Tafseer-e-Mazhari - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تمہیں سیدھے رستے چلائے
لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی فروگذاشتیں معاف فرما دے۔ لِّیَغْفِرَ یہ فتح کی علت غائی (یعنی نتیجہ اور مقصد) ہے ‘ کافروں سے جہاد ‘ شرک کو مٹانے اور دین کو سربلند کرنے کی کوشش ‘ ناقص نفوس کو شروع میں زور اور قوت کے ساتھ کامل بنانا (یعنی کافروں پر بزور مسلمانوں کو غالب آنا) تاکہ آئندہ آہستہ آہستہ اختیار کر کے درجۂ کمال تک پہنچ سکیں اور کمزور مسلمانوں کو ظالموں کے ہاتھوں سے رہا کرانا ‘ ان تمام امور کا نتیجہ اور غایت مغفرت ہی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک لیغفر کا لام (غایت کیلئے نہیں بلکہ) لامِ کَےْ ہے (جس کا ترجمہ ہے تاکہ) مطلب یہ ہوگا کہ آپ کیلئے مغفرت کے ساتھ تکمیل نعمت اور فتح ہوجائے۔ حسین بن فضل نے کہا : اس لام کا تعلق آیت واسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَم وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ سے ہے ‘ جیسے لِاِیْلاَفِ قُرَیْشٍ کے لام کا تعلق فَجَعَلَھُمْ کَعْصَفٍ مَّاْکُوْلٍ سے ہے۔ حسین ابن فضل کی یہ تفسیر بعید از عقل ہے۔ بعض کے نزدیک فاشْکُرْ فعل محذوف ہے اور لیغفر کا اس سے تعلق ہے ‘ یا فاستغفر محذوف ہے اور لام کا اسی سے تعلق ہے۔ یہ قول محمد بن جریر کا ہے ‘ ابن جریر نے لکھا ہے : اس جگہ لیغفر کا رجوع اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ کی جانب ہے۔ نصر اور فتح حاصل ہوجانے کے بعد اللہ نے (واستغفرہ فرمایا ہے) طلب مغفرت کا حکم دیا ہے ‘ اسی طرح یہاں بھی استغفر محذوف ہے۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَم وَمَا تَأخَّرَ یعنی وہ تمام فروگذاشتیں جو رسالت سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں آپ سے ہوگئی ہوں اور وہ تمام زلات (لغزشیں) جو رسالت کے بعد یعنی اس سورت کے نزول کے بعد آپ سے ہوجائیں اور ان پر عتاب ہوسکتا ہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی معصیت کا ارتکاب کیا ہو۔ ابرار (صلحاء) کی نیکیاں بھی اہل قرب کیلئے برائیاں (لغزشیں ‘ فروگذاشتیں ‘ غلطیاں) ہوتی ہیں۔ سفیان ثوری نے کہا : ماتقدم سے مراد وہ فروگذاشیں ہیں جو اسلام سے پہلے آپ سے ہو چکیں اور ماتاخر سے نہ کی ہوئی غلطیاں مراد ہیں ‘ اس سے مراد ہے پختہ معافی۔ یہ ایک محاورہ ہے ‘ عرب کہتے ہیں : زید نے اس شخص کو بھی دیا جس کو اس نے دیکھا اور اس کو بھی دیا جس کو کبھی نہیں دیکھا ‘ اس کو بھی مارا جس کو پایا اور اس کو بھی جس کو نہیں پایا۔ عطاء خراسانی نے کہا : ماتقدم سے مراد ہیں : حضرت آدم اور حضرت حواء کی غلطیاں اور ماتاخر سے مراد ہیں امت کے گناہ ‘ یعنی آپ کی برکت سے اللہ آدم و حواء کی غلطیاں اور آپ کی دعاء سے آپ کی امت کے گناہ معاف کر دے۔ ویتم نعمتہ علیک اور آپ اپنے احسانات کی تکمیل کر دے۔ اس آیت میں اتمام نعمت ‘ تکمیل دین ‘ کلمۂ اسلام کی سربلندی اور جاہلیت کے قلعہ کو مسمار کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے کہ مسلمان سکون و اطمینان کے ساتھ حج اور عمرہ کریں گے ‘ مشرکوں کا کوئی دخل نہیں رہے گا ‘ مسلمانوں کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اس وعدہ کے ایفاء کا ذکر سورة المائدۃ کی آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْالخ میں کیا گیا ہے ‘ ان ساری نعمتوں کی تکمیل نتیجہ ہے فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کا۔ ویھدیک صراطا مستقیما اور آپ کو سیدھے راستے پر لے چلے۔ صراط مستقیم سے مراد ہے تبلیغ رسالت ‘ اصول اور ضوابط ‘ حکومت و ریاست اور نبوت۔ بعض علماء کے نزدیک یَھْدِیَکَ سے مراد ہے یَھْدِیَ بِکَ (آپ کے ذریعہ سے اللہ بتادے گا سیدھا راستہ) ۔ بعض نے کہا : یَھْدِیَکَ سے مراد ہے آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے گا ‘ یا یہ مطلب ہے کہ فتح کے ساتھ ‘ مغفرت کی نعمت دے گا اور کمال دین کی ہدایت بھی کر دے گا کہ آپ کے بعد دین کے منسوخ ہونے کا جواز بھی ممکن نہ ہو۔
Top