Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 14
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین يَغْفِرُ : وہ بخش دے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دے مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس کو وہ چاہے وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کی ہے۔ وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
واللہ ملک السموت والارض یغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء وکان اللہ غفورًا رحیمًا اور تمام آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے ‘ وہ جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔ اور اللہ بڑا غفور ‘ رحیم ہے۔ وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْم باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اس جملہ میں درپردہ اظہار ہے اس امر کا کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ان کا ایمان ہی نہیں ہے ‘ کیونکہ اس طرح کی بدگمانیاں اور رسول کے ساتھ نہ جانا تقاضائے ایمان کے خلاف ہے۔ شرط کی جزاء محذوف ہے ‘ یعنی کسی کا ایمان نہ لانا ہم کو ضرر نہیں پہنچاتا ‘ اس سے ہمارا نقصان نہیں ہوتا۔ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا۔ سعیرًا کی تنوین ہولناکی کو ظاہر کر رہی ہے ‘ یعنی ہولناک ‘ دہکتی ‘ بھڑکتی آگ۔ بجائے ضمیر کے للکافرین صراحت کے ساتھ کہنا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو شخص اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان نہ لائے ‘ وہ کافر ہے اور کفر کی وجہ سے دوزخ کا مستحق ہے۔ لِمَنْ یَّشَآء یعنی اس پر نہ مغفرت واجب ہے ‘ نہ سزا دینا لازم۔ وَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا یعنی اللہ کی ذات صفات تو مغفرت اور رحمت ہیں اور عذاب دینے کا فیصلہ عارضی ہے۔
Top