علقہ تھا ‘ عروہ کے جانے کے بعد وہ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف چل پڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو اس کو آتا دیکھا تو فرمایا : یہ اسے لوگوں میں سے ہے جو قربانی کے اونٹوں کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اور خدا پرست ہیں۔ تم لوگ اسکے سامنے سے قربانی کے اونٹوں کو لے کر گذرو کہ وہ دیکھ لے۔ جب جلیس نے قربانی کے جانوروں کا سیلاب وادی کے عرض سے آتا ہوا دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ ان کی گردنوں میں قلادے پڑے ہوئے ہیں اور طول حبس کی وجہ سے ان کے بال اڑ گئے ہیں تو رسول اللہ ﷺ تک نہیں پہنچا ‘ فوراً لوٹ کر قریش کے پاس چلا گیا ‘ اور ان سے کہا : اے گروہ قریش ! میں دیکھ آیا کہ قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں قلادے لٹک رہے تھے ‘ طول حبس کی وجہ سے ان کے بال اڑ گئے تھے ‘ ان کو روکنا جائز نہیں۔ قریش نے کہا : بیٹھ جا ‘ تو بدو ہے ‘ تجھے کچھ علم نہیں۔ اس بات پر جلیس کو غصہ آگیا اور بولا : اے گروہ قریش ! اس بات پر ہم نے تم سے معاہدہ نہیں کیا تھا اور نہ یہ وعدہ کیا تھا کہ جو خانۂ کعبہ کی تعظیم کیلئے آئے گا ‘ تم اس کو روک دو گے۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں جلیس کی جان ہے ! یا تو محمد ﷺ اور اسکے مقصد آمد کے درمیان تم حائل نہ ہو گے ‘ یا یہ مختلف قبائل کی پوری جماعت یک نفس ہو کر بھاگ جائے گی (یعنی میں اس ساری جماعت کو لے کر چلا جاؤں گا) ۔ قریش نے کہا : جلیس ! خاموش ہوجا ‘ ہمارے معاملہ میں دخل نہ دے۔ ہم اپنے لئے جو بات پسند کریں گے ‘ اسی کو اختیار کریں گے۔ ایک شخص جس کا نام مکرز بن حفص تھا ‘ کھڑا ہوا اور بولا : مجھے ان کے پاس جانے کی اجازت دو (لوگوں نے اجازت دے دی ‘ مکرز روانہ ہوگیا) جب صحابہ کے سامنے پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ مکرز ہے ‘ یہ غدار آدمی ہے ‘ یا فرمایا : یہ بدکار آدمی ہے۔ جب مکرز ‘ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺ نے اس سے وہی فرمایا ‘ جو بدیل اور عروہ سے فرمایا تھا۔ مکرز لوٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس چلا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ جواب دیا تھا ‘ اس کی اطلاع دے دی۔ محمد بن اسحاق اور محمد بن عمروغیرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ پر جس کو ثعلب کہا جاتا تھا ‘ خراش بن امیہ کو سوار کر کے سرداران قریش کے پاس بھیجا تاکہ ان کو رسول اللہ ﷺ کے آنے کی غرض معلوم ہوجائے۔ عکرمہ بن ابی جہل نے اونٹ کی کونچیں کاٹ دیں اور خراش کو قتل کردینے کا ارادہ کیا ‘ لیکن مختلف قبائل کے گروہ نے خراش کو بچا لیا اور راستہ کی رکاوٹ ختم کردی۔ خراش نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر سرگذشت بیان کردی۔ بیہقی نے حضرت عروہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب حدیبیہ میں فروکش ہوگئے تو قریش خوف سے گھبرا گئے۔ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ میں سے کسی کو بطور قاصد بھیجنے کا ارادہ کیا ‘ چناچہ حضرت عمر بن خطاب کو بھیجنے کیلئے طلب فرمایا۔ حضرت عمر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے قریش سے اپنی جان کا اندیشہ ہے ‘ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کا (کتنا سخت) دشمن ہوں۔ بنی عدی میں سے کوئی وہاں میری حفاظت کرنے والا بھی نہیں ہے۔ میں ایک ایسا شخص حضور ﷺ کو بتاتا ہوں جو مکہ میں مجھ سے زیادہ معزز اور محفوظ ہے یعنی عثمان بن عفان۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ قریش کے پاس جاؤ اور ان کو اطلاع دے دو کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں ‘ بلکہ عمرہ کرنے آئے ہیں اور ان کو اسلام کی دعوت بھی دینا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ مکہ میں جو مؤمن مرد اور عورتیں ہیں ‘ ان کے پاس جا کر ان کو فتح کی بشارت دینا اور خبر پہنچا دینا کہ اللہ مکہ میں اپنے دین کو غلبہ عطا فرمائے گا ‘ یہاں تک کہ کوئی شخص مکہ میں اپنے ایمان کو پوشیدہ نہ رکھے گا۔ حضرت عثمان ‘ قریش کے پاس جانے کیلئے بلدح کی طرف سے گذرے ‘ بلدح والوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت عثمان نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے اسلئے بھیجا ہے کہ میں تم کو اسلام کی دعوت دوں اور اللہ کی طرف بلاؤں اور تم سب اللہ کے دین میں داخل ہوجاؤ ‘ کیونکہ اللہ اپنے دین کو ضرور غالب کرے گا اور اپنے نبی ﷺ کو عزت عطا فرمائے گا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ تم کو (مخالفت کرنے کی) ضرورت ہی نہیں ہے ‘ وہ یہ کہ دوسرے لوگ اگر رسول اللہ ﷺ پر غالب آگئے تو تمہارا یہی مقصد ہے جو پورا ہوجائے گا اور اگر رسول اللہ ﷺ غالب آگئے تو تم کو اختیار ہوگا کہ اور لوگوں کی طرح دین میں داخل ہوجانا ‘ یا جنگ کرنا۔ تمہاری تعداد تو (بہرحال) بہت ہے ‘ مگر لڑائی نے تم کو انتہائی کمزور کردیا اور تمہارے بزرگوں کو فنا کردیا۔ ایک بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی سے لڑنے نہیں آئے ‘ عمرہ کرنے آئے ہیں۔ آپ کے ساتھ قربانی کے اونٹ ہیں جن کی گردنوں میں قلادے ہیں ‘ قربانی کے بعد وہ واپس چلے جائیں گے۔ مشرکوں نے کہا : جو کچھ آپ نے کہا ‘ ہم نے سن لیا ‘ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ آپ واپس جا کر اپنے ساتھی سے کہہ دیں کہ وہ ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ حضرت عثمان سے ابان بن سعید کی ملاقات ہوئی ‘ ابان آئندہ مسلمان ہوگئے تھے ‘ ابان نے آپ کو مرحبا کہا اور اپنی حفاظت میں لے لیا اور کہا : آپ اپنے کام میں کوتاہی نہ کریں۔ پھر ابان گھوڑے سے جس پر سوار تھے ‘ اتر آئے۔ حضرت عثمان کو آگے زین پر سوار کیا اور خود پیچھے بیٹھ گئے اور حضرت عثمان سے کہا : اپ آئیں جائیں ‘ کسی سے خوف نہ کریں۔ سعید کے بیٹے حرم میں بڑی عزت والے تھے ‘ ابان حضرت عثمان کو مکہ میں لے گئے۔ آپ سرداران قریش کے ایک ایک فرد کے پاس گئے (اور گفتگو کی) لیکن سب نے آپ کی بات پلٹ دی اور یہی کہا کہ محمد ﷺ کبھی مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ حضرت عثمان کمزور مسلمان مردوں اور عورتوں کے پاس گئے جو کمزوری کی وجہ سے مکہ میں رہ گئے تھے اور ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں عنقریب مکہ میں (فتح یاب ہو کر) آنے والا ہوں ‘ مکہ کے اندر کوئی بھی اپنے ایمان کو چھپا کر نہیں رکھے گا (یعنی کسی مؤمن کو خوف نہیں ہوگا) مسلمان یہ پیام سن کر خوش ہوئے اور حضرت عثمان سے کہا : ہماری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو سلام کہہ دینا۔ حضرت عثمان جب پیام رسانی سے فارغ ہوگئے تو قریش نے کہا : اگر آپ چاہیں تو بیت اللہ کا طواف کرلیں۔ آپ نے فرمایا : جب تک رسول اللہ ﷺ طواف نہ کرلیں ‘ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ حضرت عثمان تین روز مکہ میں رہے اور قریش کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ ادھر حدیبیہ میں مسلمان کہنے لگے کہ عثمان تو ہمارے پاس سے نکل کر بیت اللہ پہنچ گئے اور طواف کرنے لگے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر عثمان اتنے اتنے سال بھی وہاں رکے رہیں ‘ تب بھی جب تک میں طواف نہیں کروں گا ‘ وہ بھی نہیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مامور کردیا تھا کہ رات کو پہرا دیں ‘ چناچہ پہرے دار تین شخص بنائے گئے جو باری باری سے چوکیداری کرتے تھے ‘ اوس بن اوبی ‘ عباد بن بشر ‘ محمد بن مسلمہ۔ ایک رات جبکہ حضرت عثمان مکہ میں تھے ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رسول اللہ ﷺ کی چوکیداری کر رہے تھے۔ قریش نے پچاس آدمی مکرز بن حفص کی زیر قیادت مسلمانوں کے پڑاؤ کی طرف بھیجے اور ان کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے گرداگرد چکر لگائیں ‘ شاید مسلمانوں کی طرف سے غفلت کا موقع مل جائے (اور وہ رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں) ۔ محمد بن مسلمہ نے ان کو پکڑ لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے جو مکرز کو غدار کہا تھا ‘ وہ بات پوری ہوگئی۔ کچھ مسلمان ‘ رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے حضرت عثمان کی امان کے ذیل میں یا پوشیدہ طور پر مکہ میں داخل ہوگئے تھے۔ کرز بن جابر فہری ‘ عبد اللہ بن سہیل بن عمرو بن عبدالشمس ‘ عبد اللہ بن حذافہ سہمی ‘ ابو الروم بن عمیر بن عمرو ‘ عمیر بن وہب جمحی ‘ حاطب بن ابی بلتعہ اور عبد اللہ بن امیہ کے مکہ میں داخل ہونے کی قریش کو اطلاع مل گئی ‘ اور ان کو گرفتار کرلیا گیا۔ قریش کو یہ بھی اطلاع مل گئی تھی کہ محمد بن مسلمہ نے ان کے آدمیوں کو پکڑ لیا ہے ‘ اسلئے قریش کی ایک جماعت (خفیہ طور پر) مسلمانوں کی طرف آئی (مسلمانوں کو بھی اطلاع مل گئی) اور دونوں جماعتوں میں سنگ باری اور تیر اندازی ہونے لگی۔ مسلمانوں نے بارہ سواروں کو گرفتار کرلیا۔ حضرت ابن زنیم ایک پہاڑی پر چڑھ گئے تھے ‘ مشرکوں نے تیر مار کر ان کو شہید کردیا۔ اسی اثناء میں رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا گیا ‘ یہ خبر سن کر حضور ﷺ نے لوگوں کو بیعت کیلئے طلب فرمایا۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت سلمہ بن اکوع کی روایت سے اور بیہقی نے حضرت عروہ کی روایت سے اور ابن اسحاق نے زہری کی روایت سے اور محمد بن عمر نے اپنے شیوخ کی سند سے بیان کیا کہ حضرت سلماہ نے کہا : ہم دوپہر کو لیٹے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا دی : لوگو ! روح القدس نازل ہوگیا ‘ بیعت کرو ‘ بیعت کرو ‘ اللہ کا نام لے کر نکل کھڑے ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت سلمہ کا قول نقل کیا : سب لوگوں سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی ‘ پھر دوسرے نے ‘ پھر تیسرے نے ‘ یہاں تک کہ جب آدھے آدمی بیعت کرچکے تو حضور ﷺ نے فرمایا : سلمہ ! بیعت کر۔ میں نے کہا : (یا رسول اللہ ﷺ ! ) میں تو بیعت کرچکا۔ فرمایا : اور بھی۔ میں نے دوبارہ بیعت کرلی۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اور لوگوں سے بیعت لی۔ جب آخری آدمی بھی بیعت کرچکا تو فرمایا : کیا تو بیعت نہیں کرے گا ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں تو سب سے پہلے اور درمیان میں بیعت کرچکا۔ فرمایا : اور سہی۔ چناچہ میں نے تیسری بار بھی بیعت کرلی۔ صحیح بخاری میں نے کہ دریافت کیا گیا : تم لوگ کس بات پر بیعت کرتے تھے ؟ حضرت سلمہ نے کہا : موت پر۔ صحیح مسلم میں آیا ہے کہ حضرت جابر نے فرمایا : ایک پھل دار درخت کے نیچے جبکہ حضرت عمر ‘ حضور ﷺ کا دست مبارک پکڑے ہوئے تھے ‘ ہم نے حضور ﷺ کی بیعت کی ‘ سوائے جد بن قیس کے اور سب نے کی ‘ جد اپنے اونٹ کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔ طبرانی نے حضرت ابن عمر کی روایت سے اور بیہقی نے شعبی کی روایت سے اور ابن مندہ نے زید بن حبیش کی روایت سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بیعت کیلئے طلب فرمایا تو سب سے پہلا شخص جو (بیعت کرنے کیلئے) رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا ‘ ابو سنان اسدی تھا۔ ابو سنان نے عرض کیا : ہاتھ پھیلائیے ‘ میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم اس بات پر بیعت کرو جو تمہارے دل میں ہے۔ حضرت ابن عمر کی روایت میں آیا ہے کہ ابو سنان نے کہا : میرے دل میں کیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : (تمہارے دل میں یہ ہے کہ) تلوار سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اتنا لڑوں کہ یا اللہ غالب کر دے یا میں مارا جاؤں۔ ابو سنان نے بیعت کرلی اور ابو سنان کی بیعت کے موافق دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کرلی۔ بیہقی نے حضرت انس کی روایت سے اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان کا اس وقت حکم دیا ‘ جب حضرت عثمان ‘ قاصدرسول ﷺ کی حیثیت سے مکہ والوں کے پاس گئے ہوئے تھے ‘ لوگوں نے حضور ﷺ سے بیعت کی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام سے گیا ہے۔ یہ فرما کر اپنا ایک ہاتھ ‘ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا : یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ حضور ﷺ کا دست مبارک عثمان کیلئے اور لوگوں کیلئے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔ قریش نے سہیل بن عمر اور حویطب بن عزی اور مکرز بن حفص کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا (اول الذکر دونوں شخص مسلمان ہوگئے تھے) سہیل نے کہا : آپ کے آدمیوں کو جو روک لیا گیا تھا اور کچھ لوگوں نے آپ سے قتال بھی کیا تھا ‘ وہ ہمارے اصحاب الرائے کے مشورہ سے نہیں ہوا تھا ‘ نہ ہم کو یہ بات پسند تھی۔ ہم کو تو اس کا علم بھی اس وقت تک نہیں ہوا ‘ جب تک ہم کو یہ خبر نہیں پہنچی۔ یہ فعل کچھ بیوقوفوں کا تھا ‘ اسلئے ہمارے جن ساتھیوں کو آپ نے پہلی بار اور دوسری بار گرفتار کیا ہے ‘ ان کو چھوڑ دیجئے۔ حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا معاملہ تو ظاہر ہوچکا ہے کہ یہ خبر غلط تھی ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تک تم لوگ میرے ساتھیوں کو نہیں چھوڑو گے ‘ میں تمہارے آدمیوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ سہیل اور اس کے ساتھیوں نے کہا : آپ نے یہ بات انصاف کی کہی۔ اس کے بعد سہیل اور اس کے ساتھیوں نے قریش کے پاس شتیم بن عبدمناف تیمی کو بھیجا اور قریش نے جو قیدی ان کے پاس تھے ‘ ان کو بھیج دیا۔ یہ گیارہ اشخاص تھے ‘ ایک حضرت عثمان اور دس ان کے ساتھی۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی قریش کے آدمیوں کو جو مسلمانوں کے پاس قیدی تھے ‘ چھوڑ دیا۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top